Zina Ek Qarz Hai Novel Part 12 by Bushra Sheikh | Fahan Speak - Farhan Speak

Thursday, September 28, 2023

Zina Ek Qarz Hai Novel Part 12 by Bushra Sheikh | Fahan Speak


 
Zina Ek Qarz Hai Novel Part 12 by Bushra Sheikh | Fahan Speak, Urdu Novels, Novels, motivational novels, sad novels
Zina Ek Qarz Hai Novel Part 12 by Bushra Sheikh | Fahan Speak
 


 ناول: زنا ایک قرض ہے۔

نیو اٸیر سپیشل۔۔۔۔۔

تحریر: بشریٰ شیخ

قسط نمبر:  12


عنایت کی طبیعت خراب تھی اسی لیے وہ آفس نہیں گٸے

گھر سے ہی ورک دیکھ رہے تھے


مادخ کو ضروری فاٸل پہ ان کے ساٸن چاہیے تھے


عنایت نے اس کو گھر ہی بلا لیا


مادخ ساٸن کروا کے واپس جانے لگا جب اس کی اچانک میرال سے ٹکر ہوٸی


وہ اتنی بےخبر تھی کے اس کا موبائل وہی پڑا رہ گیا اور وہ مادخ کو بنا دیکھے ہی گھر سے باہر نکل گٸ


مادخ اس کا موبائل اٹھا کے اس کے پیچھے ہی گیا۔۔۔۔


شاید اس کو کہی جانے کی جلدی تھی وہ اپنے قدم تیزی سے روڈ کی طرف بڑھا رہی تھی


مادخ کو اسکی حالت ٹھیک نہیں لگی وہ بھی اس کے پیچھے چل پڑا فاٸل ڈرائيور کو دے دی تھی کے آفس پہنچا دے

وہ میرال کا پیچھا کررہا تھا جو اب ٹیکسی روک رہی تھی


مادخ کو حیرت ہوٸی گھر میں گاڑیوں کے باوجود وہ ٹیکسی پہ کیوں جارھی ہے؟؟

اس نے بھی ٹیکسی لی اور اس کو میرال کی ٹیکسی کا پیچھا کرنے کو کہا

اب وہ کسی بہت ہی عجیب سے علاقے میں موجود تھے

یہ کوٸی تھرڈ کلاس ہوٹل نما جگہ تھی

میرال اندر چلی گٸ


مادخ نے کبھی اپنے قدم اندر کیطرف بڑھاۓ لیکن اس کو میرال کہی نظر نہیں آرہی تھی

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


یار جانی کہا ہے؟؟ پتا ہے نا آج ہم چاروں نے کیا کرنا تھا؟؟

اس بار تیرے بھاٸی نے کمال کردیا۔۔۔۔ کیا بچی پھنساٸی ہے؟؟

وہ سچ میں ہی بچی ہے چھوٹی سی

سکندر نے کہا


ہاں ہاں یاد ہے۔۔۔۔ تم تینوں پلان کے مطابق کام کرو

میں یہاں ایک ضروری کام میں پھنس گیا ہو جیسے ہی فرصت ملتی ہے میں تم لوگوں کے پاس پہنچ جاٶ گا

اور یار

اور ہاں ویڈیو ضرور بھیجنا اپنے بھاٸی کو اس نے ہنستے ہوۓ کہا


ایسا کوٸی سین نہیں ہے۔۔۔ جب ویڈیو واٸرل ہوگی تب ہی دیکھ لیو اپنے باقی تینوں بھاٸیوں کے کارنامے اور ہاں ہم نے پلان میں تھوڑا چینج مارا ہے


وہ کیا؟؟


ہم لڑکی کا چہرہ بھی دیکھاٸیں گے۔۔۔آخر اس لڑکی کے گھر والوں کو بھی پتا چلے کے ان کی عزت اپنی عزت کہا کہا نیلام کرتی پھر رہی ہے


سکندر ایسے کوٸی مسٸلہ نا ہو جاۓ


دیکھ بھاٸی مسٸلہ کیا ہونا نا تو ہم اس لڑکی یا باقی لڑکیوں سے زبردستی کرتےہیں اور نا ہی ان کو ان کے گھر سے اٹھا کے لاتے ہیں

خود ہی آتی ہیں اپنی مرضی سے چل کر

کس نے کہا ہم جیسے غیروں کے پیچھے اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولو

اگر ہم اپنے نفس کے مزے لیتے ہیں تو وہ بھی یہی کرتی ہیں

اپنے نفس کی تسکین کے لیے پراۓ لڑکوں سے باتیں کرنا ان سے یاریاں لگانا چھپ چھپ کے ملنا۔۔۔ نا کریں وہ سب

جب تب ایسی لڑکیاں زندہ ہیں تب تک ہم جیسے بھی ان کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے گے


او بس بھی کر کیا ہوگیا ہے مجھے لگتا ہے تیرا دل کسی خاص لڑکی کی وجہ سے نرم پڑرہا ہے


نہیں یار میرا دل تو نہیں ہاں البتہ شہباز ضرور نرم پڑرہا ہے سکندر نے موبائل شہباز کو دیا

دیکھ بھاٸی اگر ایسا ہے تو تو ہم تینوں کو چھوڑ اور لے جا اپنی اس محبوبہ کو کہی لیکن یہ یاد رکھیو جو لڑکی تیرے سے چکر چلا سکتی ہے محبت کے نام پہ اپنے محبوب کے سامنے اپنے کپڑے اتار دیے تو سوچ کیا وہ اچھی لڑکی ہوگی؟؟


نہیں یار وہ ایسی نہیں ہے وہ بہت معصوم ہے ۔۔ میرے اور اس کے بیچ ایسا ویسا کچھ نہیں ہوا ۔۔ میں تو کہتا ہو اس چھوٹی بچی کو ہم چھوڑ دیتے ہیں یار کہا ہم تیس بتیس سال کے اور کہا وہ سترہ سال کی بچی وہ مر جاۓ گی

شہباز کے دل میں اب اس لڑکی کے لیے سچے جذبات پیدا ہورہے تھے

وہ آج پہلی بار کسی کے لیے رو رہا تھا


دیکھ شہباز جو ہم کرتے ہیں اس میں عمروں کو نہیں دیکھتے بس اپنی غرض سے مطلب ہوتی ہے اور تو بھی یہی کر

شہباز کی کال کاٹ کے جانی نے کمال کو کال کی اور کہا شہباز کو بہت زیادہ ش*را*ب پلاٶ تاکے وھ پیچھے نا ہٹے

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


ضحک ڈیول کے بتاۓ ہوۓ پتے پہ پہنچ گٸ تھی

وہ بہت خوش تھی

ڈیول اس نے آواز دی دیکھو میں آگٸ

وہ چلتی ہوٸی شہباز کے سامنے کھڑی ہوگٸ

جی ہاں شہباز ہی ڈیول ہے


ضحک تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا


پر تم نے خود ہی بلایا تھا کہا تھا اگر میں نا آٸی تو تم ناراض ہو جاٶ گے


ہاں کہا تھا میں نے۔۔۔ کیا تمہارے پاس خود عقل نہیں تھی کے رات کے اندھیرے میں ایک لڑکے نے بلایا اور تم اپنے گھر والوں کی عزت کی پرواہ کیے بنا ملنے پہنچ گٸ اب وہ غصے میں چیخ رہا تھا

ڈیول ہو میں ڈیول۔۔۔پتا بھی ڈیول کیسےکہتے ہیں؟؟

شیطان کو کہتے ہیں چلی جاٶ تم۔۔۔ باہر کی طرف اشارہ کرکے کہا


ضحک اس کے چیخنے سے رونے لگی


چلی جاااااااٶٶٶٶٶٶ وہ زور سے چیخ رہا تھا


وہ روتی ہوٸی باہر کے دروازے کی طرف بڑھ گٸ

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


میرال عرزم کے بتاۓ ہوۓ کمرے میں آٸی


آٶ میری جان مجھے پتا تھا تم ضرور آٶ گی دیکھو میں اور میرا یہ کمرہ تمہارا منتظر ہے ہاہاہاہا


عرزم پلیز وہ پکس ڈیلیٹ کردو۔۔۔ اس نے التجا کی


کردونگا اتنی بھی کیا جلدی ہے؟؟ پہلے میرا دل کو بہلنے دو۔۔۔

بیٹھ جاٶ زرا سکون سے میرے ساتھ مشروب پی لو پھر چلی جانا حکم دیا


وہ خاموشی سے بیٹھ گٸ عرزم پلیز اب اس نے باقاعدہ ہاتھ جوڑے


میرال کے جوڑے ہاتھوں کو نظرانداز کرکے مشروب کا گلاس اس کی طرف بڑھایا


نن نہیں عر عرزم  اس نے ڈرتے ہوۓ انکار کیا


پیو ورنہ تو اس نے موبائل نکال کے لہرایا


میرال نے گلاس پکڑ لیا اور منہ کے لگایا


عرزم مسکرانے لگا

 

ایک دو گھونٹ پیتے ہی اس کو نشہ سا محسوس ہونے لگا اس کا سر بھاری ہو گیا آنکهيں بند ہونے لگیں

عرزم مجھے چکر آرہے ہیں اس شربت میں کیا تھا؟؟


میری چند نشے کی گولیاں تھیں اور کچھ نہیں اس نے میرال کواپنی بانہوں میں لیتے ہوۓ کہا

اس کا ڈوپٹہ اتار دیا اس کے کپڑے جسم سے الگ کیے


وہ نشے کی حالت میں اس کو پیچھے کرنے کی کوشیش کررہی تھی

دد دور رہو ۔۔۔ چھچھ چھوڑوں مم مجھے


ہششششش جان۔۔۔ تھپڑ کی قیمت وصول کرونگا بس اس نے آنکھ مارتے ہوۓ کہا

پھر وہ موبائل سیٹ کرنے لگا ویڈیو بنانے کے لیے

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


مادخ یہاں وہاں دیکھ رہا تھا کے میرال کہا گٸ ہے۔۔۔

اچانک اس کے کندھے پہ کسی نے ہاتھ رکھا


صفدر تم؟؟


مادخ تم یہاں کیا کررہے ہو؟؟


میں یہاں کسی کو ڈھونڈنے آیا ہو مادخ نے کہا

لیکن تم یہاں اور یہ کیا ہورہا ہے؟؟ اس نے باہر سے اندر آتی پولیس کو دیکھا جو اب ہر کمرے کا دروازہ کھول رہے تھے جہاں سے برہنہ لڑکے لڑکیاں نکل رہے تھے

سب جگہ شور تھا چھاپہ پڑ گیا


یار خیر تو کس کو ڈھونڈ رہے ہو؟؟ وہ بھی ایسی جگہ پہ؟؟ صفدر نے کہا


مطلب کیسی جگہ؟؟ مادخ نے حیرت سے پوچھا


یار تمہیں یہ سارا ماحول دیکھ کے بھی سمجھ نہیں آرہی؟؟ حد ہے ویسے۔۔۔ اس جگہ کا مالک ہوٹل کے نام یہاں لڑکے لڑکیوں کی ڈیڈ کرواتا ہے وہ بھی رومز میں۔۔۔ اور یہاں کال گرلز آتی ہیں یا وہ لڑکیاں جن کو کوٸی بلیک میل کررہا ہو

ہم نے ایسی بہت سی جگہوں پہ ریٹ کی ہے

لڑکے معصوم لڑکیوں کو نیواٸیر کے نام پہ یہاں لاۓ ہیں اور ان کی عزتوں سے کھیل رہے ہیں


مادخ کے دماغ میں میرال کا خیال آیا

وہ کال گرل نہیں ہے ۔۔۔ تو کیا اس کو یہاں بلیک میل کرکے بلایا گیا ہے؟؟

پھر ہاتھ میں پکڑا اس کا موبائل دیکھا۔۔۔

وہ ان لاک ہی تھا

اس نے جلدی سے واٹس ایپ کھولی جہاں عرزم کی بھیجی ہوٸی نازیب تصویریں تھیں

اس کے نیچے اس جگہ کا ایڈریس اور کمرہ نمبر بھی تھا


صفدر ہمیں ابھی کے ابھی روم نمبر ایک سو ایک میں جانا ہے اس نے کہہ کے دور لگا دی


صفدر بھی اس کے پیچھے گیا


کمرے کے باہر پہنچ کے مادخ نے صفدر کو کہا پہلے میں جاتا ہوں پھر فورن تم آنا

وہ نہیں چاہتا تھا کے میرال کو وہ کسی بھی غلط حلیے میں دیکھے

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


ضحک فلیٹ کا دروازہ کھولنے ہی لگی تھی کے سکندر نے اس کو پکڑ لیا


کہا جارہی ہو بلبل؟؟ وہ اس کو کمرے میں لے گیا اور باہر سے دروازہ بند کردیا


کمال نے کیمرے سیٹ کرلیے تھے


شہباز ابھی تک وہی کھڑا رو رہا تھا اس کو یقین ہوگیا تھا کے ضحک جاچکی ہے


سکندر اور کمال نے شہباز کو تسلی دی (جھوٹ میں)


وہ اس کو لے کے بیٹھ گٸے خود بھی ش*ر*ا*ب پی رہے تھے اور زبردستی اس کے منہ میں انڈیل رہے تھے


شہباز اب فل نشے میں تھا اس کو ہر طرف ضحک نظر آرہی تھی


یار تو کمرے میں جاکے آرام کرلے سکندر نے اس کو کہا

اور جس کمرے میں ضحک تھی اس میں بھیج دیا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


ڈوووول تم یہاں؟؟ یار کیو تم مجھے ہر جگہ نظر آرہی ہو؟؟ وہ نشے میں بول رہا تھا

چلی جاٶ تم یہاں سے ۔۔۔ میں اچھا انسان نہیں ہو۔۔۔

میں شیطان ہو


ڈڈ ڈیول مم مجھے جانے دو پلیز۔۔۔ اس نے روتے ہوۓ کہا

ضحک کو شہباز کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی


ڈول تم تم کیو رو رہی ہو؟ میں تمہارے آنسو نہیں دیکھ سکتا

اس نے ضحک کو بانہوں میں لے کے کہا

اپنے لبو سے اس کے آنسو چننے لگا


چھچھ چھوڑو مجھے اس معصوم کمزور لڑکی نے اس کو خود سے دور کرنے کی کوشیش کی


لیکن وہ لمبا چوڑا مرد اس سے ایک انچ بھی نہیں ہلایا گیا


اس نے ضحک کو بیڈ پہ دھکا دیا اور اس کے کپڑے پھاڑ دیے

مم میں شیطان ہو۔۔۔ شیطان

تم تم جاتی کیو نہییییںںں؟؟؟ وہ غصے اور نشے کی ملی جھلی کیفیت میں بول رہا تھا

میں اپنی ڈول کو بہت پیار کرتا ہو اس کے اوپر جھکتے ہوۓ بولا

ضحک کی یاد اور شر*ا*ب کا نشہ اس کے سر چڑھا ہوا تھا وہ آہستہ آہستہ اس کے وجود پہ حاوی ہوتا گیا


وہ بہت چیخی روٸی لیکن کوٸی فائدہ نہیں تھا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


مادخ نے جیسے ہی دروازہ کھولا میرال کو کمرے میں برہنہ بیہوش حالت میں پایا

وہ فورن آگے بڑھا اور بیڈ شیٹ سے اس کو پورا کور کیا


اتنے میں صفدر بھی اندر آچکا تھا

اس نے کمرے میں آتے ہی تلاشی لی لیکن اس کو وہاں کوٸی نہیں ملا

جو بھی تھا وہ بہت تیز نکلا ونڈو سے پاٸپ کے ذریعے نیچے اتر گیا

صفدر نے کھڑکی کھلی دیکھ کے کہا

خیر ہمارے سے کب تک بھاگے گا؟؟

تم ٹھیک تو ہو؟؟ اس نے مادخ سے پوچھا

جو اپنا سر پکڑ کے بیٹھا تھا

اور یہ کون ہے؟؟ چادر میں لپٹی لڑکی کی طرف اشارہ کیا


یہ ؟ وہ سوچ میں پڑگیا کے کیا کہے۔۔۔ یہ ۔۔ بس ہے کوٸی غلطی سے یہاں تک پہنچ گٸی

یار تھوڑی مدد کردے میری۔۔۔مجھے اس کو یہاں سے لے کے جانا ہے بغیر کسی کی نظروں میں آۓ


ہہہمم ایسا کرو تم یہی رکو۔۔۔ میں نیچے جاکے راستہ کلیٸر کروا کے تمہیں میسج کرتا ہو تم ان محترمہ کو لے جانا

ویسے تیرا پرانا نمبر تو آف ہے


ہاں وہ نمبر چینج کیا ہے مادخ نے اس اپنا نمبر دے دیا

صفدر کے جانے کے بعد وہی بیٹھ گیا


جیسے ہی صفدر کا میسج آیا اس نے میرال کے چادر میں لپٹے بیہوش وجود کو اٹھایا اور باہر نکل گیا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


ضحک کو برباد کرکے شہباز سورہا تھا

وہ بیٹھی اپنی بربادی کا ماتم کررہی تھی

آدھی رات ہورہی تھی اور وہ بےآبرو ہوکے یہاں بیٹھی تھی

وہ کیا کرے اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی

اتنے میں دروازہ کھلا سکندر اور کمال اندر آۓ

ان کو دیکھ کے ضحک اور سمٹ گٸ

مم مجھے اپنے گگ گھر جانا ہے اس نے روتے ہوۓ کہا


چلی جانا اتنی بھی کیا جلدی کمال کے اس کو اپنی طرف کھینچتے ہوۓ کہا


چھوڑوں مجھے جانے دو وہ اور زور سے رونے لگی


انہوں کے اسے منہ پہ اسی ڈوپٹہ باندھ دیا

اب وہ دونوں ہی اپنی حیوانیت دیکھا رہے تھے


پوری رات وہ لٹتی رہی روتی رہی لیکن اس کی سسکیاں سننے والا کوٸی نہیں تھا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


میرال کو مادخ اپنے گھر لے گیا تھا

اس کو پتا تھا ثمامہ اپنے ڈیڈ کے گھر تھی

اس کے ماں باپ سورہے تھے

اس کے پاس دوسری چابی تھی

روم میں لاکے اس نے میرال کو بیڈ پہ لٹا دیا

اب کیا کروں اس کا؟؟وہ سوچنے لگا

پھر ثمامہ کے کپڑوں میں سے ایک سوٹ نکال کے لایا لاٸٹ بند کرکے اس کو پہنایا پھر لاٸٹ آن کی

اب یہ ہوش میں کیسے آۓ گی؟؟؟ پھر خود سے سوال کیا

ہہہممم ہاں اپنے دوست کو کال کی وہ ڈاکٹر تھا

یار شعبی کہا ہے؟؟

ہاں تو گھر آجا۔۔۔ اپنا سامان بھی لے آ۔۔۔ وہ میری کزن بیہوش ہوگٸ ہے اس کو دیکھنا ہے۔۔۔ اوکے میں باہر گیٹ پہ ہی ہو۔۔۔

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


ڈاکٹر شعیب نے میرال کو چیک اب کر لیا۔۔ اب اس کا رخ مادخ کی طرف تھا

ہہمم یہ بتا یہ کون ہے؟؟ اس نے جانچتی نظروں سے دیکھا


بتایا تو ہے کزن ہے؟؟ مادخ نے یہاں وہاں دیکھ کے کہا


اچھا بیٹا ۔۔۔ یہ سچ میں تیری کزن ہے؟؟


ہا ہاں تو کک کیا میں جھوٹ بول رہا ہو؟؟


جہاں تک مجھے یاد ہے تو نے بتایا تھا تیرے ممی پاپا اپنے کسی رشتےدار سے نہیں ملتے ۔۔۔ یہ کزن اچانک کیسے  پیدا ہوگٸ؟؟

وہ بھی تیرے گھر میں تیرے روم میں وہ بھی اس حالت میں؟؟؟

ڈاکٹر شعیب نے انگلی گھوما کے کہا


چیک اپ ہوگیا نا؟؟ چل اب جا بھابھی ویٹ کررہی ہوگی مادخ نے اس کو باہر کی طرف بھیجا


جا رہا ہو ایک بات بتا دوں۔۔ یہ اچانک پیدا ہونے والی کزن نے الک*حل پی ہوٸی باقی رپورٹ آنے کے بعد پتا چلے گا


الک*حل؟؟؟ مادخ نے حیرت سے کہا


جی ہاں وہ بھی بڑی تگڑی والی یا پھر شاید اس میں مزید اور کچھ نشہ آور چیز ملاٸی گی تھی

اوکے باۓ،۔۔۔ اچانک بننے والی کزن کو کہنا ایسی چیزوں سے پرہیز رکھیں کہتا ہوا وہ چلا گیا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


اتنی رات ہوگٸ گڑیا نہیں آٸی سلیمہ بےچینی سے صحن کے چکر لکا رہی تھی

اتنے میں دروازہ بجا

وہ بھاگ کے دروازے پہ گٸ میری گڑیا آگٸ

جیسے ہی دروازہ کھولا

عالی میری بچی وہ روتی ہوٸی اپنی بیٹی علیھہ کے چمٹ گٸ

اتنے سالوں بعد اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھی کبھی اس کا ماتھا چومتی کبھی ہاتھ میری بچی وہ مسلسل رو رہی تھی


علیھہ کا بھی یہی حال تھا یا شاید اس سے برا حال تھا جو وہ جھیل کے آٸی تھی

اماں عرزم کہا ہے؟؟ اور گڑیا؟؟ اس نے یہاں وہاں دیکھ کے پوچھا


عرزم تو دوسرے شہر گیا ہے اور گڑیا کالج کے کسی پوگرام (پروگرام) میں گٸ تھی ابھی تک آٸی ہی نہیں

اتنی رات ہوگٸ ہے اور تو بھی اکیلی اتنی رات کو آرہی ہے؟؟


اماں تو گڑیا کی کسی کالج کی دوست سے پتا کرلے اس نے اپنی طرف سے دھیان ہٹایا


مجھے اس کی کسی دوست کا نہیں پتا۔۔ ہاں محلے کی ایک لڑکیاں ہیں جو اسی کالج میں جاتی ہے وہ گڑیا سے آگے ک جماعت میں میں ان کے گھر پتا کرکے آتی ہو

سلیمہ محلے میں چلی گٸ


اماں پہلے ہی گڑیا کی وجہ سے پریشان ہے ۔۔۔ اب میں کیا کروں؟؟ علیھہ گم سم ہو کے پیٹھ گٸ


تھوڑی دیر میں سلیمہ روتی ہوٸی آٸی عاااالی عالی وہ کہہ رہی ہے کے آج کالج میں کوٸی پوگرام نہیں ہے

عالی میری گڑیا کہا ہے؟؟؟ میری گڑیا؟؟

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


صبح ہوچکی تھی کچھ لوگوں کے لیے نیا سال خوشیاں لایا تھا

اور کچھ کےلیے غم


شہباز کی آنکھ کھلی اس نے دیکھا کمرے کے درميان میں ضحک کا برہنہ وجود پڑا ہے

وہ اٹھ کے بھاگا۔۔۔ ضض ضحک ضحک ۔۔۔ اٹھو آنکهيں کھولو لیکن وہ ایسے ہی پڑی تھی

ڈول اٹھو نا۔۔۔ تم اٹھ کیو نہیں رہی اٹھو بھی

دیکھو نا میری طرف۔۔۔ مم میں اپنی ڈول سے بب بہت پیار کرتا ہوں

ہم ہم شادی کرلیتے ہیں

آٶ اٹھو کھڑی ہو۔۔۔۔ سن رہی ہو میں کیا کہہ رہا ہو؟؟؟

تم سن رہی ہو نا؟؟ اٹھتی کیوں نہیں ؟؟ وہ ضحک کے وجود کو کندھوں سے پکڑ کے جھنجھوڑ رہا تھا

اٹھو بھی۔۔۔۔ ڈول ڈولللللل وہ چیخ رہا تھا


شہباز کی آوازیں سن کے سکندر اور کمال بھی آگٸے

کیا ہوا ہے تو چیخ کیورہا ہے؟؟ کمال نے کہا


دیکھو نا یہ اٹھ نہیں رہی۔۔۔ اس نے روتے ہوۓ کہا


کمال نے آکے ضحک کو دیکھا۔۔ یار یہ تو مر گٸ وہ خود پریشان ہوگیا


کیا بکواس کررہا ہے صبح صبح سکندر نے کہا وہ بھی آیا اور چیک کیا

ضحک کا وجود لٹھے کی مانند سفید پڑا ہوا تھا ٹھنڈا ہو رہا تھا

اس کی سانسیں بھی نہیں چل رہی تھی

یار یہ تو سچ میں مر گٸ اس نے اپنے بال کھینچے

اب ہم کیا کریں گے۔۔۔۔ یہ ان کے ساتھ پہلی بار ہوا تھا

ورنہ وہ لڑکی کو ہوس کا شکار بنا کے آگے بیچ دیتے تھے


ضحک شہباز نے اس کو گلے سے لگایا ہوا تھا وہ مسلسل رو رہا تھا


سکندر اور کمال نے شہباز کو اس سے دور کیا اور ضحک کو اسی کے ڈوپٹے میں لپیٹ دیا

فلیٹ سے باہر لے گٸے

کمال صبح صبح کا ٹائم ہے ابھی دن نہیں چڑھا اس کو کہی پھینک دیتے ہیں ورنہ ہم مارے جاٸیں گے

انہوں نے ضحک کی لاش کو لے جاکے کچرا کنڈی میں ڈال دیا


محبت برباد ہوٸی تھی

ضحک کی محبت کی شکست ہوٸی تھی

دھوکےبازوں کی جیت ہوگٸ تھی

آج ان کی ہوس جیت گٸ

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏

جاری ہے

No comments:

Post a Comment