Zina Ek Qarz Hai Novel Part 13 by Bushra Sheikh | Fahan Speak - Farhan Speak

Monday, June 24, 2024

Zina Ek Qarz Hai Novel Part 13 by Bushra Sheikh | Fahan Speak

 ناول 👈زنا ایک قرض ہے۔۔۔۔۔

نیو اٸیر سپیشل۔۔۔۔۔

تحریر 👈بشریٰ شیخ

قسط نمبر 👈 13


عرزم ابھی میرال کو لیٹا کے کیمرہ سیٹ کرنے لگا ہی تھا کے اس کے موبائل پہ میسج آیا کے پولیس کا چھاپہ پڑ گیا ہے

اس جگہ پہ اکثر اس کا آنا جانا تھا اس لیے یہاں کے لوگوں سے اس کی واقفیت تھی جب پولیس آٸی تو اس کو فورن پتا چل گیا

اس نے فورن ہی کمرے کی کھڑکی کھولی اور پاٸپ کے راستے نیچے اتر گیا

وہ بچتا بچاتا اپنے دوستوں کے پاس فلیٹ تک پہنچا

جیسے ہی سکندر نے دروازہ کھولا وہ ہاپتا ہوا اندر داخل ہوا


کیا ہوا ہے جانی؟؟ سب خیر تو ہے؟؟ سکندر نے اس کو دیکھ کے کہا

(جی ہاں وہ جانی عرزم ہی ہے)

لگتا ہے ساری رات اسی میم کے ساتھ جاگا ہے جو اب اتنا سانس چڑھ رہا ہے کمال نے آنکھ مار کے کہا


ابے چل نا ساری رات ہی برباد ہوگٸ عرزم نے پانی پیتے ہوۓ گلاس زمین پہ دے مارا

وہاں پولیس کا چھاپہ پڑ گیا اچھی بھلی ہاتھ آٸی بلبل گٸ مرتا مرتا اچا ہو بس۔۔۔۔

اور تم لوگوں نے تو بڑے مزے کیے ہونگے؟؟ اس کو کیا ہوا؟؟ اس نے خباثت سے ہستے ہوۓ کہا کہا ہے وہ چڑیا؟؟ ہمیں بھی تو اس کا دیدار کرواٶ سینے پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا

اس مجنوں کو کیا ہوا؟؟ ایسے کیوں پیٹھا ہے؟؟ اس نے شہباز کی طرف دیکھ کے کہا

اوے مجنوں ابھی تک لیلٰی کا بھوت نہیں اترا تیرے اوپر سے؟؟ ہاہاہاہا وہ زور زور سے قہقہہ لکانے لگا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


ساری رات ہوگٸ سلیمہ کا رو رو کے برا حال تھا


علیھہہ ماں کو چپ کروا کے تھک گٸ۔ حال تو اس کا بھی خراب تھا

پتا نہیں گڑیا کہا چلی گٸ ٹھی؟؟

اب تو محلے والے بھی گھر جمع ہونا شروع ہوگٸے تھے

لوگ طرح طرح کی باتیں بنارہے تھے

(کیونکہ لوگوں کا کام ہی باتیں بنانا ہے وہ نا تو کسی کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں الٹا حسد کرتے ہیں اور دوسروں کے غم میں ان کو تسلی نہیں دیتے ان کے آنسو صاف نہیں کرتے بلکہ کھڑے ہوکے جج کرتے ہیں کے فلاں ایسا ہے فلاں ویسا ہے )

خدا کے لیے آپ لوگ اپنے گھر جاٸیں علیھہہ نے ان کی باتیں سن کے کہا جو وہ اس کی بہن پہ کیچڑ اچھال رہے تھے ماں کی تربيت پہ انگلیاں اٹھارہے تھے بھاٸی کو لاپرواہ کہہ رہے تھے


ارے بیٹی ہم تو تمہارا درد بانٹنے آٸیں ہیں ایک عورت نے کہا


خالہ صغرا درد ایسے نہیں بانٹیں جاتے کے ہمارے منہ پہ ہی ہمیں سنارہی ہو۔۔۔

کسی نے آگے بڑھ کے میری ماں کو یا مجھے سینے سے لگایا؟؟

کسی نے میرے بھاٸی کو اطلاع دینے کی کوشیش کی؟؟

کسی نے یہ سوچا کے رات کے یہ ماں بیٹی صدمے میں ہیں تو اپنے گھر سے دو نوالے لا کے منہ میں ڈال دیں یا پانی پلا دیں۔۔۔۔

لیکن نہیں وہاں سب ساتھ بیٹھ کے ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے باتیں بنارہے ہیں آۓ بڑے درد بانٹنے والے۔۔۔ جب وہ بولی تو ساری بھڑاس نکال دی


محلے والے ایک ایک کرکے جانے لگے

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


میرال کو ساری رات ہی ہوش نہیں آیا وہ ابھی بھی بہیوش ہی تھی یہاں تک کے اب صبح کے گیارہ بج رہے تھے


مادخ کو اب فکر ہونے لگی کے اگر ثمامہ یا اس کے ماں باپ میں سے کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا؟؟

وہ اب میرال کے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارنے لگا شاید وہ ایسے ہی اٹھ جاۓ


ٹھنڈا پانی منہ پہ گرا تو میرال کو ہوش آنے لگا

عر عرزم نن نہیں کرو۔۔۔ پپ پلیز وہ ڈڈ ڈیلیٹ کر دو۔۔۔۔

وہ نیندوں میں بول رہی تھی


مادخ کو سمجھ آگٸ وہ کیا ڈیلیٹ کرنے کا کہہ رہی تھی کیونکہ رات وہ اس کا موبائل چیک کرچکا تھا


وہ اور اونچی آواز میں بول رہی تھی


کہی باہر آواز نا چلی جاۓ اس ڈر سے مادخ نے جھک کے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا

وہ اس کے اوپر پورا جھکا ہوا تھا کے اچانک میرال نے ہاتھوں سے اس کو دور کرنے کی کوشیش کی


میرال کے ناخن کے اس کے منہ گردن اور سینے پہ کھروچیں لگ گٸ

اس کی آنکھیں کھلی اور ساتھ ہی دروازہ کھلا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


اوے مجنوں ۔۔۔۔ ہاہاہاہا


اس کی ہنسی کی آواز سے شہباز کو وحشت ہورہی تھی

چپ چپ چپ اس نے اپنے بال نوچے

وہ اٹھ کے عرزم کے پاس آیا اس کا گریبان پکڑ لیا

سالے کمینے وہ تیری وجہ سے مر گٸ ۔۔۔۔۔۔ مر گٸ وہ تیری وجہ سے

عرزم کی آنکهوں میں آنکهيں ڈال کے چلا رہا تھا

میں نے کہا بھی تھا وہ معصوم ہے اسے جانے دو۔۔۔ جانے دو لیکن تیرے کہنے پہ انہوں نے مجھے نشے میں کیا اور میں نے اس کے ساتھ۔۔۔۔ ہہہاااااا وہ چیخا

وہ پہلے ہی سکندر اور کمال سے مار پیٹ کرچکا تھا تو انہوں نے عرزم کی بات بتا دی جو اس نے کہا ہم نے وہی کیا

تین چار تھپڑ عرزم کے منہ پہ مارے تو نے مارا ہے تو ماراااا۔۔۔


عرزم نے بھی اسے دھکہ دیا

ابے ہٹ۔۔۔ کیا ہوگیا اگر وہ مر گٸ۔۔۔۔ایک لڑکی کے پیچھے پاگل ہوا جارہا ہے

سالی پتا نہیں تیرے سے پہلے اپنے کتنے یاروں کے سامنے کپڑے اتار کے آٸی ہو گی باولا کہی کا


اےےےےےےے خبردار جو اس کے خلاف ایک لفظ بھی کہا تو تیری زبان کھینچ لونگا شہباز نے اس کا جبڑا پکڑا

وہ ایسی نہیں تھی ۔۔۔۔ بہت بھولی تھی ۔۔۔۔ کم عمر تھی اسی لیے میرے جیسے شیطان کی باتوں میں آگٸ ۔۔۔۔ وہ رہ رہا تھا بار بار اپنے ہاتھوں کو سر پہ مارتا ۔۔۔۔۔ میں کو*مینہ بیغیرت میں نے مار دیا اس کو ہہہہہااااااا میں نے مار دیا وہ اپنے ہاتھوں کو زمین پہ مار رہا تھا ۔۔۔۔ اس کو دیکھ ہی میں نے فیصلہ کرلیا تھا کے میں ان سب کاموں سے دور ہوجاٶ گا چھوڑ دوگا یہ غلیظ دنیا۔۔۔ وہ اب زمین پہ بیٹھ چکا تھا

تم لوگوں نے میری ڈول کو مجھ سے چھین لیا گھٹنوں میں منہ دے کے رونے لگا۔۔۔۔


پاگل ہوگیا یہ سنبهالو اس کو عرزم نے شہباز کو دیکھتے ہوۓ کہا


یار لگتا ہے شہباز کو سچ میں اس لڑکی سے محبت ہوگٸ تھی سکندر نے عرزم کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے کہا


لگتا ہے تیرا دماغ بھی خراب ہوگیا ہے یہ محبت کچھ نہیں ہوتی ۔۔۔۔ غوتی ہے بس ہوس طلب اور جب یہ پوری نا ہوتو تب انسان بےبس ہوجاتا ہے س نے غصے سے کہا


ہم نے بہت غلظ کیا یار اس کی موت میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں کمال نے بھی آگے بڑھ کے کہا

یار وہ سچ میں ابھی بہت چھوٹی تھی اور ہم تین۔۔۔۔

اپنے یار کو اس طرح دیکھ کے ان کو اب افسوس ہورہا تھا لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی


تم بس ہی پاگل ہوگٸے ہو اس آوارہ لڑکی کے پیچھے

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


صبح جمعدار کوڑا اٹھانے آیا تو اس کو اس کچرا کنڈی میں کچھ بہت بڑا پڑا نظر آیا

اس کے گرد کتے بھی جمع بھونک رہے تھے

اس نے آگے بڑھ کے کتوں کو ڈرا کے بھگایا اور کپڑا کھینچا۔۔۔۔ لااااااش وہ چیخا

صاحب صاحب وہاں لاش پڑی اس نے وہاں موجود آدمی سے کہا۔۔۔

وہ کوڑا اٹھانے والا تیرہ چودہ سال کا بچہ ہی تھا

وہ آتے جاتے لوگوں کو بتاتا رہا لیکن سب ہی اس کی بات کو ان سنا کرکے جاتے رہے


اتنے لوگوں میں سے کوٸی ایک خدا تڑس بھی تھا ۔۔۔۔ کہا ہے لاش؟؟


وہں۔۔۔

اس شخص نے آگے بڑھ کے تصدیق کی وہ سچ میں ایک لڑکی کی برہنہ لاش تھی

اس نے پولیس کو کال کرکے بتایا


کچھ ہی دیر میں پولیس آگٸ ایمبولنس بھی آٸی تھی

جو اس برہنہ وجود کو دھک کے ہسپتال لے گٸے

وہاں اس کا پوسٹمارٹم ہوا

ڈاکڑوں نے بتایا کےلڑکی کے ساتھ زیادتی کی گٸ ہے موت کی وجہ بھی یہی تھی

شام تک اس لڑکی کے بارے میں پتا چل گیا تھا۔۔۔

تھانے میں ضحک کی گمشدگی کی رپورٹ کی ہوٸی تھی ساتھ میں تصویر بھی دی گٸ تھی

گھر والوں کو اطلاع دی جاچکی تھی


ضحک کو دیکھ کے کہرام مچا ہوا تھا۔۔۔ گھر والوں کے ساتھ محلے والے بھی اس جوان موت پہ اشکبار تھے

گھر کے صحن میں جنازہ تیار تھا۔۔۔ لیکن کندھا دینے والے کا کچھ پتا نہیں تھا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏

جاری ہے

No comments:

Post a Comment