Farhan Speak

Saturday, June 29, 2024

Yara Teri Yari Novel Episode 5 Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

June 29, 2024
Yara Teri Yari Novel Episode 5 Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

 

یارا_تیری_یاری


#_ازقلم_الینامیر


قسط نمبر:5 (پارٹ 2)

❤️❤️❤️❤️۔


رمضیہ سلام کرتی اندر آئی ارتضیٰ کے ساتھ ساتھ اذہان اور سہراب کو دیکھ کر حیران ہوئی کیوں کہ اس کے خیال سے ان تینوں کو اس وقت رومان کی طرف ہونا چاہیے تھا۔

آگئی تم رضیہ بیگم آخر ثابت کر ہی دیا تم نے کہ میں تمہارا کچھ نہیں لگتا اذہان روہانسا ہوتا بولا۔

تھوڑی دیر کے لیے بند کرو اپنا ڈرامہ میں اپنے روم سے ہو کر آتی ہوں پھر کونٹینیو کریں گے رمضیہ ہنسی دبا کر کہتی جلدی سے اوپر آئی۔

اوپر روم میں ارباب افق کو مہندی لگا رہی تھی ارباب کو مہندی لگانا آتی تھی تو افق نے اسے ہی کہ دیا تھا لگانے کا۔

واہ ارباب تم تو اتنی زبردست مہندی لگا لیتی ہو کمال ہے رمضیہ افق کے ہاتھ دیکھتی ارباب کو دیکھ کر کہنے لگی۔

تھینکس آپی آپ اب فریش ہو جائیں پھر آپ صنوبر آپی فائقہ آپی اور رانیہ کو بھی لگاؤں گی ارباب مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔

رمضیہ جیسے ہی فریش ہو کر آئی افق اور ارباب سے بولی چائے پینی ہے آپ نے افق نے منع کر دیا کہ وہ مہندی لگوا کر سوئے گی چائے پی لے گی تو نیند نہیں آئے گی اور ارباب نے کہا کہ چائے بنا لیں میں دس منٹ تک آتی ہوں نیچے اور رمضیہ نیچے آگئی۔

تم لوگوں میں سے کون کون پیے گا چائے نیچے آ کر رمضیہ نے ان سب سے پوچھا۔

یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے سب ہی پییں گے تم بنا کے لاؤ اور کچھ کھانے کو ہو تو وہ بھی لانا ہال میں تو کچھ کھایا ہی نہیں گیا نا کسی نے کھانے دیا رمضیہ فائقہ کو اشارہ کرتی کچن میں آگئی فائقہ بھی اس کے پیچھے کچن میں آئی۔

اللّٰہ معاف کرے اذہان کتنا جھوٹا ہے تو پندرہ سے بیس سیخ کباب بارہ تیرہ تکے اور بھی اتنا کچھ ٹھونسا ابھی بھی کہ رہا ہے کچھ نہیں کھایا ارتضیٰ چیخا جبکہ سہراب صنوبر رانیہ اور فائقہ اذہان کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہو۔

کیا ایسے کیا گھور رہے ہو میں اتنا ہی کھاتا ہوں تم لوگ بھی ٹھونس لیا کرو مجھے کیوں نظر لگا رہے ہو اور تو پھپھے کٹنے تو میرے نوالے گن رہا تھا پہلا جملہ لڑکیوں کو کہتے اگلا جملہ ارتضیٰ کو بول کر چیخا۔

نوالے نہیں بھائی سیخیں گن رہے تھے سیخیں رانیہ ہنستی بولی اذہان کا بس نہیں چل رہا تھا ارتضیٰ کا قیمہ کر دے سارے اذہان کو دیکھ کر چڑانے لگے۔

رمضیہ اور فائقہ چائے اور ساتھ پلاؤ گرم کر کے لے آئیں تھیں جو فائقہ کی نانو نے بنایا تھا وہ آج ہی آئیں تھیں فائقہ کے ماموں مامی کے ساتھ اور پلاؤ انہوں نے ہی بھیجا تھا خود وہ نہیں آئیں تھیں کہ ماموں مامی گھر ہی تھے اس لیے۔

لو ٹھونسو تمہارا تو دوزخ  نہیں بھرنے والا رمضیہ پلاؤ کہ ٹرے اذہان کے آگے رکھتی بولی ارباب بھی نیچے آگئی تھی۔

چائے پی کر سارے برتن سمیٹ کر رانیہ اور صنوبر دھو کر رکھ کر آئیں رمضیہ نے منع بھی کیا تھا پر صنوبر نے کہا کچھ نہیں ہوتا تھوڑے سے ہی ہیں ہم دھو لیں گیں۔

ارباب نے پہلے رانیہ کو مہندی لگائی پھر صنوبر کو لگا کر کمر سیدھی کرتی بولی اب کس نے لگوانی ہے آجاؤ سہراب اور ارتضیٰ لان میں گئے تھے کوئی ضروری کال سننے اذہان ان کے پاس بیٹھا تھا اور تنگ کر رہا تھا بہت مشکل سے رمضیہ نے اپنا موبائل دے کر اسے چپ کروایا تھا اور اب وہ مزے سے فلم دیکھ رہا تھا۔

ارباب خود ہی فائقہ کو اپنے پاس بٹھاتی بولی آپی آپ لگوا لیں پہلے پھر میں رمضیہ آپی کو لگا دوں گیں رمضیہ منع کرنے لگی فائقہ کو مہندی سے الرجی تھی۔

کچھ نہیں ہو گا رمضیہ وہ تو بہت پہلے کی بات ہے اب نہیں ہو گا ایسا کچھ فائقہ رمضیہ سے کہتی ارباب کی طرف متوجہ ہوئی اور مہندی لگوانے لگی رمضیہ بھی دل میں دعا کرنے لگی اللّٰہ کرے ایسا ہی ہو۔

فائقہ نے بھر بھر کر نہیں لگوائی تھی مہندی سمپل سی ہی لگوائی تھی اسی لیے زیادہ ٹائم نہیں لگا فائقہ کے اٹھتے ہی ارباب رمضیہ کو بلانے لگی کہ وہ مہندی لگوا لے رمضیہ ارباب کے پاس بیٹھ گئی اور مہندی لگوانے لگی۔

کچھ دیر ہی گزری تھی کہ فائقہ کو ہاتھوں پر جلن ہونے لگی مگر وہ صبر کرتی بیٹھی رہی صنوبر اور رانیہ اوپر رمضیہ کے روم میں چلی گئیں تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارتضیٰ اور سہراب باتیں کرتے اندر آئے ارتضیٰ کی نظر جیسے ہی فائقہ پر پڑی وہ بھاگ کر فائقہ کے پاس آیا اس کی تیزی پر سہراب بھی جلدی سے قریب آیا اذہان جو موبائل میں گن تھا چونک کر سیدھا ہوا ارباب اور رمضیہ بھی ارتضیٰ کو دیکھنے لگیں جو فائقہ کو بول رہا تھا۔

تم نے کیوں لگائی مہندی پتہ ہے نا تمہیں الرجی ہے مہندی سے بیوقوف لڑکی دیکھو کیسے لال ہو رہے ہیں تمہارے ہاتھ ارتضیٰ غصے سے بولا۔

رمضیہ تیزی سے اٹھ کر فائقہ کے پاس آئی اور اس کے ہاتھ دیکھنے لگی اس چکر میں رمضیہ کی اپنی مہندی خراب ہو گئی تھی ارباب الگ ڈری بیٹھی تھی۔

یہ ک ک کیا ہو گیا فائقہ میں نے اسی لیے منع کیا تھا نہیں لگواؤ مہندی پر تم نے نہیں سنی میری رمضیہ روتے ہوئے بولی سہراب اور اذہان تسلی دینے لگے کچھ نہیں ہوتا ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ٹھیک ہو جائے گا یہ مسئلہ۔

فائقہ جو ضبط سے بیٹھی تھی ایک دم ارتضیٰ کو دیکھ کر رو دی اور بمشکل بولی بہت جلن ہو رہی ہے مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔

اٹھو میں لے کر چلتا ہوں کچھ نہیں ہو گا رونا بند کرو ارتضیٰ فائقہ کو کہتے کھڑا ہوا۔

ارباب تم اوپر جاؤ اور بتا دینا آپی کو ہم ہوسپیٹل جا رہے ہیں ارتضیٰ ارباب سے کہتا فائقہ اور رمضیہ کو لے کر باہر نکلا سہراب اور اذہان بھی اس کے پیچھے آئے۔

اذہان سہراب کے ساتھ اس کی گاڑی میں تھا اور ارتضیٰ اپنی گاڑی میں فائقہ اور رمضیہ کو لے کر جا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارباب کا رو رو کو برا حال تھا یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے مجھے فورس نہیں کرنا چاہیے تھا آپی کو۔

نہیں ارباب تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے تم ریلیکس رہو اور کچھ نہیں ہوا بس تھوڑی سی الرجی ہے دیکھنا ڈاکٹر میڈیسن دیں گے ٹھیک ہو جائے گی صنوبر اور رانیہ اسے تسلی دینے لگیں افق سو رہی تھی انہوں سے اسے نہیں اٹھایا تھا اور خود لاؤنج میں بیٹھی تھیں ارباب جلدی سے اٹھی اور صائب کو کال کرنے لگی۔

                                                                      (جاری ہے)

Read More

Friday, June 28, 2024

Yara Teri Yari Novel Episode 5 Part 1 by Aleena Meer | Farhan Speak

June 28, 2024
Yara Teri Yari Novel Episode 5 Part 1 by Aleena Meer | Farhan Speak

 یارا_تیری_یاری❤️


#_ازقلم_الینامیر


قسط نمبر:5 (پارٹ 1)

❤️❤️❤️❤️۔


نکاح کا انتظام روحیل وقاص کے گھر تھا لان میں ایک طرف نکاح کے لیے دولہا دلہن کو بٹھانے کا انتظام کیا گیا تھا اور سامنے کچھ کرسیاں لگا کر مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام تھا مہمان بھی کیا بس رمضیہ کے سب دوست اور ان کے گھر والے ہی تھے باقی رشتہ داروں کو مہندی بارات اور ولیمہ میں آنے کی دعوت بھیجی تھی۔

صائب اور ارتضیٰ سارے انتظامات مکمل کر کے اب رومان کی طرف چلے گئے تھے کہ رومان کے ولیمے تک اذہان سہراب فہیم ارتضیٰ اور صائب سب رومان کی طرف ٹھہرنے والے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم لوگ تیار نہیں ہوئے ابھی تک ارتضیٰ اور صائب رومان کے گھر پہنچ کر سیدھا ڈرائنگ روم میں آئے تھے جہاں وہ سب ٹھہرے ہوئے تھے کہ سب تیار ہو چکے ہوں گے مگر وہاں سب کو ویسے ہی بیٹھے دیکھ کر ارتضیٰ حیرت سے بولا اور رومان کو دیکھ کر بیہوش ہوتے ہوتے بچا جو ان سب کے بیچ دبا پڑا تھا۔

یہ دیکھ ہم اسے کہ رہے ہیں کہ یہ براؤن کلر کا کرتا پاجامہ پہن لے مگر یہ ضد کر رہا ہے کہ ہمارے ساتھ وائٹ ہی پہنے گا اذہان کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔

صائب آگے آ کر بولا تو اس میں کیا مسئلہ ہے پہن لے ۔

تو سمجھ نہیں رہا یار دولہے کو سب سے الگ لگنا چاہیے نا سہراب بھی کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔

فہیم رومان کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے بولا بھائی دیکھ جو اذہان کہ رہا ہے چپ چاپ مان لے اس کی بات ورنہ آج تیرا نکاح نہیں ہونے والا یہ بات طے ہے۔

کالی زبان والے تیرے منہ میں خاک سوچ سمجھ کے بولا کر رومان تڑپ کر فہیم کو دھکا دیتے بولا۔

اوووہ کتنی بیتابی ہے نکاح کی میں صدقے جاواں اذہان رومان کا ماتھا چومتے بولا اور ان سب کے قہقے بلند ہوئے۔

ڈرامے ختم کرو اور تیار ہو جاؤ آدھا گھنٹا ہے تم لوگوں کے پاس ورنہ میں ایسے ہی لے جاؤں گا تم سب کو اور تم لوگ جانتے میں ایسا کر سکتا ہوں صائب انگلی اٹھا کر سب کو وارن کرتا کمرے سے نکل گیا اور وہ سب اپنے اپنے کپڑے اٹھاتے بھاگم بھاگ تیار ہونے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام ہو گئی تھی اور وہ سب لڑکیاں افق کے کمرے میں جمع تھیں نکاح پر افق نے بیوٹیشن سے تیار ہونے سے منع کر دیا تھا اس لیے رمضیہ اور فائقہ افق کو تیار کر رہیں تھیں صنوبر ارباب اور رانیہ تو کب کی تیار ہو چکیں تھیں وہ سب بھی افق اور رومان کے ولیمے تک کے لیے رمضیہ والوں کی طرف رک گئیں تھیں جس پر کسی کو اعتراض نا تھا ان کے پیرینٹس بھی آچکے تھے اور نیچے روحیل صاحب کے ساتھ لان میں بیٹھے تھے۔

یار تم لوگ جلدی کرو اور ریڈی ہو جاؤ ورنہ لڑکوں نے آتے ساتھ شور مچا دینا ہے پھر کچھ نہیں کر پاؤ گی صنوبر اپنا دوپٹہ سیٹ کرتی ہوئی فکرمندی سے بولی۔

ہاں بس یہ آپی کا دوپٹہ سیٹ کر دوں پھر ہم لوگ بھی ہو جاتی ہیں تیار ٹائم نہیں لگے گا رمضیہ تسلی دیتی بولی وہ جیسے ہی افق کا دوپٹہ سیٹ کر کے پیچھے ہٹی سب کی نظریں افق کے چہرے سے پلٹنے سے انکاری ہو گئیں۔

وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی بادامی رنگ کی پاؤں کو چھوتی لمبی فراک جس پر ہلکا سا موتیوں کا کام ہوا تھا ساتھ گولڈن دوپٹہ سر پر ٹکائے وہ کوئی حور لگ رہی تھی ہلکے سے میکپ نے اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے تھے بے ساختہ ان سب کے منہ سے ماشاءاللّٰہ نکلا رانیہ نے تو آگے بڑھ کر ماتھا چوم کر بلائیں کے ڈالیں۔

آپی آج تو رومان جیجو نے بے ہوش ہی ہو جانا ہے صنوبر ہنستے ہوئے بولی۔

افق جو پہلے ہی گھبرائی سی کھڑی تھی اس کی آنکھیں پھیل گئیں بوکھلاتے ہوئے پوچھا کیوں میں اتنی ڈراؤنی لگ رہی ہوں کیا جہاں صنوبر سٹپٹائی وہیں باقی سب کی ہنسی نکلی۔

نہیں آپی جان آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں فائقہ افق کو گلے لگاتے ہوئے بولی۔

اوکے اب تم لوگ جلدی سے تیار ہو جاؤ پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے افق نے جلدی سے اُنہیں تیار ہونے بھیجا رمضیہ اور فائقہ ہاں میں سر ہلاتی ڈریسنگ مرر کے سامنے تیار ہونے لگیں کپڑے وہ پہلے ہی چینج کر چکیں تھیں۔

رمضیہ فائقہ کا حجاب سیٹ کر رہی تھی کہ نیچے سے شور کی آواز آئی۔

لگتا ہے دولہے میاں آگئے ہیں میں باہر دیکھ کر آتی ہوں ارباب اٹھ کر کمرے باہر بھاگی میں بھی آتی ہوں رانیہ بھی اس کے پیچھے ہی باہر بھاگی رمضیہ سر جھٹک کر فائقہ کا حجاب سیٹ کرتے بولی تم آیت اور عمائزہ کو بھی کال کر کے پوچھو کہاں رہ گئیں ہیں وہ دونوں آنا بھی ہے کہ نہیں انہوں نے۔

اسلام و علیکم وہ سب بلند آواز سے سلام کرتے لان میں آئے۔

اور ان سب کے پیرینٹس و علیکم السلام کہتے ان کی طرف بڑھے۔

سب ملنے ملانے کے بعد لان میں رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے اور اذہان یہاں وہاں دیکھ رہا تھا جیسے کسی کو تلاش کر رہا ہو۔

کیا ہوا شہزادے کچھ گم ہو گیا ہے کیا میں مدد کروں ڈھونڈنے میں فہیم اس کی طرف دیکھتے بولا۔

آآآآں نہیں کچھ نہیں گم ہوا وہ میں بس دیکھ رہا تھا رضیہ سلطانہ نظر نہیں آ رہی پتہ نہیں کہاں ہے اذہان گڑبڑا کر بولا 

ارتضیٰ جو ان کی باتیں سن رہا تھا اذہان کی گردن دبوچ کر بولا الو آج کے دن باز آجا اگر کسی نے ان لیا تو تیری عزت کا کچرا ہو جائے گا اور ہم میں سے کوئی بھی بچانے نہیں آئے گا تجھے اذہان نے فہیم کی طرف دیکھا وہ بھی نظریں پھیر گیا اس نے گردن موڑ کر بائیں طرف بیٹھے سہراب اور صائب کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا مگر ان کے بھی منہ موڑنے سے دکھی لہجے سے بولا دیکھ کی تم لوگوں کی محبت بھی آج میں نے تم سب بے وفا ہو اور گھر کے اندر جانے کے لیے اٹھ کر چل دیا اور وہ سب پیچھے ہنستے ہوئے اور چڑا رہے تھے اسے۔

اذہان کمرے کا دروازہ بجانے ہی لگا تھا کہ فہیم نے اذہان کو پیچھے کھینچا۔

اذہان گرتے گرتے بچا اور فہیم کو گھور کے بولا کیا تکلیف ہے۔

تکلیف مجھے نہیں رومان کو ہو رہی ہے تو لڑکے والوں کی طرف سے ہے کمینے بھول گیا اور اذہان کھسیانی ہنسی ہنس دیا اور فہیم کے ساتھ واپس نیچے آگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رمضیہ سینڈل پہن رہی تھی کہ صائب کی امی آگئیں بلانے کہ نیچے مولوی صاحب آگئے ہیں نکاح کے لیے افق کو نیچے لے آئیں اور رمضیہ کو جوتے کا ڈبہ پکڑا کر بولیں یہ پہن لو اور جلدی سے نیچے آؤ اور خود نیچے چلیں گئیں رمضیہ جو پوچھنا چاہتی تھی یہ کس لیے اس نے تو نہیں منگوائے تھے پھر بعد میں پوچھنے کا سوچ کر جلدی سے کھسہ پہن کر افق کو لیے کمرے سے نکلی صنوبر فائقہ رانیہ اور ارباب بھی ساتھ تھیں۔

جیسے ہی ان سب نے لان میں قدم رکھا لڑکے جو آپس میں گپیں مار رہے تھے سب سے پہلے سہراب کی نظریں سامنے ان کی طرف اٹھیں اور پلٹنا بھول گئیں اس کی نظر کے تعاقب میں سب نے گردنیں گھما کر پیچھے دیکھا تو حیرت کی زیادتی سے سب کے منہ کھل گئے اور وہ سب شاک کی کیفیت میں اٹھ کھڑے ہوئے شاک لگنے کی وجہ رمضیہ صنوبر اور فائقہ کا ایک جیسا لباس ایک جیسا حجاب تھا ان تینوں نے وائٹ کلر کی پاؤوں کو چھوتی لمبی فراک جس پر ہلکا سا گولڈن کام ہوا تھا ساتھ چوڑی دار پاجامہ اور ریڈ کلر کا دوپٹہ دائیں کندھے پر ڈالے اور گولڈن سٹالر سے حجاب کیے وہ لڑکیاں شہزادیاں لگ رہیں تھیں۔

قریب پہنچنے پر انہوں نے لڑکوں کی طرف دیکھا اور ٹھٹھک کر رک گئیں یہ ٹھٹھکنا لڑکوں نے بھی محسوس کیا اور مسکراہٹ ضبط کرنے لگے وہ جان گئے تھے کہ اتفاق سے ان کے کپڑوں کا رنگ سیم ہو گیا تھا اور لڑکیاں اسی لیے ٹھٹھک گئیں جیسے وہ لوگ شاکڈ ہو گئے تھے پھر سر جھٹک کر فائقہ اور رمضیہ افق کو لے کر آگے بڑھیں اور لا کر سنگل صوفے پر بٹھا دیا اور خود اس کے پیچھے کھڑی ہو گئیں لڑکے بھی رومان کو دوسرے سنگل صوفے پر بٹھا کر پیچھے کھڑے ہو گئے۔

نکاح شروع ہونے میں تھوڑا ٹائم تھا کہ اذہان جو بار بار گیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا کہ شاید عمائزہ آجائے مگر ہر بار اس کی نظریں بند گیٹ کو دیکھ کر پلٹ آتیں تھیں دسویں بار جب اس نے گیٹ کی طرف نظر اٹھائی تو عمائزہ اور آیت گیٹ سے اندر آتیں نظر آئیں فوراً ان کی طرف بھاگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام و علیکم کہاں رہ گئیں تھیں تم پتہ ہے کب سے ویٹ کر رہا ہوں عمائزہ جو آیت کا ہاتھ پکڑے باتیں کرتی اندر آ رہی تھی اذہان کے اچانک سامنے آنے پر اس کے سینے سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔

یہ کیا بے ہودگی ہے عمائزہ غرا کر بولی جبکہ آیت اس کا ہاتھ دبا کر خاموش ہونے کا کہ رہی تھی۔

بے ہودگی نہیں سلام کیا ہے اور پوچھا ہے کہ اتنی دیر کہاں لگا دی اذہان دانت دیکھاتے بولا۔

تم میرے بھائی نہیں ہو جو تمہیں جواب دوں میں عمائزہ تلخی سے بولی۔

لا حول ولا قوہ پتہ نہیں ایک تو تم لڑکیوں کو بھائی بنانے کا اتنا شوق کیوں ہوتا ہے اذہان چڑ کر بولا اس کا انداز دیکھ کر عمائزہ کے چہرے پر مسکراہٹ آئی جو اس نے منہ دوسری طرف کر کے چھپائی جو اذہان نے دیکھ لی اور دل میں بولا اگر یہ مسکراتی رہے تو کتنی اچھی لگے مگر یہ تو ہر وقت مرچیں چبائے رکھتی ہے عمائزہ اذہان کو دیکھ کر بولی ہٹو راستے سے اب اور اذہان کو دھکا دیتی آیت کا ہاتھ پکڑتی رمضیہ والوں کی طرف بڑھ گئی۔

اس کے جانے کے بعد اذہان نے غور کیا اور چونک گیا کہ عمائزہ اور آیت کے ڈریسز بھی تقریباً رمضیہ والوں جیسے ہی تھے اور اذہان نے پہلی بار اسے مشرقی لباس میں دیکھا تھا اور دیکھتا رہ گیا پہلے تو جلدی میں غور نہیں کیا مگر اب وہ بہت فرصت سے عمائزہ کو دیکھ رہا تھا اور دل میں اعتراف کرنے لگا اذہان تو بڑی بڑی باتوں کو چٹکیوں میں اڑا دیتا تھا اور آج دو دن پہلے ملی لڑکی کے سامنے اپنا دل ہار گیا پھر گردن جھکا کر ہنس دیا اور ارتضیٰ والوں کی طرف آ گیا۔

مولوی صاحب نکاح شروع کرنے ہی لگے تھے کہ اذہان کی زبان پر کھجلی ہوئی اور عمائزہ کو دیکھ کر مولوی صاحب سے بولا۔

مولوی صاحب ایک نکاح میں دوسرا نکاح ہو سکتا ہے کیا عمائزہ نے غصے سے دانت پیسے جیسے دانتوں کے درمیان اذہان کی گردن ہو اور مولوی بیچارہ بات سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ وہ بول کیا رہا ہے کہ اتنے میں فہیم بولا مولوی صاحب یہ پوچھ رہا ہے کہ جب ایک لڑکا لڑکی کا نکاح ہو رہا ہو تو وہاں ہی ایک اور لڑکا لڑکی کا نکاح ہو سکتا ہے اسی کھانے اور پیسوں میں کہ نہیں آخر کے الفاظ فہیم نے خود سے جوڑے تھے وہ سب اذہان کی بات پر ہنس دیے اور اذہان کے پاپا نے مولوی صاحب کو نکاح پڑھانے کا بولا۔

ایجاب و قبول کے بعد اذہان چیخا یا ہوووو اور رومان کی طرف لپکا آخر تجھے شہادت نصیب ہو ہی گئی بہت خوش قسمت ہے تو اور رومان کے گلے لگ کر مبارکباد دینے لگا۔

 لڑکیاں جو افق کے ساتھ لگ کر افق کو چپ کرا رہیں تھیں وہ بھی ہنس دیں اور لڑکے سب رومان کے گلے لگ کر مبارکباد دینے لگے اور پھر سب بڑوں سے گلے ملنے لگے۔

کھانے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد سب بڑے آپس میں باتیں کر رہے تھے جب کے ینگ جنریشن الگ بیٹھی گپیں لگا رہی تھی۔

رمضیہ اور عمائزہ افق کے دائیں بائیں بیٹھیں تھی جب رونق پاس آتی بولی چلو لڑکیاں سائڈ پر ہو جاؤ مجھے دلہن کے پاس بیٹھنے دو جس پر رمضیہ اور عمائزہ ہنستے ہوئے اٹھ گئیں رمضیہ تو آیت کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی جبکہ عمائزہ اٹھ کر تھوڑا سائڈ پر آئی کہ واسع کو کال کرنے لگی کہ وہ لینے آجائے وہ کال کر کے پلٹی ہی تھی کہ اپنے پیچھے اذہان کو دیکھتے دو قدم پیچھے ہوئی۔

یہ کیا طریقہ ہے تمہیں سکون نہیں ہے کیا ہر جگہ ٹپک پڑتے ہو عمائزہ طنزیہ انداز گھور کے دیکھنے لگی۔

میں تو ایسے ہی ہر جگہ ٹپک پڑتا ہوں کیا کروں عادت ہے اذہان اس کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے بولا۔

تم انتہائی کوئی لوفر انسان ہو یہاں وہاں اپنی ٹھرک جھاڑنے بہت جلدی پہنچ جاتے ہو اور وہاں رومان کو حق ہونے کے باوجود افق آپی سے ملنا تو دور انہیں دیکھنے بھی نہیں دیا عمائزہ مزاق اڑاتے ہوئے بولی۔

کیا کہا میں ٹھرک جھاڑتا ہوں ہر جگہ میں لوفر ہوں آپ نے ابھی میری ٹھرک اور لوفر پن دیکھا کہا ہے  عمائزہ جی اور رومان کیا ہوتا ہے رومان بھائی بولو بڑا ہے تم سے پہلا جملا معنی خیزی سے بولتے آخری بات سخت لہجے میں کی عمائزہ جو اذہان کے پہلے جملے پر سٹپٹا گئی تھی آخری بات پر دل جلاتی مسکراہٹ دکھاتی آنکھیں پٹپٹا کر بولی بڑے تو تم بھی ہو مجھ سے تو کیا تمہیں بھی بھائی بولوں۔

استغفرُاللّٰہ یہ تم مجھے بھائی بنانے کو کیوں مری جا رہی ہو اور بھی تو رشتے ہیں جیسے کہ ہبی بنا لو کیا خیال ہے اذہان جو اس کی دل جلاتی مسکراہٹ دیکھ کر چونکا تھا وہیں اس کی بات سن کر اچھل کر پیچھے ہوتے ہوئے بولا۔

ٹھرکی انسان اس سے پہلے کہ میں تمہارا سر پھاڑ دوں دور ہو جاؤ میرے سامنے  سے عمائزہ دانت پر دانت جما کر بولی۔

اذہان کچھ کہتا کہ صائب کے بلانے پر عمائزہ کی طرف دیکھتے آنکھ ونک کرتا ان سب کی طرف چلا گیا جبکہ عمائزہ دل میں اذہان کی شان میں قصیدے پڑھتی رمضیہ والوں کی طرف بڑھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یار اب بس کر دو نا تم لوگ پلیز مبارک باد تو دینے دو مجھے اپنی بیوی کو رومان کا بس نہیں چل رہا تھا کیا کر ڈالے۔

صبر میرے بھائی صبر اتنی بھی کیا جلدی ہے پرسوں بارات لے کر آئے گا نا تب تجھے فل اجازت ہے بھابھی کے ساتھ بیٹھ کر ڈھیر ساری مبارک دے دینا پر ابھی نہیں ارتضیٰ رومان کے کندھے پر ہاتھ مارتے بولا جب کہ اس کی بات سنتے وہاں سب کی ہنسی چھوٹی تھی افق بھی مسکرا دی جب اگلے ہی پل رومان کی بات سنتے اس کی مسکراہٹ پل میں سمٹی۔

کیااااااا پرسوں یہ کیا زبردستی ہے دیکھو تم لوگ بہت غلط کر رہے ہو اگر کل مہندی میں مجھے افق کے ساتھ نا بیٹھنے دیا یا بات نا کرنے دی تو میں نہیں آنے والا کل مہندی میں تم لوگ آ جانا رومان غصے سے کہتا اٹھ کر گیٹ کی جانب بڑھا کہ پیچھے سے آتی اذہان کی آواز پر اس کے قدم تھمے۔

ہاں ہاں نا آنا اور کل کیا باقی دن بھی نا آنا ہم خود ہی بھابھی کو رخصت کروا کر لے آئیں گے عمائزہ کا دل کیا اس کی قینچی کی طرح چلتی زبان کاٹ دے جو شوہر اور بیوی کے درمیان ظالم سماج بننے کی ٹھان چکا تھا۔

اپنی یہ خواہش بھی شوق سے پوری کر لو کہ کر رومان سرخ آنکھوں سے کہتا لمبے لمبے ڈنگ بھرتا گھر سے باہر نکل گیا وہ سب جھٹکے سے کھڑے ہوئے اتنا شدید رد عمل تو نہیں سوچا تھا ان لوگوں نے اس سے پہلے کہ صائب اور اذہان اس کے پیچھے جاتے صائب کے بابا نے سب کو گھر چلنے کا کہا کہ کل مہندی کا فنکشن تھا اور سب انتظام ان لڑکوں نے ہی دیکھنے تھے صائب سر ہلاتا سب کو اشارہ کرنے لگا رمضیہ افق کو اندر روم میں چھوڑ کر باہر آئی تو دیکھا ان سب کے پیرینٹس نکل چکے تھے فائقہ صنوبر رانیہ اور ارباب تو یہں رکنے والیں تھیں آیت اور عمائزہ کو واسع لینے آ چکا تھا وہ دونوں ان سب سے مل کر گیٹ کی طرف بڑھیں جب پاس سے گزرتے اذہان نے عمائزہ کی طرف جھکتے سرگوشی کی کوشش کرنا کہ اپنے اس کزن سے دور رہو ایک آنکھ نہیں بھاتا مجھے تمہارا وہ چپکو کزن عمائزہ خونخوار نظروں سے دیکھتی آگے بڑھ گئی اور باہر نکلتے ہی جلدی سے آیت کو بیٹھنے کا کہ کر خود بھی دوسری طرف سے آ کر گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔

سب کے جانے کے بعد رمضیہ اندر بابا کے روم کی طرف آئی دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ سونے کے لیے لیٹ چکے تھے مسکراتے ہوئے سر جھٹک کر اپنے روم میں آئی جہاں وہ سب آج رات نا سونے کا پلین بنانے افق کے ساتھ وقت گزار کر ان لمحوں کو یاد گار بنانا چاہتی تھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جبکہ دوسری طرف وہ سب رومان کے روم میں اسے راضی کرنے کے چکر میں بے حال ہو چکے تھے اور شاید رومان کو ان پر ترس آہی گیا جو اس شرط پر مان گیا کہ باقی فنکشنز میں وہ افق کے ساتھ جڑ کر بیٹھے گا اور باتیں بھی کرے گا سب اس کے مان جانے پر خوش ہوتے اس سے لپٹ گئے ارتضیٰ جو ان سے دور بیٹھا تھا وہ بھی چھلانگ لگاتے ان کی طرف بیڈ پر کودا کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز پر وہ سب بوکھلا کر الگ ہوئے مگر اٹھنے کے چکر میں دوبارہ اندر دھنس گئے۔

ابے گھامڑ چھلانگ لگانے کی کیا ضرورت تھی منحوس اپنا وزن دیکھ کھا کھا کر پھیل رہا ہے اور توڑنے کے لیے میرا ہی بیڈ ملا تھا تجھے رومان ارتضیٰ کو دور کرتا چیخا کہ ہنسنے کی آواز پر وہ سب دروازے کی طرف دیکھنے لگے جہاں صائب منہ پر ہاتھ رکھے ہنستا جا رہا تھا وہ زور دار آواز سن کر کمرے میں آیا تھا لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی ہنسی  چھوٹ گئی جو باوجود کوشش کے بھی کنٹرول نہیں ہو رہی تھی وہ ہنستا ہوا اتنا کیوٹ لگ رہا تھا کہ وہ سب بے ساختہ ماشاءاللّٰہ کہنے لگے۔

صائب اپنی ہنسی روکتے ان سب کو ایک ایک کر کے ٹوٹے بیڈ سے باہر نکالنے لگا اور بولا جب بھینسے جیسے جسم لے کر اس بیڈ پر کودو گے تو اس نے ٹوٹنا ہی ہے نا پھر سر جھٹک کر بولا میں تو جا رہا ہوں سونے اور تم لوگ بھی سو جاؤ اس سے پہلے کہ کوئی اور نقصان کرو صائب کے کہنے پر سب اپنے اپنے تکیے اٹھائے ڈرائنگ روم کی طرف بھاگے جہاں ان سب نے سونا تھا رومان جو سکتے میں کھڑا تھا ہڑبڑا کر سیدھا ہوا اور خود بھی ڈرائنگ روم کی طرف بھاگا کہ اپنے روم کی حالت ایسی نا تھی کہ وہ سو سکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کافی دیر جاگنے کے بعد صبح کہیں فجر پڑھ کر وہ سوئیں تھیں سوائے رمضیہ کے وہ اٹھ کر نیچے آگئی روحیل صاحب فجر کے بعد سوتے نہیں تھے چاہے رات کو جتنی مرضی دیر سے سوئیں رمضیہ لان میں آئی تو دیکھا اس کے بابا کسی سوچ میں گم بیٹھیں ہیں فوراً آگے بڑھی۔

بابا کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھیں ہیں طبیعت ٹھیک ہے نا آپ کی کچھ چاہیے آپ کو اس نے بوکھلا کر ان گنت سوال کر ڈالے۔

روحیل صاحب رمضیہ کی آواز پر چونکے اور رمضیہ کا ہاتھ پکڑ کر بولے نہیں میری لاڈو میں بلکل ٹھیک ہوں بس تھوڑا اداس ہوں کہ میری نازوں پلی بیٹی کل رخصت ہو جائے گی تم دونوں میں جان بستی ہے میری تم دونوں کے بغیر میں کچھ نہیں ہوں میرے بچے۔

بابا ایسے تو نہیں کریں اور آپی چلیں جائیں گی تو کیا ہوا میں ہوں نا آپ کے پاس تو آپ کو بلکل اداس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اب جلدی سے ہیپی ہو جائیں میں چائے بنا کر لاتی ہوں اکھٹے بیٹھ کر پیتے ہیں رمضیہ کہ کر فوراً اندر بھاگی روحیل صاحب نے آنکھوں کی نمی صاف کی اور مسکرا دیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اٹھ جاؤ ذلیلوں دلہا میں ہوں اور مزے سے تم لوگ سوئے پڑے ہو ساری رات جگہ کی تنگی کی وجہ سے رومان ان سب کے بیچ پھنسا سونے کی کوشش کرتا رہا مگر مجال ہے جو ان لوگوں نے اسے سونے دیا ہو تھک کر رومان خود ہی اٹھ گیا تھا رومان کے ننھیالی اور ددھیالی رشتے دار پہنچ چکے تھے اور دوسرے کمروں میں تھے اس لیے وہ سب ڈرائنگ روم میں جہاں جگہ ملی وہیں لڑھک گئے تھے رومان کی آواز پر صائب اٹھ کر بیٹھ گیا تھا سہراب کروٹ بدل کر لیٹا اور ایک ٹانگ اٹھا کر فہیم کے پیٹ پر رکھی دفع دور کمینے ایک یہ موت کا فرشتہ بن کر ہمارے سر پر کھڑا رومان کم ہے جو تو اب اپنا تکیہ سمجھ کر ٹانگیں رکھ رہا ہے فہیم آنکھیں بمشکل کھولتے سہراب کی ٹانگ دور ہٹائی رومان کی طرف اشارہ کرتے سہراب کو دور کرتے بولا۔

اب زیادہ ڈرامے نہیں کرو اور اٹھ جاؤ سونے تو ہونا نہیں اب ارتضیٰ بھی ان کی آوازیں سنتا اٹھ گیا تھا۔

رومان شکر کرتے اٹھا اور بولا آجاو باہر فریش ہو کر میں ناشتے کا کہتا ہوں اور باہر نکل گیا۔

پہلا دولہا دیکھا ہے جو اتنا بے صبرا ہو رہا ہے فہیم  بولا۔

تیری باری آئے گی تب پوچھوں گا بیٹا ارتضیٰ منہ پر ہاتھ رکھ بولا۔

پہلی بات مجھے شادی کرنی ہی نہیں اور اگر بائے چانس ایسا ہو بھی جاتا ہے تو اتنا اتاؤلا نہیں ہونے والا میں فہیم ناک چڑہا کر بولا۔

ہاں ہاں دیکھی جائے گی اس لاش کو تو اٹھاؤ اس کے آگے ڈھول بھی پیٹ ڈالو تو نہیں اٹھے گا منحوس سہراب اذہان کو دیکھ کر بولا ارتضیٰ نے رکھ کر چماٹ اذہان کی گدی پر مارا کہ وہ الٹا سو رہا تھا ایک دم۔چیخ کر اٹھ بیٹھا ابھی وہ کچھ کہتا کہ صائب اٹھا اور ان سب کو اشارہ کر کے بولا پانچ منٹ ہیں صرف پانچ منٹ میں فریش ہو کر آجاؤ ورنہ ناشتہ نہیں ملے گا ان سب کی صدمے سے آواز ہی نا نکلی اور چپ چاپ اٹھ کر فریش ہونے چل دیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام میں وہ سب تیار ہو کر ایک ساتھ نکلے تھے رومان کی کزنز تو ان سب کو دیکھ کر حیران رہ گئیں شہزادوں جیسی آن بان لیے ان سب کو دیکھ کر رومان کی امی نے بے ساختہ ماشاءاللّٰہ کہا اور سب کا ماتھا چوم کر باہر کی طرف بڑھ گئیں وہ سب بھی خوشی سے بے قابو دل لیے رومان کو لیتے باہر کی طرف بڑھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رمضیہ آپی ہمارے بالوں کا ہیر سٹائل تو بنا دیں رانیہ اور  ارباب رمضیہ کے پاس آئیں جو افق کے تیار ہونے کے بعد صنوبر کو تیار کر کے اب خود تیار ہونے لگی تھی رانیہ کے بولنے پر مسکرا کر اٹھی اور ہیر سٹائل بنانے لگی جلدی جلدی ہاتھ چلاتے دونوں کو فارغ کر کے رمضیہ نے فائقہ کو دیکھا جو اپنے دوپٹے سے الجھ رہی تھی اس کے پاس آ کر نرمی سے دوپٹہ لے کر سیٹ کیا اور کہا جب میں ہوں تمہاری بہن تو مجھ سے کہ دیا کرو اگر کچھ نا ہو رہا ہو تو فائقہ مسکرا کر سر اثبات میں ہلا گئی پھر صنوبر کی طرف دیکھا اسے سیلفیز لیتے دیکھ رمضیہ مسکرا کر خود تیار ہونے چل دی۔

کل کی طرح آج بھی ان سب کے ڈریسز سیم تھے کرتی اور گرارہ لیکن کلر مختلف تھے رمضیہ کا مہندی اور گولڈن کلر کا  تھا فائقہ کا لیمن اور شاکنگ پنک صنوبر کا مرجنڈا اور سکن کلر کا رانیہ اور ارباب کا تقریباً سیم ہی کلر تھا گرین اور گولڈن کل کی طرح آج بھی رمضیہ فائقہ اور صنوبر نے حجاب کر کے دوپٹہ سیٹ کیا تھا جبکہ رانیہ اور ارباب نے ہیر سٹائل بنوا کر دوپٹے گلے میں ڈالے ہوئے تھے۔

مہندی کمبائن تھی اس لیے ہال میں ہونی تھی وہ سب تیاری مکمل کرتیں افق کو لیتی نیچے آئیں آج ارباب اور رانیہ کے پیرینٹس فہیم کی آپی اور بچے یہاں ان کے ساتھ تھے جبکہ فہیم سہراب اور ارتضیٰ کے گھر والے رومان کے ساتھ آنے والے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہال پہنچتے ہی لڑکیاں افق کو لے کر سٹیج کی طرف بڑھیں جہاں جھولے کو دولہا دلہن کے بیٹھنے کے لیے سجایا گیا تھا اور آس پاس صوفے لگائے گئے تھے رسم کرنے آنے والوں کے بیٹھنے کے لیے سارے ہال کی ڈیکوریشن دیکھ کر وہ سب بے ساختہ صائب کے کام کو سراہنے لگیں کہ یہ سب اسی نے کروایا تھا۔

ڈھول ڈھمکوں کی آواز پر سب لڑکیاں سٹیج سے اتر کر نیچے آگئیں اور دروازے کی طرف دیکھنے لگیں جہاں سے وہ سب اندر داخل ہو رہے تھے اور رومان کو بیچ میں کھڑا کر کے اس کے ارد گرد بھنگڑا ڈال رہے تھے باقی سب کا تو پتا تھا مگر صائب کو بھی ان سب کے ساتھ بھنگڑا ڈالتے دیکھ کر رمضیہ کو حیرت کا شدید ترین جھٹکا لگا اور یہی نہیں آج صائب کے چہرے پر مسکراہٹ جدا ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی رمضیہ ہڑبڑا کر ہوش میں آئی ماشاءاللّٰہ کہتی ان کی طرف دوبارہ متوجہ ہوئی۔

قریب آنے پر سہراب نے صنوبر کو کھینچ کر اپنے ساتھ شامل کیا اور صنوبر سب کچھ بھلائے بھنگڑے میں شامل ہو گئی اس کی دیکھا دیکھی ارتضیٰ نے بھی فائقہ کو کھینچا اور زبردستی بھنگڑا ڈلوانے لگا فائقہ دانت پیس کر رہ گئی اذہان کیوں پیچھے رہتا فوراً بھاگ کر رمضیہ کا ہاتھ پکڑا لے جاے لگا کہ رمضیہ ہاتھ چھڑاتے بولی کمینے انسان کیا کر رہے ہو۔

کچھ نہیں رضیہ سلطانہ سب اپنی اپنی پارٹنر جو لے گئے اب میں کیا کروں تم نظر آئی تو تمہیں ہی لے کر جاؤں گا نا چیخ کر بولتے گھسیٹ کر رمضیہ کو لے گیا اور رمضیہ بعد میں اذہان کی طبیعت صاف کرنے کا سوچتی سر جھٹک کر ان کے ساتھ شامل ہو گئی رانیہ اور ارباب کو کسی نے پوچھا نہیں وہ بیچاریاں افق کے پاس جا کر بیٹھ گئیں۔

ان سب کو پاگل ہوتے دیکھ وہاں ہر کوئی حیران تھا کہ ایسے بھی دوست ہوتے ہیں دوستی کے علاوہ تو کوئی رشتہ نہیں تھا ان کا آپس میں مگر دیکھ کر لگتا تھا جیسے جان سے بڑھ کر ہوں وہ سب ایک دوسرے کے لیے۔

جب ان میں سے کوئی بھی نا رکا تو اذہان کے والد صاحب آگے بڑھے اور اذہان کی گدی پر ہاتھ رکھ کھینچتے ہوئے لائے اذہان بیچارہ بوکھلا کر سیدھا ہوا ان کو دیکھتے سب رک گئے پھر ان سب کی مائیں آگے بڑھیں اور بولیں باقی کا ڈانس بعد میں کرنا ابھی دولہے کو افق کے ساتھ بٹھاؤ جا کر رومان جو خود بھی ان کے ساتھ بھنگڑے ڈالتے مست ہوا پڑا تھا خوشی سے بے قابو ہوتے آگے بڑھا کہ ارتضیٰ نے ہاتھ پکڑ کر روکا اور بولا جانو اتنی بھی کیا جلدی ہم بٹھاتے ہیں لے جا کر تجھے رومان ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔

لڑکیاں فوراً سٹیج کے پاس جا کر کھڑی ہو گئیں رانیہ اور ارباب بھی اتر کر نیچے آگئیں ۔

ایسے کیسے پہلے ہمارا نیگ دیں پھر جانے دیں گے جیجا جی رمضیہ ہاتھ پھیلا کر بولی وہ سب جو رومان کو لے کر سٹیج کی طرف آئے تھے پر رمضیہ والوں کو سامنے کھڑا دیکھ کر رک گئے۔

اذہان مزاق اڑاتے بولا رضیہ بیگم آج جمعرات نہیں ہے آج تمہارا دھندا نہیں چلے گا اذہان کی بات پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ آئی۔

اذہان میرا نام مت بگاڑا کرو اور تم سے تھوڑی مانگ رہی ہوں اپنے جیجو سے مانگ رہیں تم کیوں تڑپ رہے ہو۔

رومان بحث بڑھتے دیکھ کر پیسے نکالنے لگا کہ سہراب نے ہاتھ پکڑ لیا نا کاکے نا آج اگر تو نے ان کی ڈیمانڈ پوری کر دی تو ساری زندگی رن مرید بن کر رہنا پڑے گا۔

تو نے اگر مجھے روکا تو تیری گردن یہں مروڑ دوں گا سالے پیچھے ہٹ رومان سہراب کا ہاتھ ہٹاتے بولا۔

سب ان کی نوک جھونک سن رہے تھے کہ اذہان کی چیخ پر اس کی طرف دیکھنے لگے ہئے لوگوں میرا بھائی دلہن رخصت کروانے سے پہلے ہی رن مریدی کے رکارڈ توڑنے پر لگا ہوا ہے اذہان کی دہائی پر سب کے قہقے گونجے اور صائب کے بابا کے کہنے پر جلدی جلدی رومان نے پیسے رمضیہ کی طرف بڑھائے اور خود ہی سٹیج پر چڑھ کر افق کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا اس کی جلد بازی پر سب نے اپنی ہنسی دبائی اذہان افسوس سے سر نفی میں ہلانے لگا۔

رسم ابھی شروع نہیں کی گئی تھی وہ سب عمائزہ اور آیت کا ویٹ کر رہیں تھیں کہ وہ آجائیں تو رسم شروع کریں۔

یار اب تو نکاح ہو گیا ہے اب کیوں اتنا بڑا گھونگھٹ کیا ہوا ہے تم نے رومان جو کب سے افق کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا جھنجھلا کر بولا۔

میں نے نہیں کیا یہ رمضیہ اور فائقہ نے زبردستی افق کہتی چپ کر گئی رومان گھونگھٹ اٹھانے ہی لگا تھا کہ کسی کے گلا کھنکھارنے پر سیدھا ہوا گردن گھما کر دیکھا تو ارباب اور رانیہ کھڑیں تھیں۔

تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو رومان نے گھور کر پوچھا۔

وہ رمضیہ آپی نے کہا ہے جب تک وہ یہاں نہیں آ جاتیں تب تک ہم پہرا دیں کہ آپ افق آپی کا گھونگھٹ نا اٹھا سکیں رانیہ مسکراتے بولی ۔

رومان تپ گیا کیا مصیبت ہے نکاح ہو گیا ہے بیوی ہے میری میں دیکھ بھی نہیں سکتا افق نے ہاتھ بڑھا کر رومان کے ہاتھ پر رکھا اسے ریلیکس کرنے کے لیے رومان کا غصہ پل میں اترا اور مسکرا کر افق کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اس سے باتیں کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمائزہ اور آیت ہال میں آئیں تو ایک لمحے کے لیے آیت چکرا گئی اسے رش والی جگہ پر گھبراہٹ ہوتی تھی عمائزہ آیت کو ریلیکس کرتی آگے بڑھی کہ اچانک بوتل کے جن کی طرح اذہان سامنے آیا عمائزہ بچنے کی کوشش کرتی بھی اذہان کے ساتھ ٹکرا گئی اذہان نے شوخ نظروں سے دیکھتے عمائزہ کا ہاتھ پکڑا اذہان کو دیکھ کر آیت کو ریلیکس کرتی سائڈ پر ہونے کا بول کر اذہان کی طرف متوجہ ہوئی۔

تم ٹھرکی انسان باز نہیں آؤ گے اپنے ٹھرک پن سے اذہان کو دیکھ کر ہاتھ چھڑاتی بولی۔

میں مر جاواں جب تم مجھے ٹھرکی بولتی ہو نا اتنی پیاری لگتی ہو کہ کیا بتاؤں اذہان آنکھ ونک کرتا بولا۔

گھٹیا انسان ہاتھ چھوڑو ورنہ تمہارا خون پی جاؤں گی میں عمائزہ دبی دبی آواز میں چلائی۔

کیوں ویمپائر ہو تم اذہان چڑاتے ہوئے بولا۔

عمائزہ کچھ کہتی کہ رمضیہ اس کی طرف آتی اذہان کو پیچھے کرتی اسے اور آیت کو اپنے ساتھ لے گئی اذہان سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلو اب جلدی سے رسم شروع کرو پہلے ہی اتنا لیٹ کر دیا ہے تم سب نے روحیل صاحب ان سب کو ڈپٹ کر بولے۔

وہ سب ایک طرف ہوتے ہوئے سب بڑوں کو جگہ دینے لگے کہ پہلے وہ رسم کریں اس کے بعد ان سب کی باری آئے گی۔

ان سب کے ماں باپ اور رشتے داروں کے رسم کرنے کے بعد وہ سب سٹیج پر آئے اور رومان کی طرف سب لڑکے کھڑے ہوئے اور افق کی طرف سب لڑکیاں۔

رمضیہ رسم کرنے آگے آ کر افق کے ساتھ بیٹھی تو دوسری طرف ارتضیٰ نے صائب کو دھکا دیا کہ وہ رومان کے ساتھ بیٹھ کر رسم کر آئے ارتضیٰ کے دھکا دینے پر صائب اسے گھور کر آ کر رومان کے ساتھ بیٹھ گیا ارتضیٰ دانت نکوس کر پیچھے ہو گیا صائب اور رمضیہ کے رومان افق کے ساتھ بیٹھنے پر اذہان معنی خیزی سے سیٹی بجاتا ادھر اُدھر دیکھنے لگا باقی سب ہنس کر انہیں رسم کرنے کا کہنے لگے سب بڑے بھی خوشی سے دیکھ رہے تھے۔

رمضیہ اور صائب رسم کر کے اٹھنے ہی لگے تھے کہ رومان بولا رمضیہ اور کتنی سزا دینی ہے پلیز افق کا گھونگھٹ اٹھانے دو رومان کے التجا کرنے پر رمضیہ ہنس کر سر ہلاتی افق کا گھونگھٹ اٹھا کر پیچھے کرنے لگی جیسے ہی رمضیہ پیچھے ہٹی رومان افق کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا افق لگ ہی اتنی خوبصورت رہی تھی اس کے لائٹ سے میکپ میں پھولوں کے زیور پہنے بہت پیاری لگ رہی تھی صائب گلا کھنکھار کر رومان کے کھلے منہ کو بند کرنے لگا رومان کو جب کچھ نا سمجھ آیا تو ہڑبڑا کر سیدھا ہوتے صائب کی کمر پر تھپڑ دے مارا اور اسی وقت دوسری طرف رمضیہ افق کو چھیڑ رہی تھی کہ افق نے بھی رمضیہ کے کندھے پر دھموکا جڑ دیا کسی کو کچھ سمجھ نا آیا کہ اچانک عورتوں کے ہنسنے پر سب انہیں دیکھنے لگے صائب کی امی اپنی ہنسی روک کر انہیں دیکھ کر بولیں اب اگلا نمبر صائب اور رمضیہ کا لگنے والا ہے ان کی بات پر رمضیہ اور صائب جھٹکے سے اٹھے ان کی شکل دیکھنے لگے۔

میرا مطلب ہے دولہا دلہن سے مہندی والے دن جس کو بھی ہاتھ پڑ جائے اس کی جلدی شادی ہو جاتی ہے صائب کی امی ان سب کے حیران چہروں کو دیکھتی اپنی بات کا مطلب سمجھانے لگیں سب ان کی بات کو مزاق میں اڑانے لگے اور رمضیہ صائب بھی سٹیج سے نیچے اتر آئے۔

اس کے بعد ارباب اور رانیہ رسم کرنے آگے بڑھیں ان کے اٹھنے کے بعد صنوبر اور فائقہ آگے بڑھیں کہ فائقہ کو رومان کی طرف بڑھتے دیکھ ارتضیٰ آگے آیا اور بولا یہاں میں بیٹھوں گا تم افق بھابھی کے ساتھ بیٹھ جاؤ اور جلدی سے رومان کے ساتھ بیٹھ گیا فائقہ اس کو گھور کر پیچھے ہوئی اور جا کر صنوبر کے ساتھ کھڑی ہو گئی ارتضیٰ کچھ کہتا کہ فہیم افق کی طرف آ کر کھڑا ہوا اور افق کے سر پر ہاتھ رکھ کر رسم کرنے لگا اس کو دیکھ کر ارتضیٰ بھی اپنے غصے کو دباتے رومان کی طرف متوجہ ہوا اور رومان کے سر پر تیل ملتے اس کے منہ میں تین چار رس گلے ٹھونستے اٹھا سب رومان کا حال دیکھ کر ہنسنے لگے۔

ارتضیٰ کے اٹھتے ہی فہیم رومان کی طرف آیا اور ارتضیٰ والا  عمل دہراتے رومان کے بالوں کو تیل سے تر کرتے اور منہ میں گلاب جامن ٹھنساتے ہاتھ جھاڑ کر اٹھ گیا۔

اس سے پہلے کوئی اور تماشہ کرتا صنوبر اور فائقہ رسم کرنے آگے بڑھ کر افق اور رومان کے ساتھ بیٹھیں چھیڑ چھاڑ میں رسم کی اور اٹھ گئیں۔

عمائزہ اور آیت کو رسم کرنے کے لیے آگے بڑھتے دیکھ اذہان آگے بڑھا اور عمائزہ کے افق کے ساتھ بیٹھنے پر آیت کے آگے آیا اور رومان کے ساتھ بیٹھ گیا اس کی چالاکی پر عمائزہ دانت کچکچا کر رہ گئی وہ اٹھنے لگی تھی کہ صنوبر کے کہنے پر بیٹھی رہی اذہان جو کب سے سوچ رہا تھا اور اسی لیے کافی دیر سے خاموش تھا کہ وہ چاہتا تھا عمائزہ جب رسم کرنے آئے تو وہ رومان کے ساتھ بیٹھ جائے رومان اسے تھپڑ مارے اور دوسری طرف افق بھی عمائزہ کو ایک آدھا تھپڑ مار دے تا کہ اس کی اور عمائزہ کی بھی شادی ہو جائے اس نے کچھ زیادہ ہی سیریس لے لیا تھا صائب کی امی کی باتوں کو پھر گہری سانس بھر کر رومان کی طرف رخ موڑا اور بولا یار رومان مجھے بھی کوئی تھپڑ یا مکا جڑ دے تا کہ میرا بھی کوئی چانس بنے اس کی بات سنتے رضا صاحب زور سے بولے گدھے میں بنواتا ہوں تیرا چانس آجا میرے پاس ہر طرف قہقے گونجے اذہان منہ بنا کر بولا پاپا آپ کی شادی نہیں ہو رہی جو آپ سے چانس بنواؤں رضا صاحب اس کی بات پر دانت پیس کر رہ گئے ان کی اولاد کبھی باز نہیں آ سکتی وہ اچھے سے جانتے تھے۔

میری جان یہاں آ مجھ سے کھا لے جھانپڑ اتنا تجھے شوق چڑھ رہا ہے تو فہیم آگے آتا بولا اذہان جلدی سے رسم کرنے لگا کہ کہیں فہیم اپنا بیس کلو کا ہاتھ اس پر نا اٹھا لے کہ وہ اپنا منہ ہی تڑوالے اتنا تو سمجھ دار تھا ہی وہ اس کو رسم کرتے دیکھ عمائزہ بھی افق کی طرف دیکھتی رسم کرنے لگی اور جلدی سے اٹھ کر فائقہ کے ساتھ جا کر کھڑی ہو گئی جبکہ اذہان اپنے سارے ارمان پورے کرتے رومان کا حال بے حال کرتے پیار کرتے اٹھا تقریباً سب ہی رسم کر چکے تھے نثار صاحب اور روحیل صاحب بولے صائب اب کھانا کھلا دینا چاہیے ٹائم زیادہ ہو رہا ہے صائب جی کہتا سب کو لے کر باہر کی طرف بڑھا جہاں کھانے کا انتظام تھا رومان واشروم چلا گیا تھا اپنی حالت کچھ سنوارنے جبکہ لڑکیاں سب افق کے پاس بیٹھ گئیں اور باتیں کرنے لگیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب مہمانوں کو ہر چیز سرو کرنے کے بعد اذہان ان سب کو لے کر خود بھی ایک ٹیبل پر آ کر بیٹھ گیا صائب نے کوئی ویٹر نہیں بلایا اس کا کہنا تھا وہ سب لڑکے اتنے تو ہیں کہ کھانے کا سارا انتظام خود سنبھال سکیں اسی لیے تقریباً سب مہمانوں کو ہر جیز سرو کر کے اب سکون سے بیٹھے تھے۔

 اذہان سہراب کو لے کر اٹھا اورسب کے لیے کھانا لینے چل دیا۔

صائب اور ارتضیٰ رومان اور افق کے پاس تھے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو ان سے پوچھ لیں۔

صائب اذہان والوں کی طرف آیا اور بولا جلدی سے کھانے وغیرہ سے فری ہو جاؤ پہلے ہی رسموں اور فوٹو سیشن میں اتنا ٹائم لگ گیا تھا اذہان جو کباب کھا رہا تھا صائب کو گھورنے لگا اور بولا یار سکون سے کھانا تو کھانے دے کیا بار بار بے سکون کری جا رہا ہے جلدی کرو جلدی کرو صبح کا ناشتہ کیا ہوا ہے اور اب بھوک سے برا حال ہو رہا ہے اب بھی کھانے نہیں دے رہا۔

 صائب بولا میں نے کب بے سکون کیا اور ابھی ہی تو آیا ہوں بولنے۔

سہراب اور فہیم بھی ساتھ ہی بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اذہان کو دیکھ کر سہراب جل کر بولا بںغیرت انسان ناشتے کے بعد سے بھی تو کتنا کچھ ٹھونس چکا ہے اور راستے میں جو چپس نمکو کیک ٹھونستا ہوا آیا ہے وہ الگ ابھی بھی تیرا بھوک سے برا حال ہے۔

اس سے پیٹ تھوڑی بھرتا ہے وہ تو بس ویسے ہی تھا اذہان مزے سے بولا ان دونوں کو دیکھ کر صائب سر جھٹک کر رمضیہ والوں کی طرف پوچھنے آیا کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں انہیں وہاں سے تسلی کر کے جانے ہی لگا تھا کہ رمضیہ کرسی سے کھڑی ہو کر بولی تم نے کچھ کھایا صائب حیران ہوا اور بولا نہیں میں کھا لیتا ہوں ابھی تم سب کھاؤ آرام سے۔

ہاں پتہ ہے مجھے کتنا کھا لو گے تم پھر ارتضیٰ کو آواز دیتی اسے بلانے لگی ارتضیٰ سٹیج پر رومان والوں کے پاس تھا فوراً اتر کر ان کے پاس آیا اور بولا کیا ہوا کچھ چاہیے۔

رمضیہ کا دل کیا اپنا سر پٹ لے پھر بولی کچھ چاہیے ہو گا تو ہم خود منگوا لیں گی تم یہ بتاؤ تم نے کھایا کھانا۔

ارتضیٰ جو کب سے نوٹ کر رہا تھا کہ فائقہ بھی اپنے سامنے خالی پلیٹ لیے بیٹھی تھی مطلب ابھی تک اس نے بھی کچھ نہیں کھایا تھا اور یہ سوچتے ارتضیٰ دل ہی دل میں خوش ہوا پھر رمضیہ سے بولا نہیں میں اور صائب بعد میں کھا لیں گے۔

شرافت سے یہں بیٹھ جاؤ ہمارے ساتھ یا اذہان والوں کے پاس جاؤ اور کھانا کھاؤ بعد میں کتنا کھاؤ گے مجھے اچھے سے پتہ ہے اذہان والے کچھ نہیں چھوڑنے والے ان کے آگے دس دیگیں بھی رکھ دو گے نا کھانے کی تب بھی ان کے پیٹ نہیں بھرنے والے رمضیہ ہنستے ہوئے بولی۔

ارتضیٰ سر ہلا کر صائب کو لیتے اذہان والوں کی طرف بڑھا تھوڑی دور جانے کے بعد ہی صائب واپس ان کی طرف آیا اور ایک نظر فائقہ کو دیکھ کر ارتضیٰ کو دیکھ کر بولا آپ سب آرام سے کھانا کھا لیں اب ہماری فکر نا کیجیے گا ہم لوگ بھی کھانا کھا کر ہی اٹھیں گے اب ٹیبل سے اور اذہان والوں کی طرف چل دیا جبکہ فائقہ جلدی سے پلیٹ اٹھا کر کھانا ڈالنے لگی اسے لگا شاید صائب کو پتہ چل گیا ہے یا شک ہو گیا ہے ارتضیٰ اور اس کا تبھی وہ اسے دیکھ کر بولا تھا پھر سر جھٹک کر کھانا کھانے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھانے سے فری ہونے کے بعد وہ روحیل صاحب بولے اب نکلنا چاہیے اور ان سب کو اشارہ کرنے لگے۔

مہمانوں کے نکلتے ہی وہ سب بھی ہال سے باہر آئے رمضیہ افق کو لے کر ارباب کے ساتھ صائب کی گاڑی میں بیٹھی روحیل صاحب بھی صائب کی گاڑی میں تھے ان کے بیٹھتے ہی صائب نے ارتضیٰ کو اشارہ کیا کہ رانیہ عمائزہ آیت اور فائقہ کو اپنی گاڑی میں لے آئے ارتضیٰ مسکراتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف آیا اور ان سب کے بیٹھتے ہی گاڑی سٹارٹ کر دی اور صائب کے نکلتے ہی خود بھی گاڑی آگے بڑھائی اذہان فہیم اور سہراب پہلے ہی نکل چکے تھے اپنے اپنے گھر والوں کے ساتھ ورنہ اذہان کے ہوتے کیسے ممکن تھا کہ عمائزہ اس کے علاوہ کسی اور کے ساتھ چلی جاتی صنوبر نے کچھ سامان لینا تھا گھر سے اسی لیے وہ سہراب کے ساتھ پہلے گھر آئی پھر واپس رمضیہ کی طرف آنا تھا اس نے جبکہ لڑکے سارے گھر والوں کو چھوڑ کر رومان کی طرف جانے والے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رمضیہ گھر پہنچتے ہی ارباب کے ساتھ افق کو اس کے کمرے میں چھوڑنے چلی گئی صائب اور روحیل صاحب آ کر لاؤنج میں ہی بیٹھ گئے ان کے پیچھے ارتضیٰ بھی پہنچ گیا تھا وہ سب اندر آئے اور لاؤنج میں ہی بیٹھ گئے رمضیہ اور ارباب نیچیں آئیں تو عمائزہ بولی رمضیہ اب ہمیں چھوڑ آؤ آج واسع کسی کام سے لاہور گیا ہوا تھا اس لیے وہ لینے نا آسکا۔

رک جاؤ آج یہاں ہی رمضیہ لاڈ سے بولی۔

نہیں یار پھر کبھی سہی ابھی جانا ہے ہمیں عمائزہ سہولت سے انکار کرتی بولی۔

صائب تم چھوڑ آؤ ان دونوں کو روحیل صاحب صائب سے بولے صائب سعادت مندی سے جی کہتا اٹھا اور رمضیہ سے بولا آجاؤ انہیں چھوڑ کر آتے ہیں اور باہر نکل گیا رمضیہ بھی چپ چاپ اٹھ کر عمائزہ اور آیت کے ساتھ باہر آ گئی۔

ان سب کے بیٹھتے ہی صائب نے گاڑی سٹارٹ کی اور عمائزہ سے ایڈریس پوچھا عمائزہ کے بتانے پر سر ہلا دیا۔

چھوٹی موٹی باتوں کے درمیان پتہ ہی نہیں چلا اور ان کا گھر آگیا آیت سو گئی تھی عمائزہ نے آیت کو ہلاکر اٹھایا وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھی صائب اور رمضیہ نے گھبرا کر پیچھے دیکھا پھر سمجھتے گاڑی سے نکلے عمائزہ بھی نکلی اور آیت کو کھینچ کر باہر نکالا۔

ان دونوں کا گھر ساتھ ساتھ تھا پہلے عمائزہ آیت کو گیٹ تک چھوڑ کر آئی اندر آیت خود چلی گئ تھی پھر ان کی طرف آئی اور زبردستی اپنے گھر لے گئی صائب کے منع کرنے کے باوجود بولی صائب بھائی پہلی بار آئیں ہیں آپ ایسے ہی باہر سے چلے جائیں گے کیا اس کے بھائی کہنے پر صائب نا چاہتے ہوئے بھی اندر آگیا۔

مشکل سے دس منٹ بیٹھ کر صائب رمضیہ کو دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا اور عمائزہ کے پیرینٹس کو دیکھ کر بولا بہت دیر ہو گئی ہے اب ہم چلتے ہیں رمضیہ بھی کھڑی ہو گئی کہ اچانک عمائزہ کی کزن واسع کی بہن ارماہا بولی رمضیہ اپنے بھائی کو بولو تھوڑی دیر اور رکنے دے تمہیں ابھی تو آئے ہو تم لوگ رمضیہ اس کا منہ دیکھنے لگی صائب بمشکل ضبط کرتا بولا ہمیں دیر ہو رہی ہے ہمیں جانا ہے اور رمضیہ کو دیکھ کر بولا ہمارا ریلیشن جو بھی ہے آپ اپنے اندازے نا لگائیں مس اور رمضیہ کو باہر آنے کا کہتا نکل گیا ارماہا کلس کر رہ گئی وہ کب سے بیٹھی تھی کہ شاید صائب اس کی طرف دیکھ لے مگر صائب نے اس پر ایک نگاہ ڈالنا بھی گوارہ نا کیا تھا اور رمضیہ کو دیکھ کر جواب دیتے پتہ نہیں کیوں ارماہا کے دل میں آگ لگا گیا تھا۔

صائب نے رمضیہ کے گھر کے آگے گاڑی روکی رمضیہ اتر گئی صائب ویسے ہی بیٹھا رہا تو صائب سے پوچھنے لگی۔

تم نہیں آؤ گے اندر۔

نہیں مجھے کچھ کام ہے پھر میں رومان کی طرف جاؤں گا تم جاؤ اور گیٹ اچھے سے بند کرنا صائب گاڑی دوبارہ سٹارٹ کرتے بولا رمضیہ اللّٰہ حافظ کہتی گیٹ کھول کر اندر آگئی رمضیہ کے گیٹ بند کرنے تک صائب وہیں رہا جیسے ہی گیٹ بند ہوا وہ گاڑی زن سے آگے بڑھا لے گیا۔


Read More

Thursday, June 27, 2024

Zina Ek Qarz Hai Novel Part 14 by Bushra Sheikh | Fahan Speak

June 27, 2024
Zina Ek Qarz Hai Novel Part 14 by Bushra Sheikh | Fahan Speak

 ناول 👈زنا ایک قرض ہے۔۔۔۔۔

نیو اٸیر سپیشل۔۔۔۔۔

تحریر 👈بشریٰ شیخ

قسط نمبر 👈 14


کیا مصیبت ہے؟؟ کل کا دن بھی خراب تھا اور آج کا اس منحوس نے خراب کردیا عرزم نے غصے میں شہباز کی طرف دیکھ کے کہا

تم دونوں بتاٶ کے ویڈیو صحیح سے بنی تھی؟؟ ایڈٹ کرلی؟؟


یار وہ مر گٸ۔۔ کمال نے دھیمی آواز میں کہا


تو میں کیا کروں؟؟ مر گٸ تو۔۔۔ تم دونوں کے ذمے جو کام تھا وہ کرو بس۔۔۔

ارے اگر وہ لڑکی مر گٸ تو ہم کیا کریں اب اس بیغیرت کے پیچھے اپنا کام تو بند نہیں کر سکتے۔۔۔  خود تو مر گٸ ایک کو اپنے پیچھے منجوں بنا گٸ باقی دو بھی ابھی تک اسی کا سوگ منارہے ہیں۔۔۔۔ شام تک ویڈیوز سوشل میڈیا کی زینت ہونی چاہیے چہرے کے ساتھ


جانی چہرہ رہنے دیتے ہیں اب ویسے بھی وہ نہیں رہی۔۔۔۔ سکندر نے کہا


تم دونوں اپنی بکواس بند رکھو۔۔۔ جیسا کہا ہے ویسا کرو۔۔۔۔ اس کے ماں باپ بہن بھاٸی کو بھی پتا چلنا چاہیے کے ان کے گھر کی عزت نے مرتے مرتے بھی کیسے ان کا نام روشن کیا ہے۔۔۔۔

شام تک مطلب شام تک ہی سب واٸرل وہ انگلی دیکھا کے کہتا ہوا چلا گیا

اور ہاں مجھے بھی سینڈ کرنا ۔۔۔۔ اس میں اپنے چہرے بلر نا کرنا نیٹ والی میں کر دینا


یار اس لڑکی کی وجہ سے اس کی حالت دیکھ۔۔۔ کمال نے شہباز کی طرف دیکھ کے کہا

اب تو مجھے بھی ڈر لگ رہا ہے کہی اس کی آہ ہمیں نا لگ جاۓ

مگر عرزم کا دل نرم نہیں ہورہا


ہاں یار اب سے میں بھی یہ سب چھوڑ دونگا سکندر نے بھی کہا

بس یہ آخری بار تھا

ڈر لگ رہا ہے وہ لڑکی اوپر جاکے خدا کے سامنے ہماری شکایت کرے گی

ہم کل و کس منہ سے اس کے سامنے حاضر ہونگے


ہاں یر صحیح کہہ رہا ہے تو۔۔۔۔ چل اب یہ ایڈٹ کے ڈال دے اس کے بعد ہمارا جانی اور اس سب سے کوٸی واسطہ نہیں ہوگا


یہ ویڈیو ایڈیٹ کرکے اپلوڈ کرنا ان کی مجبوری تھی کیونکہ وہ عرزم سے پہلے ہی پیسے لے خرچ کرچکے تھے

اگر ان کے پاس ہوتے تو واپس عرزم کے منہ پہ مار کے اس سے راستہ الگ کرلیتے

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


جیسے ہی ثمامہ دروازہ کھول کے اندر آٸی

سامنے کا منظر دیکھ کے اس کے تن بدن میں آگ لگ گٸ

ایک لڑکی بیڈ پہ گیٹی تھی اور اس کا شوہر اس لڑکی پہ جھکا ہوا تھا

وہاں مادخ صاحب میرے جانے کے بعد تم یہ سب کرتے ہو؟؟ اس نے زور سے کہا


ثمامہ کی آواز پہ مادخ ایک دم سیدھا ہوا ۔۔۔۔ میری بات سنو ایسا کچھ نہیں ہے اس نے آرام سے کہا


اور لڑکی تم وہی ہو نا؟؟ مادخ کی بات سے اگنور کرکے وہ میرال کی طرف بڑھی جو اب کھڑی ہوچکی تھی

پہلے تم نے ایک لڑکے کو قابو کیا ہوا تھا اور اب میرے شوہر کے پیچھے لگ گٸ؟؟ آوارہ عورت میرال کو بیڈ پہ دھکہ دیا


ثمامہ۔۔۔ مادخ چیخا


ایسکوزمی۔۔۔ تمیز سے اگر میں کچھ نہیں کہہ رہی تو اس کا یہ مطلب نہیں کے تم کچھ بھی کہے جاٶ۔۔۔ میرال اٹھ کے ثمامہ کے سامنے کھڑی ہوگٸ اور اپنے ہاتھ قابو میں رکھو کیونکہ ہاتھ میرے پاس بھی ہیں۔۔۔اور مجھے تمہارے شوہر میں کوٸی دلچسپی نہیں رکھو اس کو اپنے پلو سے باندھ کے کہتی ہوٸی وہ کمرے سے نکل گٸ


مادخ بھی اسی کو دیکھ رہا تھا جو اس کی بیوی کو چپ کروا کے چلی گٸ تھی۔۔۔

ارے واہ کمال لڑکی ہے اس نے منہ میں کہا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


سالا ٹائم ہی خراب چل رہا ہے عرزم پتھر کو پاٶں سے مارتا ہوا بولا

راستے میں اس کی نظر ایک سوٹ پہ پڑی اس کو وہ بہت پسند آیا

اس نے اپنی گڑیا کے لیے وہ جوڑا لیا۔۔۔ چلو باہر اچھا ٹائم نہیں گزرا تو گھر والوں کے ساتھ سکون سے بیٹھ جاٶ گا

ویسے بھی اس میرال کے چکر میں کتنے دن سے گھر بھی نہیں گیا

اماں غصہ ہوگی مجھ سے اور گڑیا بھی ناراض ہوگی

چلو چیر ہے جب گڑیا یہ جوڑا دیکھے گی تو بہت خوش ہوگی۔۔ وہ خود میں مگن باتیں کرتا چل رہا تھا

وہ گلی میں آچکا تھا دیکھنا اب میں گھر جاکے اماں اور گڑیا کو سرپراٸز دیتا ہوں۔۔لیکن کیا؟؟ اتنا رش؟؟

بیٹا یہاں اتنا رش کیوں ہے؟؟ اس نے گلی میں کھڑے بچوں میں سے ایک سے پوچھا


 پتا نہیں یہاں کچھ ہوگیا ہے وہ چھوٹا سا چار یا ساڑھے سال کا بچہ تھا

اماں بھی گٸ ہے یہاں پہ۔۔۔ سب رو رہے تھے دوسرے بچے نے کہا

ہاں بھاٸی پوں پوں والی گاڑی بھی آٸی تھی۔۔۔ ابھی گٸ ہے تیسرے بچے نے بھی کہا


عرزم کے قدم تیزی سے گھر کی طرف بڑھے۔۔۔۔ دروازے پہ ہی وہ لڑکھڑا گیا وہاں موجود کچھ لوگوں نے اس کو سہارا دیا

سامنے صحن میں ایک جنازہ رکھا ہوا تھا


عرزمممممم۔۔۔۔ سلیمہ نے بیٹے کو دیکھا وہ اس سے چمٹ گٸ

علیھہہ بھی اس سے چمٹ گٸ


اماں یہ یہ؟؟ آگے اس سے کچھ نہیں بولا جارہا تھا۔۔۔۔جیسے وہ پوچھنا چاہ رہا ہو کے یہ کس کا جنازہ ہے؟؟

ماں بہن کو خود سے جدا کرکے وہ آگے ہوا۔۔۔ گڑیا کو آوازیں دینے لگا

گڑیا دیکھ بھاٸی آیا ہے۔۔۔ کبھی وہ کمروں میں جاتا کبھی کچن میں گڑیا گڑیا


عرزم وہ چلی گٸ سلیمہ نے کہا


نن ننہیں اماں۔۔۔ اییییسا نن نہیں ہو سکتا۔۔۔یہ یہ دیکھ مم میں جج جوڑا لایا ہو اس کے لیے ۔۔۔۔ اس کو بتا پھر دیکھنا وہ بھاگ کے آۓ گی

وہ ناراض ہے مجھ سے اس لیے سامنے نہیں آرہی۔۔۔ گڑیا میرے بچے باہر آ نا۔۔۔ وہ چیخ رہا تھا


عرزم یہ رہی ہماری گڑیا۔۔۔ علیھہہ بھاٸی کو ضحک کی چارپاٸی کے پاس لے کے آٸی۔۔۔

(جی تو سب کو پتا چل ہی گیا ہوگا ضحک ہی گڑیا تھی)


اب رونے سے کیا ہوگا؟؟ جانے والا چلا گیا

آوازیں دینے سے وہ واپس تو نہیں آجاۓ

وہ منوں مٹی تلے سکون سے جا سوٸی تھی

اور ساتھ میں ان برا کرنے کا سکون بھی ساتھ لے جا چکی تھی

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


جیسے ہی میرال گھر پہنچی

سامنے ہی نصرت اور عنایت پریشان بیٹھے تھے


میرال کہا سے آرہی ہو؟؟


مما پاپا مجھے معاف کردیں۔۔۔ میں پکا وعدہ کرتی ہوں یہ میری آخری غلطی تھی آج کے بعد کچھ نہیں کرنگی۔۔۔۔۔

عنایت کے گلے لگ کے کہنے لگی


عنایت آپ نے اس کی ہر بات مان کے اس کو بگاڑ دیا ہے

پوچھے اس سے کہا تھی پوری رات؟؟


بیگم یہ دوستوں کے ساتھ تھی نیواٸیر ناٸٹ تھی نا اسلیے۔۔۔ پھر راستے میں گاڑی خراب ہوگٸ وہی مادخ مل گیا تھا اس کو اسی نے مدد کی عنایت نے کہا


پاپا آپ کو کس نے کہا؟؟ اس نے حیرت سے پوچھا


ابھی مادخ کا فون آیا تھا اسی نے ساری بات بتائی ۔۔۔ بیٹا مادخ تھا اسی لیے میں بیفکر ہوگیا۔۔۔ لیکن


لیکن آج کے بعد ایسا کچھ نہیں گا۔۔۔۔ پکا پکا پکا میرال پرمسسسسسس

سب کو تو اس نے مطمئن کردیا تھا لیکن اس کو ابھی بھی ڈر لگ رہا تھا کیونکہ عرزم کے پاس اس کی پکس تھی

جاری ہے

Read More

Monday, June 24, 2024

Zina Ek Qarz Hai Novel Part 13 by Bushra Sheikh | Fahan Speak

June 24, 2024
Zina Ek Qarz Hai Novel Part 13 by Bushra Sheikh | Fahan Speak

 ناول 👈زنا ایک قرض ہے۔۔۔۔۔

نیو اٸیر سپیشل۔۔۔۔۔

تحریر 👈بشریٰ شیخ

قسط نمبر 👈 13


عرزم ابھی میرال کو لیٹا کے کیمرہ سیٹ کرنے لگا ہی تھا کے اس کے موبائل پہ میسج آیا کے پولیس کا چھاپہ پڑ گیا ہے

اس جگہ پہ اکثر اس کا آنا جانا تھا اس لیے یہاں کے لوگوں سے اس کی واقفیت تھی جب پولیس آٸی تو اس کو فورن پتا چل گیا

اس نے فورن ہی کمرے کی کھڑکی کھولی اور پاٸپ کے راستے نیچے اتر گیا

وہ بچتا بچاتا اپنے دوستوں کے پاس فلیٹ تک پہنچا

جیسے ہی سکندر نے دروازہ کھولا وہ ہاپتا ہوا اندر داخل ہوا


کیا ہوا ہے جانی؟؟ سب خیر تو ہے؟؟ سکندر نے اس کو دیکھ کے کہا

(جی ہاں وہ جانی عرزم ہی ہے)

لگتا ہے ساری رات اسی میم کے ساتھ جاگا ہے جو اب اتنا سانس چڑھ رہا ہے کمال نے آنکھ مار کے کہا


ابے چل نا ساری رات ہی برباد ہوگٸ عرزم نے پانی پیتے ہوۓ گلاس زمین پہ دے مارا

وہاں پولیس کا چھاپہ پڑ گیا اچھی بھلی ہاتھ آٸی بلبل گٸ مرتا مرتا اچا ہو بس۔۔۔۔

اور تم لوگوں نے تو بڑے مزے کیے ہونگے؟؟ اس کو کیا ہوا؟؟ اس نے خباثت سے ہستے ہوۓ کہا کہا ہے وہ چڑیا؟؟ ہمیں بھی تو اس کا دیدار کرواٶ سینے پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا

اس مجنوں کو کیا ہوا؟؟ ایسے کیوں پیٹھا ہے؟؟ اس نے شہباز کی طرف دیکھ کے کہا

اوے مجنوں ابھی تک لیلٰی کا بھوت نہیں اترا تیرے اوپر سے؟؟ ہاہاہاہا وہ زور زور سے قہقہہ لکانے لگا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


ساری رات ہوگٸ سلیمہ کا رو رو کے برا حال تھا


علیھہہ ماں کو چپ کروا کے تھک گٸ۔ حال تو اس کا بھی خراب تھا

پتا نہیں گڑیا کہا چلی گٸ ٹھی؟؟

اب تو محلے والے بھی گھر جمع ہونا شروع ہوگٸے تھے

لوگ طرح طرح کی باتیں بنارہے تھے

(کیونکہ لوگوں کا کام ہی باتیں بنانا ہے وہ نا تو کسی کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں الٹا حسد کرتے ہیں اور دوسروں کے غم میں ان کو تسلی نہیں دیتے ان کے آنسو صاف نہیں کرتے بلکہ کھڑے ہوکے جج کرتے ہیں کے فلاں ایسا ہے فلاں ویسا ہے )

خدا کے لیے آپ لوگ اپنے گھر جاٸیں علیھہہ نے ان کی باتیں سن کے کہا جو وہ اس کی بہن پہ کیچڑ اچھال رہے تھے ماں کی تربيت پہ انگلیاں اٹھارہے تھے بھاٸی کو لاپرواہ کہہ رہے تھے


ارے بیٹی ہم تو تمہارا درد بانٹنے آٸیں ہیں ایک عورت نے کہا


خالہ صغرا درد ایسے نہیں بانٹیں جاتے کے ہمارے منہ پہ ہی ہمیں سنارہی ہو۔۔۔

کسی نے آگے بڑھ کے میری ماں کو یا مجھے سینے سے لگایا؟؟

کسی نے میرے بھاٸی کو اطلاع دینے کی کوشیش کی؟؟

کسی نے یہ سوچا کے رات کے یہ ماں بیٹی صدمے میں ہیں تو اپنے گھر سے دو نوالے لا کے منہ میں ڈال دیں یا پانی پلا دیں۔۔۔۔

لیکن نہیں وہاں سب ساتھ بیٹھ کے ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے باتیں بنارہے ہیں آۓ بڑے درد بانٹنے والے۔۔۔ جب وہ بولی تو ساری بھڑاس نکال دی


محلے والے ایک ایک کرکے جانے لگے

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


میرال کو ساری رات ہی ہوش نہیں آیا وہ ابھی بھی بہیوش ہی تھی یہاں تک کے اب صبح کے گیارہ بج رہے تھے


مادخ کو اب فکر ہونے لگی کے اگر ثمامہ یا اس کے ماں باپ میں سے کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا؟؟

وہ اب میرال کے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارنے لگا شاید وہ ایسے ہی اٹھ جاۓ


ٹھنڈا پانی منہ پہ گرا تو میرال کو ہوش آنے لگا

عر عرزم نن نہیں کرو۔۔۔ پپ پلیز وہ ڈڈ ڈیلیٹ کر دو۔۔۔۔

وہ نیندوں میں بول رہی تھی


مادخ کو سمجھ آگٸ وہ کیا ڈیلیٹ کرنے کا کہہ رہی تھی کیونکہ رات وہ اس کا موبائل چیک کرچکا تھا


وہ اور اونچی آواز میں بول رہی تھی


کہی باہر آواز نا چلی جاۓ اس ڈر سے مادخ نے جھک کے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا

وہ اس کے اوپر پورا جھکا ہوا تھا کے اچانک میرال نے ہاتھوں سے اس کو دور کرنے کی کوشیش کی


میرال کے ناخن کے اس کے منہ گردن اور سینے پہ کھروچیں لگ گٸ

اس کی آنکھیں کھلی اور ساتھ ہی دروازہ کھلا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


اوے مجنوں ۔۔۔۔ ہاہاہاہا


اس کی ہنسی کی آواز سے شہباز کو وحشت ہورہی تھی

چپ چپ چپ اس نے اپنے بال نوچے

وہ اٹھ کے عرزم کے پاس آیا اس کا گریبان پکڑ لیا

سالے کمینے وہ تیری وجہ سے مر گٸ ۔۔۔۔۔۔ مر گٸ وہ تیری وجہ سے

عرزم کی آنکهوں میں آنکهيں ڈال کے چلا رہا تھا

میں نے کہا بھی تھا وہ معصوم ہے اسے جانے دو۔۔۔ جانے دو لیکن تیرے کہنے پہ انہوں نے مجھے نشے میں کیا اور میں نے اس کے ساتھ۔۔۔۔ ہہہاااااا وہ چیخا

وہ پہلے ہی سکندر اور کمال سے مار پیٹ کرچکا تھا تو انہوں نے عرزم کی بات بتا دی جو اس نے کہا ہم نے وہی کیا

تین چار تھپڑ عرزم کے منہ پہ مارے تو نے مارا ہے تو ماراااا۔۔۔


عرزم نے بھی اسے دھکہ دیا

ابے ہٹ۔۔۔ کیا ہوگیا اگر وہ مر گٸ۔۔۔۔ایک لڑکی کے پیچھے پاگل ہوا جارہا ہے

سالی پتا نہیں تیرے سے پہلے اپنے کتنے یاروں کے سامنے کپڑے اتار کے آٸی ہو گی باولا کہی کا


اےےےےےےے خبردار جو اس کے خلاف ایک لفظ بھی کہا تو تیری زبان کھینچ لونگا شہباز نے اس کا جبڑا پکڑا

وہ ایسی نہیں تھی ۔۔۔۔ بہت بھولی تھی ۔۔۔۔ کم عمر تھی اسی لیے میرے جیسے شیطان کی باتوں میں آگٸ ۔۔۔۔ وہ رہ رہا تھا بار بار اپنے ہاتھوں کو سر پہ مارتا ۔۔۔۔۔ میں کو*مینہ بیغیرت میں نے مار دیا اس کو ہہہہہااااااا میں نے مار دیا وہ اپنے ہاتھوں کو زمین پہ مار رہا تھا ۔۔۔۔ اس کو دیکھ ہی میں نے فیصلہ کرلیا تھا کے میں ان سب کاموں سے دور ہوجاٶ گا چھوڑ دوگا یہ غلیظ دنیا۔۔۔ وہ اب زمین پہ بیٹھ چکا تھا

تم لوگوں نے میری ڈول کو مجھ سے چھین لیا گھٹنوں میں منہ دے کے رونے لگا۔۔۔۔


پاگل ہوگیا یہ سنبهالو اس کو عرزم نے شہباز کو دیکھتے ہوۓ کہا


یار لگتا ہے شہباز کو سچ میں اس لڑکی سے محبت ہوگٸ تھی سکندر نے عرزم کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے کہا


لگتا ہے تیرا دماغ بھی خراب ہوگیا ہے یہ محبت کچھ نہیں ہوتی ۔۔۔۔ غوتی ہے بس ہوس طلب اور جب یہ پوری نا ہوتو تب انسان بےبس ہوجاتا ہے س نے غصے سے کہا


ہم نے بہت غلظ کیا یار اس کی موت میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں کمال نے بھی آگے بڑھ کے کہا

یار وہ سچ میں ابھی بہت چھوٹی تھی اور ہم تین۔۔۔۔

اپنے یار کو اس طرح دیکھ کے ان کو اب افسوس ہورہا تھا لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی


تم بس ہی پاگل ہوگٸے ہو اس آوارہ لڑکی کے پیچھے

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


صبح جمعدار کوڑا اٹھانے آیا تو اس کو اس کچرا کنڈی میں کچھ بہت بڑا پڑا نظر آیا

اس کے گرد کتے بھی جمع بھونک رہے تھے

اس نے آگے بڑھ کے کتوں کو ڈرا کے بھگایا اور کپڑا کھینچا۔۔۔۔ لااااااش وہ چیخا

صاحب صاحب وہاں لاش پڑی اس نے وہاں موجود آدمی سے کہا۔۔۔

وہ کوڑا اٹھانے والا تیرہ چودہ سال کا بچہ ہی تھا

وہ آتے جاتے لوگوں کو بتاتا رہا لیکن سب ہی اس کی بات کو ان سنا کرکے جاتے رہے


اتنے لوگوں میں سے کوٸی ایک خدا تڑس بھی تھا ۔۔۔۔ کہا ہے لاش؟؟


وہں۔۔۔

اس شخص نے آگے بڑھ کے تصدیق کی وہ سچ میں ایک لڑکی کی برہنہ لاش تھی

اس نے پولیس کو کال کرکے بتایا


کچھ ہی دیر میں پولیس آگٸ ایمبولنس بھی آٸی تھی

جو اس برہنہ وجود کو دھک کے ہسپتال لے گٸے

وہاں اس کا پوسٹمارٹم ہوا

ڈاکڑوں نے بتایا کےلڑکی کے ساتھ زیادتی کی گٸ ہے موت کی وجہ بھی یہی تھی

شام تک اس لڑکی کے بارے میں پتا چل گیا تھا۔۔۔

تھانے میں ضحک کی گمشدگی کی رپورٹ کی ہوٸی تھی ساتھ میں تصویر بھی دی گٸ تھی

گھر والوں کو اطلاع دی جاچکی تھی


ضحک کو دیکھ کے کہرام مچا ہوا تھا۔۔۔ گھر والوں کے ساتھ محلے والے بھی اس جوان موت پہ اشکبار تھے

گھر کے صحن میں جنازہ تیار تھا۔۔۔ لیکن کندھا دینے والے کا کچھ پتا نہیں تھا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏

جاری ہے

Read More

Thursday, September 28, 2023

Zina Ek Qarz Hai Novel Part 12 by Bushra Sheikh | Fahan Speak

September 28, 2023
Zina Ek Qarz Hai Novel Part 12 by Bushra Sheikh | Fahan Speak


 
Zina Ek Qarz Hai Novel Part 12 by Bushra Sheikh | Fahan Speak, Urdu Novels, Novels, motivational novels, sad novels
Zina Ek Qarz Hai Novel Part 12 by Bushra Sheikh | Fahan Speak
 


 ناول: زنا ایک قرض ہے۔

نیو اٸیر سپیشل۔۔۔۔۔

تحریر: بشریٰ شیخ

قسط نمبر:  12


عنایت کی طبیعت خراب تھی اسی لیے وہ آفس نہیں گٸے

گھر سے ہی ورک دیکھ رہے تھے


مادخ کو ضروری فاٸل پہ ان کے ساٸن چاہیے تھے


عنایت نے اس کو گھر ہی بلا لیا


مادخ ساٸن کروا کے واپس جانے لگا جب اس کی اچانک میرال سے ٹکر ہوٸی


وہ اتنی بےخبر تھی کے اس کا موبائل وہی پڑا رہ گیا اور وہ مادخ کو بنا دیکھے ہی گھر سے باہر نکل گٸ


مادخ اس کا موبائل اٹھا کے اس کے پیچھے ہی گیا۔۔۔۔


شاید اس کو کہی جانے کی جلدی تھی وہ اپنے قدم تیزی سے روڈ کی طرف بڑھا رہی تھی


مادخ کو اسکی حالت ٹھیک نہیں لگی وہ بھی اس کے پیچھے چل پڑا فاٸل ڈرائيور کو دے دی تھی کے آفس پہنچا دے

وہ میرال کا پیچھا کررہا تھا جو اب ٹیکسی روک رہی تھی


مادخ کو حیرت ہوٸی گھر میں گاڑیوں کے باوجود وہ ٹیکسی پہ کیوں جارھی ہے؟؟

اس نے بھی ٹیکسی لی اور اس کو میرال کی ٹیکسی کا پیچھا کرنے کو کہا

اب وہ کسی بہت ہی عجیب سے علاقے میں موجود تھے

یہ کوٸی تھرڈ کلاس ہوٹل نما جگہ تھی

میرال اندر چلی گٸ


مادخ نے کبھی اپنے قدم اندر کیطرف بڑھاۓ لیکن اس کو میرال کہی نظر نہیں آرہی تھی

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


یار جانی کہا ہے؟؟ پتا ہے نا آج ہم چاروں نے کیا کرنا تھا؟؟

اس بار تیرے بھاٸی نے کمال کردیا۔۔۔۔ کیا بچی پھنساٸی ہے؟؟

وہ سچ میں ہی بچی ہے چھوٹی سی

سکندر نے کہا


ہاں ہاں یاد ہے۔۔۔۔ تم تینوں پلان کے مطابق کام کرو

میں یہاں ایک ضروری کام میں پھنس گیا ہو جیسے ہی فرصت ملتی ہے میں تم لوگوں کے پاس پہنچ جاٶ گا

اور یار

اور ہاں ویڈیو ضرور بھیجنا اپنے بھاٸی کو اس نے ہنستے ہوۓ کہا


ایسا کوٸی سین نہیں ہے۔۔۔ جب ویڈیو واٸرل ہوگی تب ہی دیکھ لیو اپنے باقی تینوں بھاٸیوں کے کارنامے اور ہاں ہم نے پلان میں تھوڑا چینج مارا ہے


وہ کیا؟؟


ہم لڑکی کا چہرہ بھی دیکھاٸیں گے۔۔۔آخر اس لڑکی کے گھر والوں کو بھی پتا چلے کے ان کی عزت اپنی عزت کہا کہا نیلام کرتی پھر رہی ہے


سکندر ایسے کوٸی مسٸلہ نا ہو جاۓ


دیکھ بھاٸی مسٸلہ کیا ہونا نا تو ہم اس لڑکی یا باقی لڑکیوں سے زبردستی کرتےہیں اور نا ہی ان کو ان کے گھر سے اٹھا کے لاتے ہیں

خود ہی آتی ہیں اپنی مرضی سے چل کر

کس نے کہا ہم جیسے غیروں کے پیچھے اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولو

اگر ہم اپنے نفس کے مزے لیتے ہیں تو وہ بھی یہی کرتی ہیں

اپنے نفس کی تسکین کے لیے پراۓ لڑکوں سے باتیں کرنا ان سے یاریاں لگانا چھپ چھپ کے ملنا۔۔۔ نا کریں وہ سب

جب تب ایسی لڑکیاں زندہ ہیں تب تک ہم جیسے بھی ان کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے گے


او بس بھی کر کیا ہوگیا ہے مجھے لگتا ہے تیرا دل کسی خاص لڑکی کی وجہ سے نرم پڑرہا ہے


نہیں یار میرا دل تو نہیں ہاں البتہ شہباز ضرور نرم پڑرہا ہے سکندر نے موبائل شہباز کو دیا

دیکھ بھاٸی اگر ایسا ہے تو تو ہم تینوں کو چھوڑ اور لے جا اپنی اس محبوبہ کو کہی لیکن یہ یاد رکھیو جو لڑکی تیرے سے چکر چلا سکتی ہے محبت کے نام پہ اپنے محبوب کے سامنے اپنے کپڑے اتار دیے تو سوچ کیا وہ اچھی لڑکی ہوگی؟؟


نہیں یار وہ ایسی نہیں ہے وہ بہت معصوم ہے ۔۔ میرے اور اس کے بیچ ایسا ویسا کچھ نہیں ہوا ۔۔ میں تو کہتا ہو اس چھوٹی بچی کو ہم چھوڑ دیتے ہیں یار کہا ہم تیس بتیس سال کے اور کہا وہ سترہ سال کی بچی وہ مر جاۓ گی

شہباز کے دل میں اب اس لڑکی کے لیے سچے جذبات پیدا ہورہے تھے

وہ آج پہلی بار کسی کے لیے رو رہا تھا


دیکھ شہباز جو ہم کرتے ہیں اس میں عمروں کو نہیں دیکھتے بس اپنی غرض سے مطلب ہوتی ہے اور تو بھی یہی کر

شہباز کی کال کاٹ کے جانی نے کمال کو کال کی اور کہا شہباز کو بہت زیادہ ش*را*ب پلاٶ تاکے وھ پیچھے نا ہٹے

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


ضحک ڈیول کے بتاۓ ہوۓ پتے پہ پہنچ گٸ تھی

وہ بہت خوش تھی

ڈیول اس نے آواز دی دیکھو میں آگٸ

وہ چلتی ہوٸی شہباز کے سامنے کھڑی ہوگٸ

جی ہاں شہباز ہی ڈیول ہے


ضحک تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا


پر تم نے خود ہی بلایا تھا کہا تھا اگر میں نا آٸی تو تم ناراض ہو جاٶ گے


ہاں کہا تھا میں نے۔۔۔ کیا تمہارے پاس خود عقل نہیں تھی کے رات کے اندھیرے میں ایک لڑکے نے بلایا اور تم اپنے گھر والوں کی عزت کی پرواہ کیے بنا ملنے پہنچ گٸ اب وہ غصے میں چیخ رہا تھا

ڈیول ہو میں ڈیول۔۔۔پتا بھی ڈیول کیسےکہتے ہیں؟؟

شیطان کو کہتے ہیں چلی جاٶ تم۔۔۔ باہر کی طرف اشارہ کرکے کہا


ضحک اس کے چیخنے سے رونے لگی


چلی جاااااااٶٶٶٶٶٶ وہ زور سے چیخ رہا تھا


وہ روتی ہوٸی باہر کے دروازے کی طرف بڑھ گٸ

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


میرال عرزم کے بتاۓ ہوۓ کمرے میں آٸی


آٶ میری جان مجھے پتا تھا تم ضرور آٶ گی دیکھو میں اور میرا یہ کمرہ تمہارا منتظر ہے ہاہاہاہا


عرزم پلیز وہ پکس ڈیلیٹ کردو۔۔۔ اس نے التجا کی


کردونگا اتنی بھی کیا جلدی ہے؟؟ پہلے میرا دل کو بہلنے دو۔۔۔

بیٹھ جاٶ زرا سکون سے میرے ساتھ مشروب پی لو پھر چلی جانا حکم دیا


وہ خاموشی سے بیٹھ گٸ عرزم پلیز اب اس نے باقاعدہ ہاتھ جوڑے


میرال کے جوڑے ہاتھوں کو نظرانداز کرکے مشروب کا گلاس اس کی طرف بڑھایا


نن نہیں عر عرزم  اس نے ڈرتے ہوۓ انکار کیا


پیو ورنہ تو اس نے موبائل نکال کے لہرایا


میرال نے گلاس پکڑ لیا اور منہ کے لگایا


عرزم مسکرانے لگا

 

ایک دو گھونٹ پیتے ہی اس کو نشہ سا محسوس ہونے لگا اس کا سر بھاری ہو گیا آنکهيں بند ہونے لگیں

عرزم مجھے چکر آرہے ہیں اس شربت میں کیا تھا؟؟


میری چند نشے کی گولیاں تھیں اور کچھ نہیں اس نے میرال کواپنی بانہوں میں لیتے ہوۓ کہا

اس کا ڈوپٹہ اتار دیا اس کے کپڑے جسم سے الگ کیے


وہ نشے کی حالت میں اس کو پیچھے کرنے کی کوشیش کررہی تھی

دد دور رہو ۔۔۔ چھچھ چھوڑوں مم مجھے


ہششششش جان۔۔۔ تھپڑ کی قیمت وصول کرونگا بس اس نے آنکھ مارتے ہوۓ کہا

پھر وہ موبائل سیٹ کرنے لگا ویڈیو بنانے کے لیے

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


مادخ یہاں وہاں دیکھ رہا تھا کے میرال کہا گٸ ہے۔۔۔

اچانک اس کے کندھے پہ کسی نے ہاتھ رکھا


صفدر تم؟؟


مادخ تم یہاں کیا کررہے ہو؟؟


میں یہاں کسی کو ڈھونڈنے آیا ہو مادخ نے کہا

لیکن تم یہاں اور یہ کیا ہورہا ہے؟؟ اس نے باہر سے اندر آتی پولیس کو دیکھا جو اب ہر کمرے کا دروازہ کھول رہے تھے جہاں سے برہنہ لڑکے لڑکیاں نکل رہے تھے

سب جگہ شور تھا چھاپہ پڑ گیا


یار خیر تو کس کو ڈھونڈ رہے ہو؟؟ وہ بھی ایسی جگہ پہ؟؟ صفدر نے کہا


مطلب کیسی جگہ؟؟ مادخ نے حیرت سے پوچھا


یار تمہیں یہ سارا ماحول دیکھ کے بھی سمجھ نہیں آرہی؟؟ حد ہے ویسے۔۔۔ اس جگہ کا مالک ہوٹل کے نام یہاں لڑکے لڑکیوں کی ڈیڈ کرواتا ہے وہ بھی رومز میں۔۔۔ اور یہاں کال گرلز آتی ہیں یا وہ لڑکیاں جن کو کوٸی بلیک میل کررہا ہو

ہم نے ایسی بہت سی جگہوں پہ ریٹ کی ہے

لڑکے معصوم لڑکیوں کو نیواٸیر کے نام پہ یہاں لاۓ ہیں اور ان کی عزتوں سے کھیل رہے ہیں


مادخ کے دماغ میں میرال کا خیال آیا

وہ کال گرل نہیں ہے ۔۔۔ تو کیا اس کو یہاں بلیک میل کرکے بلایا گیا ہے؟؟

پھر ہاتھ میں پکڑا اس کا موبائل دیکھا۔۔۔

وہ ان لاک ہی تھا

اس نے جلدی سے واٹس ایپ کھولی جہاں عرزم کی بھیجی ہوٸی نازیب تصویریں تھیں

اس کے نیچے اس جگہ کا ایڈریس اور کمرہ نمبر بھی تھا


صفدر ہمیں ابھی کے ابھی روم نمبر ایک سو ایک میں جانا ہے اس نے کہہ کے دور لگا دی


صفدر بھی اس کے پیچھے گیا


کمرے کے باہر پہنچ کے مادخ نے صفدر کو کہا پہلے میں جاتا ہوں پھر فورن تم آنا

وہ نہیں چاہتا تھا کے میرال کو وہ کسی بھی غلط حلیے میں دیکھے

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


ضحک فلیٹ کا دروازہ کھولنے ہی لگی تھی کے سکندر نے اس کو پکڑ لیا


کہا جارہی ہو بلبل؟؟ وہ اس کو کمرے میں لے گیا اور باہر سے دروازہ بند کردیا


کمال نے کیمرے سیٹ کرلیے تھے


شہباز ابھی تک وہی کھڑا رو رہا تھا اس کو یقین ہوگیا تھا کے ضحک جاچکی ہے


سکندر اور کمال نے شہباز کو تسلی دی (جھوٹ میں)


وہ اس کو لے کے بیٹھ گٸے خود بھی ش*ر*ا*ب پی رہے تھے اور زبردستی اس کے منہ میں انڈیل رہے تھے


شہباز اب فل نشے میں تھا اس کو ہر طرف ضحک نظر آرہی تھی


یار تو کمرے میں جاکے آرام کرلے سکندر نے اس کو کہا

اور جس کمرے میں ضحک تھی اس میں بھیج دیا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


ڈوووول تم یہاں؟؟ یار کیو تم مجھے ہر جگہ نظر آرہی ہو؟؟ وہ نشے میں بول رہا تھا

چلی جاٶ تم یہاں سے ۔۔۔ میں اچھا انسان نہیں ہو۔۔۔

میں شیطان ہو


ڈڈ ڈیول مم مجھے جانے دو پلیز۔۔۔ اس نے روتے ہوۓ کہا

ضحک کو شہباز کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی


ڈول تم تم کیو رو رہی ہو؟ میں تمہارے آنسو نہیں دیکھ سکتا

اس نے ضحک کو بانہوں میں لے کے کہا

اپنے لبو سے اس کے آنسو چننے لگا


چھچھ چھوڑو مجھے اس معصوم کمزور لڑکی نے اس کو خود سے دور کرنے کی کوشیش کی


لیکن وہ لمبا چوڑا مرد اس سے ایک انچ بھی نہیں ہلایا گیا


اس نے ضحک کو بیڈ پہ دھکا دیا اور اس کے کپڑے پھاڑ دیے

مم میں شیطان ہو۔۔۔ شیطان

تم تم جاتی کیو نہییییںںں؟؟؟ وہ غصے اور نشے کی ملی جھلی کیفیت میں بول رہا تھا

میں اپنی ڈول کو بہت پیار کرتا ہو اس کے اوپر جھکتے ہوۓ بولا

ضحک کی یاد اور شر*ا*ب کا نشہ اس کے سر چڑھا ہوا تھا وہ آہستہ آہستہ اس کے وجود پہ حاوی ہوتا گیا


وہ بہت چیخی روٸی لیکن کوٸی فائدہ نہیں تھا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


مادخ نے جیسے ہی دروازہ کھولا میرال کو کمرے میں برہنہ بیہوش حالت میں پایا

وہ فورن آگے بڑھا اور بیڈ شیٹ سے اس کو پورا کور کیا


اتنے میں صفدر بھی اندر آچکا تھا

اس نے کمرے میں آتے ہی تلاشی لی لیکن اس کو وہاں کوٸی نہیں ملا

جو بھی تھا وہ بہت تیز نکلا ونڈو سے پاٸپ کے ذریعے نیچے اتر گیا

صفدر نے کھڑکی کھلی دیکھ کے کہا

خیر ہمارے سے کب تک بھاگے گا؟؟

تم ٹھیک تو ہو؟؟ اس نے مادخ سے پوچھا

جو اپنا سر پکڑ کے بیٹھا تھا

اور یہ کون ہے؟؟ چادر میں لپٹی لڑکی کی طرف اشارہ کیا


یہ ؟ وہ سوچ میں پڑگیا کے کیا کہے۔۔۔ یہ ۔۔ بس ہے کوٸی غلطی سے یہاں تک پہنچ گٸی

یار تھوڑی مدد کردے میری۔۔۔مجھے اس کو یہاں سے لے کے جانا ہے بغیر کسی کی نظروں میں آۓ


ہہہمم ایسا کرو تم یہی رکو۔۔۔ میں نیچے جاکے راستہ کلیٸر کروا کے تمہیں میسج کرتا ہو تم ان محترمہ کو لے جانا

ویسے تیرا پرانا نمبر تو آف ہے


ہاں وہ نمبر چینج کیا ہے مادخ نے اس اپنا نمبر دے دیا

صفدر کے جانے کے بعد وہی بیٹھ گیا


جیسے ہی صفدر کا میسج آیا اس نے میرال کے چادر میں لپٹے بیہوش وجود کو اٹھایا اور باہر نکل گیا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


ضحک کو برباد کرکے شہباز سورہا تھا

وہ بیٹھی اپنی بربادی کا ماتم کررہی تھی

آدھی رات ہورہی تھی اور وہ بےآبرو ہوکے یہاں بیٹھی تھی

وہ کیا کرے اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی

اتنے میں دروازہ کھلا سکندر اور کمال اندر آۓ

ان کو دیکھ کے ضحک اور سمٹ گٸ

مم مجھے اپنے گگ گھر جانا ہے اس نے روتے ہوۓ کہا


چلی جانا اتنی بھی کیا جلدی کمال کے اس کو اپنی طرف کھینچتے ہوۓ کہا


چھوڑوں مجھے جانے دو وہ اور زور سے رونے لگی


انہوں کے اسے منہ پہ اسی ڈوپٹہ باندھ دیا

اب وہ دونوں ہی اپنی حیوانیت دیکھا رہے تھے


پوری رات وہ لٹتی رہی روتی رہی لیکن اس کی سسکیاں سننے والا کوٸی نہیں تھا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


میرال کو مادخ اپنے گھر لے گیا تھا

اس کو پتا تھا ثمامہ اپنے ڈیڈ کے گھر تھی

اس کے ماں باپ سورہے تھے

اس کے پاس دوسری چابی تھی

روم میں لاکے اس نے میرال کو بیڈ پہ لٹا دیا

اب کیا کروں اس کا؟؟وہ سوچنے لگا

پھر ثمامہ کے کپڑوں میں سے ایک سوٹ نکال کے لایا لاٸٹ بند کرکے اس کو پہنایا پھر لاٸٹ آن کی

اب یہ ہوش میں کیسے آۓ گی؟؟؟ پھر خود سے سوال کیا

ہہہممم ہاں اپنے دوست کو کال کی وہ ڈاکٹر تھا

یار شعبی کہا ہے؟؟

ہاں تو گھر آجا۔۔۔ اپنا سامان بھی لے آ۔۔۔ وہ میری کزن بیہوش ہوگٸ ہے اس کو دیکھنا ہے۔۔۔ اوکے میں باہر گیٹ پہ ہی ہو۔۔۔

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


ڈاکٹر شعیب نے میرال کو چیک اب کر لیا۔۔ اب اس کا رخ مادخ کی طرف تھا

ہہمم یہ بتا یہ کون ہے؟؟ اس نے جانچتی نظروں سے دیکھا


بتایا تو ہے کزن ہے؟؟ مادخ نے یہاں وہاں دیکھ کے کہا


اچھا بیٹا ۔۔۔ یہ سچ میں تیری کزن ہے؟؟


ہا ہاں تو کک کیا میں جھوٹ بول رہا ہو؟؟


جہاں تک مجھے یاد ہے تو نے بتایا تھا تیرے ممی پاپا اپنے کسی رشتےدار سے نہیں ملتے ۔۔۔ یہ کزن اچانک کیسے  پیدا ہوگٸ؟؟

وہ بھی تیرے گھر میں تیرے روم میں وہ بھی اس حالت میں؟؟؟

ڈاکٹر شعیب نے انگلی گھوما کے کہا


چیک اپ ہوگیا نا؟؟ چل اب جا بھابھی ویٹ کررہی ہوگی مادخ نے اس کو باہر کی طرف بھیجا


جا رہا ہو ایک بات بتا دوں۔۔ یہ اچانک پیدا ہونے والی کزن نے الک*حل پی ہوٸی باقی رپورٹ آنے کے بعد پتا چلے گا


الک*حل؟؟؟ مادخ نے حیرت سے کہا


جی ہاں وہ بھی بڑی تگڑی والی یا پھر شاید اس میں مزید اور کچھ نشہ آور چیز ملاٸی گی تھی

اوکے باۓ،۔۔۔ اچانک بننے والی کزن کو کہنا ایسی چیزوں سے پرہیز رکھیں کہتا ہوا وہ چلا گیا

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


اتنی رات ہوگٸ گڑیا نہیں آٸی سلیمہ بےچینی سے صحن کے چکر لکا رہی تھی

اتنے میں دروازہ بجا

وہ بھاگ کے دروازے پہ گٸ میری گڑیا آگٸ

جیسے ہی دروازہ کھولا

عالی میری بچی وہ روتی ہوٸی اپنی بیٹی علیھہ کے چمٹ گٸ

اتنے سالوں بعد اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھی کبھی اس کا ماتھا چومتی کبھی ہاتھ میری بچی وہ مسلسل رو رہی تھی


علیھہ کا بھی یہی حال تھا یا شاید اس سے برا حال تھا جو وہ جھیل کے آٸی تھی

اماں عرزم کہا ہے؟؟ اور گڑیا؟؟ اس نے یہاں وہاں دیکھ کے پوچھا


عرزم تو دوسرے شہر گیا ہے اور گڑیا کالج کے کسی پوگرام (پروگرام) میں گٸ تھی ابھی تک آٸی ہی نہیں

اتنی رات ہوگٸ ہے اور تو بھی اکیلی اتنی رات کو آرہی ہے؟؟


اماں تو گڑیا کی کسی کالج کی دوست سے پتا کرلے اس نے اپنی طرف سے دھیان ہٹایا


مجھے اس کی کسی دوست کا نہیں پتا۔۔ ہاں محلے کی ایک لڑکیاں ہیں جو اسی کالج میں جاتی ہے وہ گڑیا سے آگے ک جماعت میں میں ان کے گھر پتا کرکے آتی ہو

سلیمہ محلے میں چلی گٸ


اماں پہلے ہی گڑیا کی وجہ سے پریشان ہے ۔۔۔ اب میں کیا کروں؟؟ علیھہ گم سم ہو کے پیٹھ گٸ


تھوڑی دیر میں سلیمہ روتی ہوٸی آٸی عاااالی عالی وہ کہہ رہی ہے کے آج کالج میں کوٸی پوگرام نہیں ہے

عالی میری گڑیا کہا ہے؟؟؟ میری گڑیا؟؟

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏


صبح ہوچکی تھی کچھ لوگوں کے لیے نیا سال خوشیاں لایا تھا

اور کچھ کےلیے غم


شہباز کی آنکھ کھلی اس نے دیکھا کمرے کے درميان میں ضحک کا برہنہ وجود پڑا ہے

وہ اٹھ کے بھاگا۔۔۔ ضض ضحک ضحک ۔۔۔ اٹھو آنکهيں کھولو لیکن وہ ایسے ہی پڑی تھی

ڈول اٹھو نا۔۔۔ تم اٹھ کیو نہیں رہی اٹھو بھی

دیکھو نا میری طرف۔۔۔ مم میں اپنی ڈول سے بب بہت پیار کرتا ہوں

ہم ہم شادی کرلیتے ہیں

آٶ اٹھو کھڑی ہو۔۔۔۔ سن رہی ہو میں کیا کہہ رہا ہو؟؟؟

تم سن رہی ہو نا؟؟ اٹھتی کیوں نہیں ؟؟ وہ ضحک کے وجود کو کندھوں سے پکڑ کے جھنجھوڑ رہا تھا

اٹھو بھی۔۔۔۔ ڈول ڈولللللل وہ چیخ رہا تھا


شہباز کی آوازیں سن کے سکندر اور کمال بھی آگٸے

کیا ہوا ہے تو چیخ کیورہا ہے؟؟ کمال نے کہا


دیکھو نا یہ اٹھ نہیں رہی۔۔۔ اس نے روتے ہوۓ کہا


کمال نے آکے ضحک کو دیکھا۔۔ یار یہ تو مر گٸ وہ خود پریشان ہوگیا


کیا بکواس کررہا ہے صبح صبح سکندر نے کہا وہ بھی آیا اور چیک کیا

ضحک کا وجود لٹھے کی مانند سفید پڑا ہوا تھا ٹھنڈا ہو رہا تھا

اس کی سانسیں بھی نہیں چل رہی تھی

یار یہ تو سچ میں مر گٸ اس نے اپنے بال کھینچے

اب ہم کیا کریں گے۔۔۔۔ یہ ان کے ساتھ پہلی بار ہوا تھا

ورنہ وہ لڑکی کو ہوس کا شکار بنا کے آگے بیچ دیتے تھے


ضحک شہباز نے اس کو گلے سے لگایا ہوا تھا وہ مسلسل رو رہا تھا


سکندر اور کمال نے شہباز کو اس سے دور کیا اور ضحک کو اسی کے ڈوپٹے میں لپیٹ دیا

فلیٹ سے باہر لے گٸے

کمال صبح صبح کا ٹائم ہے ابھی دن نہیں چڑھا اس کو کہی پھینک دیتے ہیں ورنہ ہم مارے جاٸیں گے

انہوں نے ضحک کی لاش کو لے جاکے کچرا کنڈی میں ڈال دیا


محبت برباد ہوٸی تھی

ضحک کی محبت کی شکست ہوٸی تھی

دھوکےبازوں کی جیت ہوگٸ تھی

آج ان کی ہوس جیت گٸ

✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏✏

جاری ہے

Read More