Yara Teri Yari Novel Episode 5 Part 1 by Aleena Meer | Farhan Speak - Farhan Speak

Friday, June 28, 2024

Yara Teri Yari Novel Episode 5 Part 1 by Aleena Meer | Farhan Speak

 یارا_تیری_یاری❤️


#_ازقلم_الینامیر


قسط نمبر:5 (پارٹ 1)

❤️❤️❤️❤️۔


نکاح کا انتظام روحیل وقاص کے گھر تھا لان میں ایک طرف نکاح کے لیے دولہا دلہن کو بٹھانے کا انتظام کیا گیا تھا اور سامنے کچھ کرسیاں لگا کر مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام تھا مہمان بھی کیا بس رمضیہ کے سب دوست اور ان کے گھر والے ہی تھے باقی رشتہ داروں کو مہندی بارات اور ولیمہ میں آنے کی دعوت بھیجی تھی۔

صائب اور ارتضیٰ سارے انتظامات مکمل کر کے اب رومان کی طرف چلے گئے تھے کہ رومان کے ولیمے تک اذہان سہراب فہیم ارتضیٰ اور صائب سب رومان کی طرف ٹھہرنے والے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم لوگ تیار نہیں ہوئے ابھی تک ارتضیٰ اور صائب رومان کے گھر پہنچ کر سیدھا ڈرائنگ روم میں آئے تھے جہاں وہ سب ٹھہرے ہوئے تھے کہ سب تیار ہو چکے ہوں گے مگر وہاں سب کو ویسے ہی بیٹھے دیکھ کر ارتضیٰ حیرت سے بولا اور رومان کو دیکھ کر بیہوش ہوتے ہوتے بچا جو ان سب کے بیچ دبا پڑا تھا۔

یہ دیکھ ہم اسے کہ رہے ہیں کہ یہ براؤن کلر کا کرتا پاجامہ پہن لے مگر یہ ضد کر رہا ہے کہ ہمارے ساتھ وائٹ ہی پہنے گا اذہان کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔

صائب آگے آ کر بولا تو اس میں کیا مسئلہ ہے پہن لے ۔

تو سمجھ نہیں رہا یار دولہے کو سب سے الگ لگنا چاہیے نا سہراب بھی کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔

فہیم رومان کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے بولا بھائی دیکھ جو اذہان کہ رہا ہے چپ چاپ مان لے اس کی بات ورنہ آج تیرا نکاح نہیں ہونے والا یہ بات طے ہے۔

کالی زبان والے تیرے منہ میں خاک سوچ سمجھ کے بولا کر رومان تڑپ کر فہیم کو دھکا دیتے بولا۔

اوووہ کتنی بیتابی ہے نکاح کی میں صدقے جاواں اذہان رومان کا ماتھا چومتے بولا اور ان سب کے قہقے بلند ہوئے۔

ڈرامے ختم کرو اور تیار ہو جاؤ آدھا گھنٹا ہے تم لوگوں کے پاس ورنہ میں ایسے ہی لے جاؤں گا تم سب کو اور تم لوگ جانتے میں ایسا کر سکتا ہوں صائب انگلی اٹھا کر سب کو وارن کرتا کمرے سے نکل گیا اور وہ سب اپنے اپنے کپڑے اٹھاتے بھاگم بھاگ تیار ہونے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام ہو گئی تھی اور وہ سب لڑکیاں افق کے کمرے میں جمع تھیں نکاح پر افق نے بیوٹیشن سے تیار ہونے سے منع کر دیا تھا اس لیے رمضیہ اور فائقہ افق کو تیار کر رہیں تھیں صنوبر ارباب اور رانیہ تو کب کی تیار ہو چکیں تھیں وہ سب بھی افق اور رومان کے ولیمے تک کے لیے رمضیہ والوں کی طرف رک گئیں تھیں جس پر کسی کو اعتراض نا تھا ان کے پیرینٹس بھی آچکے تھے اور نیچے روحیل صاحب کے ساتھ لان میں بیٹھے تھے۔

یار تم لوگ جلدی کرو اور ریڈی ہو جاؤ ورنہ لڑکوں نے آتے ساتھ شور مچا دینا ہے پھر کچھ نہیں کر پاؤ گی صنوبر اپنا دوپٹہ سیٹ کرتی ہوئی فکرمندی سے بولی۔

ہاں بس یہ آپی کا دوپٹہ سیٹ کر دوں پھر ہم لوگ بھی ہو جاتی ہیں تیار ٹائم نہیں لگے گا رمضیہ تسلی دیتی بولی وہ جیسے ہی افق کا دوپٹہ سیٹ کر کے پیچھے ہٹی سب کی نظریں افق کے چہرے سے پلٹنے سے انکاری ہو گئیں۔

وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی بادامی رنگ کی پاؤں کو چھوتی لمبی فراک جس پر ہلکا سا موتیوں کا کام ہوا تھا ساتھ گولڈن دوپٹہ سر پر ٹکائے وہ کوئی حور لگ رہی تھی ہلکے سے میکپ نے اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے تھے بے ساختہ ان سب کے منہ سے ماشاءاللّٰہ نکلا رانیہ نے تو آگے بڑھ کر ماتھا چوم کر بلائیں کے ڈالیں۔

آپی آج تو رومان جیجو نے بے ہوش ہی ہو جانا ہے صنوبر ہنستے ہوئے بولی۔

افق جو پہلے ہی گھبرائی سی کھڑی تھی اس کی آنکھیں پھیل گئیں بوکھلاتے ہوئے پوچھا کیوں میں اتنی ڈراؤنی لگ رہی ہوں کیا جہاں صنوبر سٹپٹائی وہیں باقی سب کی ہنسی نکلی۔

نہیں آپی جان آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں فائقہ افق کو گلے لگاتے ہوئے بولی۔

اوکے اب تم لوگ جلدی سے تیار ہو جاؤ پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے افق نے جلدی سے اُنہیں تیار ہونے بھیجا رمضیہ اور فائقہ ہاں میں سر ہلاتی ڈریسنگ مرر کے سامنے تیار ہونے لگیں کپڑے وہ پہلے ہی چینج کر چکیں تھیں۔

رمضیہ فائقہ کا حجاب سیٹ کر رہی تھی کہ نیچے سے شور کی آواز آئی۔

لگتا ہے دولہے میاں آگئے ہیں میں باہر دیکھ کر آتی ہوں ارباب اٹھ کر کمرے باہر بھاگی میں بھی آتی ہوں رانیہ بھی اس کے پیچھے ہی باہر بھاگی رمضیہ سر جھٹک کر فائقہ کا حجاب سیٹ کرتے بولی تم آیت اور عمائزہ کو بھی کال کر کے پوچھو کہاں رہ گئیں ہیں وہ دونوں آنا بھی ہے کہ نہیں انہوں نے۔

اسلام و علیکم وہ سب بلند آواز سے سلام کرتے لان میں آئے۔

اور ان سب کے پیرینٹس و علیکم السلام کہتے ان کی طرف بڑھے۔

سب ملنے ملانے کے بعد لان میں رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے اور اذہان یہاں وہاں دیکھ رہا تھا جیسے کسی کو تلاش کر رہا ہو۔

کیا ہوا شہزادے کچھ گم ہو گیا ہے کیا میں مدد کروں ڈھونڈنے میں فہیم اس کی طرف دیکھتے بولا۔

آآآآں نہیں کچھ نہیں گم ہوا وہ میں بس دیکھ رہا تھا رضیہ سلطانہ نظر نہیں آ رہی پتہ نہیں کہاں ہے اذہان گڑبڑا کر بولا 

ارتضیٰ جو ان کی باتیں سن رہا تھا اذہان کی گردن دبوچ کر بولا الو آج کے دن باز آجا اگر کسی نے ان لیا تو تیری عزت کا کچرا ہو جائے گا اور ہم میں سے کوئی بھی بچانے نہیں آئے گا تجھے اذہان نے فہیم کی طرف دیکھا وہ بھی نظریں پھیر گیا اس نے گردن موڑ کر بائیں طرف بیٹھے سہراب اور صائب کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا مگر ان کے بھی منہ موڑنے سے دکھی لہجے سے بولا دیکھ کی تم لوگوں کی محبت بھی آج میں نے تم سب بے وفا ہو اور گھر کے اندر جانے کے لیے اٹھ کر چل دیا اور وہ سب پیچھے ہنستے ہوئے اور چڑا رہے تھے اسے۔

اذہان کمرے کا دروازہ بجانے ہی لگا تھا کہ فہیم نے اذہان کو پیچھے کھینچا۔

اذہان گرتے گرتے بچا اور فہیم کو گھور کے بولا کیا تکلیف ہے۔

تکلیف مجھے نہیں رومان کو ہو رہی ہے تو لڑکے والوں کی طرف سے ہے کمینے بھول گیا اور اذہان کھسیانی ہنسی ہنس دیا اور فہیم کے ساتھ واپس نیچے آگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رمضیہ سینڈل پہن رہی تھی کہ صائب کی امی آگئیں بلانے کہ نیچے مولوی صاحب آگئے ہیں نکاح کے لیے افق کو نیچے لے آئیں اور رمضیہ کو جوتے کا ڈبہ پکڑا کر بولیں یہ پہن لو اور جلدی سے نیچے آؤ اور خود نیچے چلیں گئیں رمضیہ جو پوچھنا چاہتی تھی یہ کس لیے اس نے تو نہیں منگوائے تھے پھر بعد میں پوچھنے کا سوچ کر جلدی سے کھسہ پہن کر افق کو لیے کمرے سے نکلی صنوبر فائقہ رانیہ اور ارباب بھی ساتھ تھیں۔

جیسے ہی ان سب نے لان میں قدم رکھا لڑکے جو آپس میں گپیں مار رہے تھے سب سے پہلے سہراب کی نظریں سامنے ان کی طرف اٹھیں اور پلٹنا بھول گئیں اس کی نظر کے تعاقب میں سب نے گردنیں گھما کر پیچھے دیکھا تو حیرت کی زیادتی سے سب کے منہ کھل گئے اور وہ سب شاک کی کیفیت میں اٹھ کھڑے ہوئے شاک لگنے کی وجہ رمضیہ صنوبر اور فائقہ کا ایک جیسا لباس ایک جیسا حجاب تھا ان تینوں نے وائٹ کلر کی پاؤوں کو چھوتی لمبی فراک جس پر ہلکا سا گولڈن کام ہوا تھا ساتھ چوڑی دار پاجامہ اور ریڈ کلر کا دوپٹہ دائیں کندھے پر ڈالے اور گولڈن سٹالر سے حجاب کیے وہ لڑکیاں شہزادیاں لگ رہیں تھیں۔

قریب پہنچنے پر انہوں نے لڑکوں کی طرف دیکھا اور ٹھٹھک کر رک گئیں یہ ٹھٹھکنا لڑکوں نے بھی محسوس کیا اور مسکراہٹ ضبط کرنے لگے وہ جان گئے تھے کہ اتفاق سے ان کے کپڑوں کا رنگ سیم ہو گیا تھا اور لڑکیاں اسی لیے ٹھٹھک گئیں جیسے وہ لوگ شاکڈ ہو گئے تھے پھر سر جھٹک کر فائقہ اور رمضیہ افق کو لے کر آگے بڑھیں اور لا کر سنگل صوفے پر بٹھا دیا اور خود اس کے پیچھے کھڑی ہو گئیں لڑکے بھی رومان کو دوسرے سنگل صوفے پر بٹھا کر پیچھے کھڑے ہو گئے۔

نکاح شروع ہونے میں تھوڑا ٹائم تھا کہ اذہان جو بار بار گیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا کہ شاید عمائزہ آجائے مگر ہر بار اس کی نظریں بند گیٹ کو دیکھ کر پلٹ آتیں تھیں دسویں بار جب اس نے گیٹ کی طرف نظر اٹھائی تو عمائزہ اور آیت گیٹ سے اندر آتیں نظر آئیں فوراً ان کی طرف بھاگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام و علیکم کہاں رہ گئیں تھیں تم پتہ ہے کب سے ویٹ کر رہا ہوں عمائزہ جو آیت کا ہاتھ پکڑے باتیں کرتی اندر آ رہی تھی اذہان کے اچانک سامنے آنے پر اس کے سینے سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔

یہ کیا بے ہودگی ہے عمائزہ غرا کر بولی جبکہ آیت اس کا ہاتھ دبا کر خاموش ہونے کا کہ رہی تھی۔

بے ہودگی نہیں سلام کیا ہے اور پوچھا ہے کہ اتنی دیر کہاں لگا دی اذہان دانت دیکھاتے بولا۔

تم میرے بھائی نہیں ہو جو تمہیں جواب دوں میں عمائزہ تلخی سے بولی۔

لا حول ولا قوہ پتہ نہیں ایک تو تم لڑکیوں کو بھائی بنانے کا اتنا شوق کیوں ہوتا ہے اذہان چڑ کر بولا اس کا انداز دیکھ کر عمائزہ کے چہرے پر مسکراہٹ آئی جو اس نے منہ دوسری طرف کر کے چھپائی جو اذہان نے دیکھ لی اور دل میں بولا اگر یہ مسکراتی رہے تو کتنی اچھی لگے مگر یہ تو ہر وقت مرچیں چبائے رکھتی ہے عمائزہ اذہان کو دیکھ کر بولی ہٹو راستے سے اب اور اذہان کو دھکا دیتی آیت کا ہاتھ پکڑتی رمضیہ والوں کی طرف بڑھ گئی۔

اس کے جانے کے بعد اذہان نے غور کیا اور چونک گیا کہ عمائزہ اور آیت کے ڈریسز بھی تقریباً رمضیہ والوں جیسے ہی تھے اور اذہان نے پہلی بار اسے مشرقی لباس میں دیکھا تھا اور دیکھتا رہ گیا پہلے تو جلدی میں غور نہیں کیا مگر اب وہ بہت فرصت سے عمائزہ کو دیکھ رہا تھا اور دل میں اعتراف کرنے لگا اذہان تو بڑی بڑی باتوں کو چٹکیوں میں اڑا دیتا تھا اور آج دو دن پہلے ملی لڑکی کے سامنے اپنا دل ہار گیا پھر گردن جھکا کر ہنس دیا اور ارتضیٰ والوں کی طرف آ گیا۔

مولوی صاحب نکاح شروع کرنے ہی لگے تھے کہ اذہان کی زبان پر کھجلی ہوئی اور عمائزہ کو دیکھ کر مولوی صاحب سے بولا۔

مولوی صاحب ایک نکاح میں دوسرا نکاح ہو سکتا ہے کیا عمائزہ نے غصے سے دانت پیسے جیسے دانتوں کے درمیان اذہان کی گردن ہو اور مولوی بیچارہ بات سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ وہ بول کیا رہا ہے کہ اتنے میں فہیم بولا مولوی صاحب یہ پوچھ رہا ہے کہ جب ایک لڑکا لڑکی کا نکاح ہو رہا ہو تو وہاں ہی ایک اور لڑکا لڑکی کا نکاح ہو سکتا ہے اسی کھانے اور پیسوں میں کہ نہیں آخر کے الفاظ فہیم نے خود سے جوڑے تھے وہ سب اذہان کی بات پر ہنس دیے اور اذہان کے پاپا نے مولوی صاحب کو نکاح پڑھانے کا بولا۔

ایجاب و قبول کے بعد اذہان چیخا یا ہوووو اور رومان کی طرف لپکا آخر تجھے شہادت نصیب ہو ہی گئی بہت خوش قسمت ہے تو اور رومان کے گلے لگ کر مبارکباد دینے لگا۔

 لڑکیاں جو افق کے ساتھ لگ کر افق کو چپ کرا رہیں تھیں وہ بھی ہنس دیں اور لڑکے سب رومان کے گلے لگ کر مبارکباد دینے لگے اور پھر سب بڑوں سے گلے ملنے لگے۔

کھانے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد سب بڑے آپس میں باتیں کر رہے تھے جب کے ینگ جنریشن الگ بیٹھی گپیں لگا رہی تھی۔

رمضیہ اور عمائزہ افق کے دائیں بائیں بیٹھیں تھی جب رونق پاس آتی بولی چلو لڑکیاں سائڈ پر ہو جاؤ مجھے دلہن کے پاس بیٹھنے دو جس پر رمضیہ اور عمائزہ ہنستے ہوئے اٹھ گئیں رمضیہ تو آیت کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی جبکہ عمائزہ اٹھ کر تھوڑا سائڈ پر آئی کہ واسع کو کال کرنے لگی کہ وہ لینے آجائے وہ کال کر کے پلٹی ہی تھی کہ اپنے پیچھے اذہان کو دیکھتے دو قدم پیچھے ہوئی۔

یہ کیا طریقہ ہے تمہیں سکون نہیں ہے کیا ہر جگہ ٹپک پڑتے ہو عمائزہ طنزیہ انداز گھور کے دیکھنے لگی۔

میں تو ایسے ہی ہر جگہ ٹپک پڑتا ہوں کیا کروں عادت ہے اذہان اس کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے بولا۔

تم انتہائی کوئی لوفر انسان ہو یہاں وہاں اپنی ٹھرک جھاڑنے بہت جلدی پہنچ جاتے ہو اور وہاں رومان کو حق ہونے کے باوجود افق آپی سے ملنا تو دور انہیں دیکھنے بھی نہیں دیا عمائزہ مزاق اڑاتے ہوئے بولی۔

کیا کہا میں ٹھرک جھاڑتا ہوں ہر جگہ میں لوفر ہوں آپ نے ابھی میری ٹھرک اور لوفر پن دیکھا کہا ہے  عمائزہ جی اور رومان کیا ہوتا ہے رومان بھائی بولو بڑا ہے تم سے پہلا جملا معنی خیزی سے بولتے آخری بات سخت لہجے میں کی عمائزہ جو اذہان کے پہلے جملے پر سٹپٹا گئی تھی آخری بات پر دل جلاتی مسکراہٹ دکھاتی آنکھیں پٹپٹا کر بولی بڑے تو تم بھی ہو مجھ سے تو کیا تمہیں بھی بھائی بولوں۔

استغفرُاللّٰہ یہ تم مجھے بھائی بنانے کو کیوں مری جا رہی ہو اور بھی تو رشتے ہیں جیسے کہ ہبی بنا لو کیا خیال ہے اذہان جو اس کی دل جلاتی مسکراہٹ دیکھ کر چونکا تھا وہیں اس کی بات سن کر اچھل کر پیچھے ہوتے ہوئے بولا۔

ٹھرکی انسان اس سے پہلے کہ میں تمہارا سر پھاڑ دوں دور ہو جاؤ میرے سامنے  سے عمائزہ دانت پر دانت جما کر بولی۔

اذہان کچھ کہتا کہ صائب کے بلانے پر عمائزہ کی طرف دیکھتے آنکھ ونک کرتا ان سب کی طرف چلا گیا جبکہ عمائزہ دل میں اذہان کی شان میں قصیدے پڑھتی رمضیہ والوں کی طرف بڑھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یار اب بس کر دو نا تم لوگ پلیز مبارک باد تو دینے دو مجھے اپنی بیوی کو رومان کا بس نہیں چل رہا تھا کیا کر ڈالے۔

صبر میرے بھائی صبر اتنی بھی کیا جلدی ہے پرسوں بارات لے کر آئے گا نا تب تجھے فل اجازت ہے بھابھی کے ساتھ بیٹھ کر ڈھیر ساری مبارک دے دینا پر ابھی نہیں ارتضیٰ رومان کے کندھے پر ہاتھ مارتے بولا جب کہ اس کی بات سنتے وہاں سب کی ہنسی چھوٹی تھی افق بھی مسکرا دی جب اگلے ہی پل رومان کی بات سنتے اس کی مسکراہٹ پل میں سمٹی۔

کیااااااا پرسوں یہ کیا زبردستی ہے دیکھو تم لوگ بہت غلط کر رہے ہو اگر کل مہندی میں مجھے افق کے ساتھ نا بیٹھنے دیا یا بات نا کرنے دی تو میں نہیں آنے والا کل مہندی میں تم لوگ آ جانا رومان غصے سے کہتا اٹھ کر گیٹ کی جانب بڑھا کہ پیچھے سے آتی اذہان کی آواز پر اس کے قدم تھمے۔

ہاں ہاں نا آنا اور کل کیا باقی دن بھی نا آنا ہم خود ہی بھابھی کو رخصت کروا کر لے آئیں گے عمائزہ کا دل کیا اس کی قینچی کی طرح چلتی زبان کاٹ دے جو شوہر اور بیوی کے درمیان ظالم سماج بننے کی ٹھان چکا تھا۔

اپنی یہ خواہش بھی شوق سے پوری کر لو کہ کر رومان سرخ آنکھوں سے کہتا لمبے لمبے ڈنگ بھرتا گھر سے باہر نکل گیا وہ سب جھٹکے سے کھڑے ہوئے اتنا شدید رد عمل تو نہیں سوچا تھا ان لوگوں نے اس سے پہلے کہ صائب اور اذہان اس کے پیچھے جاتے صائب کے بابا نے سب کو گھر چلنے کا کہا کہ کل مہندی کا فنکشن تھا اور سب انتظام ان لڑکوں نے ہی دیکھنے تھے صائب سر ہلاتا سب کو اشارہ کرنے لگا رمضیہ افق کو اندر روم میں چھوڑ کر باہر آئی تو دیکھا ان سب کے پیرینٹس نکل چکے تھے فائقہ صنوبر رانیہ اور ارباب تو یہں رکنے والیں تھیں آیت اور عمائزہ کو واسع لینے آ چکا تھا وہ دونوں ان سب سے مل کر گیٹ کی طرف بڑھیں جب پاس سے گزرتے اذہان نے عمائزہ کی طرف جھکتے سرگوشی کی کوشش کرنا کہ اپنے اس کزن سے دور رہو ایک آنکھ نہیں بھاتا مجھے تمہارا وہ چپکو کزن عمائزہ خونخوار نظروں سے دیکھتی آگے بڑھ گئی اور باہر نکلتے ہی جلدی سے آیت کو بیٹھنے کا کہ کر خود بھی دوسری طرف سے آ کر گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔

سب کے جانے کے بعد رمضیہ اندر بابا کے روم کی طرف آئی دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ سونے کے لیے لیٹ چکے تھے مسکراتے ہوئے سر جھٹک کر اپنے روم میں آئی جہاں وہ سب آج رات نا سونے کا پلین بنانے افق کے ساتھ وقت گزار کر ان لمحوں کو یاد گار بنانا چاہتی تھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جبکہ دوسری طرف وہ سب رومان کے روم میں اسے راضی کرنے کے چکر میں بے حال ہو چکے تھے اور شاید رومان کو ان پر ترس آہی گیا جو اس شرط پر مان گیا کہ باقی فنکشنز میں وہ افق کے ساتھ جڑ کر بیٹھے گا اور باتیں بھی کرے گا سب اس کے مان جانے پر خوش ہوتے اس سے لپٹ گئے ارتضیٰ جو ان سے دور بیٹھا تھا وہ بھی چھلانگ لگاتے ان کی طرف بیڈ پر کودا کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز پر وہ سب بوکھلا کر الگ ہوئے مگر اٹھنے کے چکر میں دوبارہ اندر دھنس گئے۔

ابے گھامڑ چھلانگ لگانے کی کیا ضرورت تھی منحوس اپنا وزن دیکھ کھا کھا کر پھیل رہا ہے اور توڑنے کے لیے میرا ہی بیڈ ملا تھا تجھے رومان ارتضیٰ کو دور کرتا چیخا کہ ہنسنے کی آواز پر وہ سب دروازے کی طرف دیکھنے لگے جہاں صائب منہ پر ہاتھ رکھے ہنستا جا رہا تھا وہ زور دار آواز سن کر کمرے میں آیا تھا لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی ہنسی  چھوٹ گئی جو باوجود کوشش کے بھی کنٹرول نہیں ہو رہی تھی وہ ہنستا ہوا اتنا کیوٹ لگ رہا تھا کہ وہ سب بے ساختہ ماشاءاللّٰہ کہنے لگے۔

صائب اپنی ہنسی روکتے ان سب کو ایک ایک کر کے ٹوٹے بیڈ سے باہر نکالنے لگا اور بولا جب بھینسے جیسے جسم لے کر اس بیڈ پر کودو گے تو اس نے ٹوٹنا ہی ہے نا پھر سر جھٹک کر بولا میں تو جا رہا ہوں سونے اور تم لوگ بھی سو جاؤ اس سے پہلے کہ کوئی اور نقصان کرو صائب کے کہنے پر سب اپنے اپنے تکیے اٹھائے ڈرائنگ روم کی طرف بھاگے جہاں ان سب نے سونا تھا رومان جو سکتے میں کھڑا تھا ہڑبڑا کر سیدھا ہوا اور خود بھی ڈرائنگ روم کی طرف بھاگا کہ اپنے روم کی حالت ایسی نا تھی کہ وہ سو سکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کافی دیر جاگنے کے بعد صبح کہیں فجر پڑھ کر وہ سوئیں تھیں سوائے رمضیہ کے وہ اٹھ کر نیچے آگئی روحیل صاحب فجر کے بعد سوتے نہیں تھے چاہے رات کو جتنی مرضی دیر سے سوئیں رمضیہ لان میں آئی تو دیکھا اس کے بابا کسی سوچ میں گم بیٹھیں ہیں فوراً آگے بڑھی۔

بابا کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھیں ہیں طبیعت ٹھیک ہے نا آپ کی کچھ چاہیے آپ کو اس نے بوکھلا کر ان گنت سوال کر ڈالے۔

روحیل صاحب رمضیہ کی آواز پر چونکے اور رمضیہ کا ہاتھ پکڑ کر بولے نہیں میری لاڈو میں بلکل ٹھیک ہوں بس تھوڑا اداس ہوں کہ میری نازوں پلی بیٹی کل رخصت ہو جائے گی تم دونوں میں جان بستی ہے میری تم دونوں کے بغیر میں کچھ نہیں ہوں میرے بچے۔

بابا ایسے تو نہیں کریں اور آپی چلیں جائیں گی تو کیا ہوا میں ہوں نا آپ کے پاس تو آپ کو بلکل اداس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اب جلدی سے ہیپی ہو جائیں میں چائے بنا کر لاتی ہوں اکھٹے بیٹھ کر پیتے ہیں رمضیہ کہ کر فوراً اندر بھاگی روحیل صاحب نے آنکھوں کی نمی صاف کی اور مسکرا دیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اٹھ جاؤ ذلیلوں دلہا میں ہوں اور مزے سے تم لوگ سوئے پڑے ہو ساری رات جگہ کی تنگی کی وجہ سے رومان ان سب کے بیچ پھنسا سونے کی کوشش کرتا رہا مگر مجال ہے جو ان لوگوں نے اسے سونے دیا ہو تھک کر رومان خود ہی اٹھ گیا تھا رومان کے ننھیالی اور ددھیالی رشتے دار پہنچ چکے تھے اور دوسرے کمروں میں تھے اس لیے وہ سب ڈرائنگ روم میں جہاں جگہ ملی وہیں لڑھک گئے تھے رومان کی آواز پر صائب اٹھ کر بیٹھ گیا تھا سہراب کروٹ بدل کر لیٹا اور ایک ٹانگ اٹھا کر فہیم کے پیٹ پر رکھی دفع دور کمینے ایک یہ موت کا فرشتہ بن کر ہمارے سر پر کھڑا رومان کم ہے جو تو اب اپنا تکیہ سمجھ کر ٹانگیں رکھ رہا ہے فہیم آنکھیں بمشکل کھولتے سہراب کی ٹانگ دور ہٹائی رومان کی طرف اشارہ کرتے سہراب کو دور کرتے بولا۔

اب زیادہ ڈرامے نہیں کرو اور اٹھ جاؤ سونے تو ہونا نہیں اب ارتضیٰ بھی ان کی آوازیں سنتا اٹھ گیا تھا۔

رومان شکر کرتے اٹھا اور بولا آجاو باہر فریش ہو کر میں ناشتے کا کہتا ہوں اور باہر نکل گیا۔

پہلا دولہا دیکھا ہے جو اتنا بے صبرا ہو رہا ہے فہیم  بولا۔

تیری باری آئے گی تب پوچھوں گا بیٹا ارتضیٰ منہ پر ہاتھ رکھ بولا۔

پہلی بات مجھے شادی کرنی ہی نہیں اور اگر بائے چانس ایسا ہو بھی جاتا ہے تو اتنا اتاؤلا نہیں ہونے والا میں فہیم ناک چڑہا کر بولا۔

ہاں ہاں دیکھی جائے گی اس لاش کو تو اٹھاؤ اس کے آگے ڈھول بھی پیٹ ڈالو تو نہیں اٹھے گا منحوس سہراب اذہان کو دیکھ کر بولا ارتضیٰ نے رکھ کر چماٹ اذہان کی گدی پر مارا کہ وہ الٹا سو رہا تھا ایک دم۔چیخ کر اٹھ بیٹھا ابھی وہ کچھ کہتا کہ صائب اٹھا اور ان سب کو اشارہ کر کے بولا پانچ منٹ ہیں صرف پانچ منٹ میں فریش ہو کر آجاؤ ورنہ ناشتہ نہیں ملے گا ان سب کی صدمے سے آواز ہی نا نکلی اور چپ چاپ اٹھ کر فریش ہونے چل دیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام میں وہ سب تیار ہو کر ایک ساتھ نکلے تھے رومان کی کزنز تو ان سب کو دیکھ کر حیران رہ گئیں شہزادوں جیسی آن بان لیے ان سب کو دیکھ کر رومان کی امی نے بے ساختہ ماشاءاللّٰہ کہا اور سب کا ماتھا چوم کر باہر کی طرف بڑھ گئیں وہ سب بھی خوشی سے بے قابو دل لیے رومان کو لیتے باہر کی طرف بڑھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رمضیہ آپی ہمارے بالوں کا ہیر سٹائل تو بنا دیں رانیہ اور  ارباب رمضیہ کے پاس آئیں جو افق کے تیار ہونے کے بعد صنوبر کو تیار کر کے اب خود تیار ہونے لگی تھی رانیہ کے بولنے پر مسکرا کر اٹھی اور ہیر سٹائل بنانے لگی جلدی جلدی ہاتھ چلاتے دونوں کو فارغ کر کے رمضیہ نے فائقہ کو دیکھا جو اپنے دوپٹے سے الجھ رہی تھی اس کے پاس آ کر نرمی سے دوپٹہ لے کر سیٹ کیا اور کہا جب میں ہوں تمہاری بہن تو مجھ سے کہ دیا کرو اگر کچھ نا ہو رہا ہو تو فائقہ مسکرا کر سر اثبات میں ہلا گئی پھر صنوبر کی طرف دیکھا اسے سیلفیز لیتے دیکھ رمضیہ مسکرا کر خود تیار ہونے چل دی۔

کل کی طرح آج بھی ان سب کے ڈریسز سیم تھے کرتی اور گرارہ لیکن کلر مختلف تھے رمضیہ کا مہندی اور گولڈن کلر کا  تھا فائقہ کا لیمن اور شاکنگ پنک صنوبر کا مرجنڈا اور سکن کلر کا رانیہ اور ارباب کا تقریباً سیم ہی کلر تھا گرین اور گولڈن کل کی طرح آج بھی رمضیہ فائقہ اور صنوبر نے حجاب کر کے دوپٹہ سیٹ کیا تھا جبکہ رانیہ اور ارباب نے ہیر سٹائل بنوا کر دوپٹے گلے میں ڈالے ہوئے تھے۔

مہندی کمبائن تھی اس لیے ہال میں ہونی تھی وہ سب تیاری مکمل کرتیں افق کو لیتی نیچے آئیں آج ارباب اور رانیہ کے پیرینٹس فہیم کی آپی اور بچے یہاں ان کے ساتھ تھے جبکہ فہیم سہراب اور ارتضیٰ کے گھر والے رومان کے ساتھ آنے والے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہال پہنچتے ہی لڑکیاں افق کو لے کر سٹیج کی طرف بڑھیں جہاں جھولے کو دولہا دلہن کے بیٹھنے کے لیے سجایا گیا تھا اور آس پاس صوفے لگائے گئے تھے رسم کرنے آنے والوں کے بیٹھنے کے لیے سارے ہال کی ڈیکوریشن دیکھ کر وہ سب بے ساختہ صائب کے کام کو سراہنے لگیں کہ یہ سب اسی نے کروایا تھا۔

ڈھول ڈھمکوں کی آواز پر سب لڑکیاں سٹیج سے اتر کر نیچے آگئیں اور دروازے کی طرف دیکھنے لگیں جہاں سے وہ سب اندر داخل ہو رہے تھے اور رومان کو بیچ میں کھڑا کر کے اس کے ارد گرد بھنگڑا ڈال رہے تھے باقی سب کا تو پتا تھا مگر صائب کو بھی ان سب کے ساتھ بھنگڑا ڈالتے دیکھ کر رمضیہ کو حیرت کا شدید ترین جھٹکا لگا اور یہی نہیں آج صائب کے چہرے پر مسکراہٹ جدا ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی رمضیہ ہڑبڑا کر ہوش میں آئی ماشاءاللّٰہ کہتی ان کی طرف دوبارہ متوجہ ہوئی۔

قریب آنے پر سہراب نے صنوبر کو کھینچ کر اپنے ساتھ شامل کیا اور صنوبر سب کچھ بھلائے بھنگڑے میں شامل ہو گئی اس کی دیکھا دیکھی ارتضیٰ نے بھی فائقہ کو کھینچا اور زبردستی بھنگڑا ڈلوانے لگا فائقہ دانت پیس کر رہ گئی اذہان کیوں پیچھے رہتا فوراً بھاگ کر رمضیہ کا ہاتھ پکڑا لے جاے لگا کہ رمضیہ ہاتھ چھڑاتے بولی کمینے انسان کیا کر رہے ہو۔

کچھ نہیں رضیہ سلطانہ سب اپنی اپنی پارٹنر جو لے گئے اب میں کیا کروں تم نظر آئی تو تمہیں ہی لے کر جاؤں گا نا چیخ کر بولتے گھسیٹ کر رمضیہ کو لے گیا اور رمضیہ بعد میں اذہان کی طبیعت صاف کرنے کا سوچتی سر جھٹک کر ان کے ساتھ شامل ہو گئی رانیہ اور ارباب کو کسی نے پوچھا نہیں وہ بیچاریاں افق کے پاس جا کر بیٹھ گئیں۔

ان سب کو پاگل ہوتے دیکھ وہاں ہر کوئی حیران تھا کہ ایسے بھی دوست ہوتے ہیں دوستی کے علاوہ تو کوئی رشتہ نہیں تھا ان کا آپس میں مگر دیکھ کر لگتا تھا جیسے جان سے بڑھ کر ہوں وہ سب ایک دوسرے کے لیے۔

جب ان میں سے کوئی بھی نا رکا تو اذہان کے والد صاحب آگے بڑھے اور اذہان کی گدی پر ہاتھ رکھ کھینچتے ہوئے لائے اذہان بیچارہ بوکھلا کر سیدھا ہوا ان کو دیکھتے سب رک گئے پھر ان سب کی مائیں آگے بڑھیں اور بولیں باقی کا ڈانس بعد میں کرنا ابھی دولہے کو افق کے ساتھ بٹھاؤ جا کر رومان جو خود بھی ان کے ساتھ بھنگڑے ڈالتے مست ہوا پڑا تھا خوشی سے بے قابو ہوتے آگے بڑھا کہ ارتضیٰ نے ہاتھ پکڑ کر روکا اور بولا جانو اتنی بھی کیا جلدی ہم بٹھاتے ہیں لے جا کر تجھے رومان ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔

لڑکیاں فوراً سٹیج کے پاس جا کر کھڑی ہو گئیں رانیہ اور ارباب بھی اتر کر نیچے آگئیں ۔

ایسے کیسے پہلے ہمارا نیگ دیں پھر جانے دیں گے جیجا جی رمضیہ ہاتھ پھیلا کر بولی وہ سب جو رومان کو لے کر سٹیج کی طرف آئے تھے پر رمضیہ والوں کو سامنے کھڑا دیکھ کر رک گئے۔

اذہان مزاق اڑاتے بولا رضیہ بیگم آج جمعرات نہیں ہے آج تمہارا دھندا نہیں چلے گا اذہان کی بات پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ آئی۔

اذہان میرا نام مت بگاڑا کرو اور تم سے تھوڑی مانگ رہی ہوں اپنے جیجو سے مانگ رہیں تم کیوں تڑپ رہے ہو۔

رومان بحث بڑھتے دیکھ کر پیسے نکالنے لگا کہ سہراب نے ہاتھ پکڑ لیا نا کاکے نا آج اگر تو نے ان کی ڈیمانڈ پوری کر دی تو ساری زندگی رن مرید بن کر رہنا پڑے گا۔

تو نے اگر مجھے روکا تو تیری گردن یہں مروڑ دوں گا سالے پیچھے ہٹ رومان سہراب کا ہاتھ ہٹاتے بولا۔

سب ان کی نوک جھونک سن رہے تھے کہ اذہان کی چیخ پر اس کی طرف دیکھنے لگے ہئے لوگوں میرا بھائی دلہن رخصت کروانے سے پہلے ہی رن مریدی کے رکارڈ توڑنے پر لگا ہوا ہے اذہان کی دہائی پر سب کے قہقے گونجے اور صائب کے بابا کے کہنے پر جلدی جلدی رومان نے پیسے رمضیہ کی طرف بڑھائے اور خود ہی سٹیج پر چڑھ کر افق کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا اس کی جلد بازی پر سب نے اپنی ہنسی دبائی اذہان افسوس سے سر نفی میں ہلانے لگا۔

رسم ابھی شروع نہیں کی گئی تھی وہ سب عمائزہ اور آیت کا ویٹ کر رہیں تھیں کہ وہ آجائیں تو رسم شروع کریں۔

یار اب تو نکاح ہو گیا ہے اب کیوں اتنا بڑا گھونگھٹ کیا ہوا ہے تم نے رومان جو کب سے افق کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا جھنجھلا کر بولا۔

میں نے نہیں کیا یہ رمضیہ اور فائقہ نے زبردستی افق کہتی چپ کر گئی رومان گھونگھٹ اٹھانے ہی لگا تھا کہ کسی کے گلا کھنکھارنے پر سیدھا ہوا گردن گھما کر دیکھا تو ارباب اور رانیہ کھڑیں تھیں۔

تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو رومان نے گھور کر پوچھا۔

وہ رمضیہ آپی نے کہا ہے جب تک وہ یہاں نہیں آ جاتیں تب تک ہم پہرا دیں کہ آپ افق آپی کا گھونگھٹ نا اٹھا سکیں رانیہ مسکراتے بولی ۔

رومان تپ گیا کیا مصیبت ہے نکاح ہو گیا ہے بیوی ہے میری میں دیکھ بھی نہیں سکتا افق نے ہاتھ بڑھا کر رومان کے ہاتھ پر رکھا اسے ریلیکس کرنے کے لیے رومان کا غصہ پل میں اترا اور مسکرا کر افق کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اس سے باتیں کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمائزہ اور آیت ہال میں آئیں تو ایک لمحے کے لیے آیت چکرا گئی اسے رش والی جگہ پر گھبراہٹ ہوتی تھی عمائزہ آیت کو ریلیکس کرتی آگے بڑھی کہ اچانک بوتل کے جن کی طرح اذہان سامنے آیا عمائزہ بچنے کی کوشش کرتی بھی اذہان کے ساتھ ٹکرا گئی اذہان نے شوخ نظروں سے دیکھتے عمائزہ کا ہاتھ پکڑا اذہان کو دیکھ کر آیت کو ریلیکس کرتی سائڈ پر ہونے کا بول کر اذہان کی طرف متوجہ ہوئی۔

تم ٹھرکی انسان باز نہیں آؤ گے اپنے ٹھرک پن سے اذہان کو دیکھ کر ہاتھ چھڑاتی بولی۔

میں مر جاواں جب تم مجھے ٹھرکی بولتی ہو نا اتنی پیاری لگتی ہو کہ کیا بتاؤں اذہان آنکھ ونک کرتا بولا۔

گھٹیا انسان ہاتھ چھوڑو ورنہ تمہارا خون پی جاؤں گی میں عمائزہ دبی دبی آواز میں چلائی۔

کیوں ویمپائر ہو تم اذہان چڑاتے ہوئے بولا۔

عمائزہ کچھ کہتی کہ رمضیہ اس کی طرف آتی اذہان کو پیچھے کرتی اسے اور آیت کو اپنے ساتھ لے گئی اذہان سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلو اب جلدی سے رسم شروع کرو پہلے ہی اتنا لیٹ کر دیا ہے تم سب نے روحیل صاحب ان سب کو ڈپٹ کر بولے۔

وہ سب ایک طرف ہوتے ہوئے سب بڑوں کو جگہ دینے لگے کہ پہلے وہ رسم کریں اس کے بعد ان سب کی باری آئے گی۔

ان سب کے ماں باپ اور رشتے داروں کے رسم کرنے کے بعد وہ سب سٹیج پر آئے اور رومان کی طرف سب لڑکے کھڑے ہوئے اور افق کی طرف سب لڑکیاں۔

رمضیہ رسم کرنے آگے آ کر افق کے ساتھ بیٹھی تو دوسری طرف ارتضیٰ نے صائب کو دھکا دیا کہ وہ رومان کے ساتھ بیٹھ کر رسم کر آئے ارتضیٰ کے دھکا دینے پر صائب اسے گھور کر آ کر رومان کے ساتھ بیٹھ گیا ارتضیٰ دانت نکوس کر پیچھے ہو گیا صائب اور رمضیہ کے رومان افق کے ساتھ بیٹھنے پر اذہان معنی خیزی سے سیٹی بجاتا ادھر اُدھر دیکھنے لگا باقی سب ہنس کر انہیں رسم کرنے کا کہنے لگے سب بڑے بھی خوشی سے دیکھ رہے تھے۔

رمضیہ اور صائب رسم کر کے اٹھنے ہی لگے تھے کہ رومان بولا رمضیہ اور کتنی سزا دینی ہے پلیز افق کا گھونگھٹ اٹھانے دو رومان کے التجا کرنے پر رمضیہ ہنس کر سر ہلاتی افق کا گھونگھٹ اٹھا کر پیچھے کرنے لگی جیسے ہی رمضیہ پیچھے ہٹی رومان افق کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا افق لگ ہی اتنی خوبصورت رہی تھی اس کے لائٹ سے میکپ میں پھولوں کے زیور پہنے بہت پیاری لگ رہی تھی صائب گلا کھنکھار کر رومان کے کھلے منہ کو بند کرنے لگا رومان کو جب کچھ نا سمجھ آیا تو ہڑبڑا کر سیدھا ہوتے صائب کی کمر پر تھپڑ دے مارا اور اسی وقت دوسری طرف رمضیہ افق کو چھیڑ رہی تھی کہ افق نے بھی رمضیہ کے کندھے پر دھموکا جڑ دیا کسی کو کچھ سمجھ نا آیا کہ اچانک عورتوں کے ہنسنے پر سب انہیں دیکھنے لگے صائب کی امی اپنی ہنسی روک کر انہیں دیکھ کر بولیں اب اگلا نمبر صائب اور رمضیہ کا لگنے والا ہے ان کی بات پر رمضیہ اور صائب جھٹکے سے اٹھے ان کی شکل دیکھنے لگے۔

میرا مطلب ہے دولہا دلہن سے مہندی والے دن جس کو بھی ہاتھ پڑ جائے اس کی جلدی شادی ہو جاتی ہے صائب کی امی ان سب کے حیران چہروں کو دیکھتی اپنی بات کا مطلب سمجھانے لگیں سب ان کی بات کو مزاق میں اڑانے لگے اور رمضیہ صائب بھی سٹیج سے نیچے اتر آئے۔

اس کے بعد ارباب اور رانیہ رسم کرنے آگے بڑھیں ان کے اٹھنے کے بعد صنوبر اور فائقہ آگے بڑھیں کہ فائقہ کو رومان کی طرف بڑھتے دیکھ ارتضیٰ آگے آیا اور بولا یہاں میں بیٹھوں گا تم افق بھابھی کے ساتھ بیٹھ جاؤ اور جلدی سے رومان کے ساتھ بیٹھ گیا فائقہ اس کو گھور کر پیچھے ہوئی اور جا کر صنوبر کے ساتھ کھڑی ہو گئی ارتضیٰ کچھ کہتا کہ فہیم افق کی طرف آ کر کھڑا ہوا اور افق کے سر پر ہاتھ رکھ کر رسم کرنے لگا اس کو دیکھ کر ارتضیٰ بھی اپنے غصے کو دباتے رومان کی طرف متوجہ ہوا اور رومان کے سر پر تیل ملتے اس کے منہ میں تین چار رس گلے ٹھونستے اٹھا سب رومان کا حال دیکھ کر ہنسنے لگے۔

ارتضیٰ کے اٹھتے ہی فہیم رومان کی طرف آیا اور ارتضیٰ والا  عمل دہراتے رومان کے بالوں کو تیل سے تر کرتے اور منہ میں گلاب جامن ٹھنساتے ہاتھ جھاڑ کر اٹھ گیا۔

اس سے پہلے کوئی اور تماشہ کرتا صنوبر اور فائقہ رسم کرنے آگے بڑھ کر افق اور رومان کے ساتھ بیٹھیں چھیڑ چھاڑ میں رسم کی اور اٹھ گئیں۔

عمائزہ اور آیت کو رسم کرنے کے لیے آگے بڑھتے دیکھ اذہان آگے بڑھا اور عمائزہ کے افق کے ساتھ بیٹھنے پر آیت کے آگے آیا اور رومان کے ساتھ بیٹھ گیا اس کی چالاکی پر عمائزہ دانت کچکچا کر رہ گئی وہ اٹھنے لگی تھی کہ صنوبر کے کہنے پر بیٹھی رہی اذہان جو کب سے سوچ رہا تھا اور اسی لیے کافی دیر سے خاموش تھا کہ وہ چاہتا تھا عمائزہ جب رسم کرنے آئے تو وہ رومان کے ساتھ بیٹھ جائے رومان اسے تھپڑ مارے اور دوسری طرف افق بھی عمائزہ کو ایک آدھا تھپڑ مار دے تا کہ اس کی اور عمائزہ کی بھی شادی ہو جائے اس نے کچھ زیادہ ہی سیریس لے لیا تھا صائب کی امی کی باتوں کو پھر گہری سانس بھر کر رومان کی طرف رخ موڑا اور بولا یار رومان مجھے بھی کوئی تھپڑ یا مکا جڑ دے تا کہ میرا بھی کوئی چانس بنے اس کی بات سنتے رضا صاحب زور سے بولے گدھے میں بنواتا ہوں تیرا چانس آجا میرے پاس ہر طرف قہقے گونجے اذہان منہ بنا کر بولا پاپا آپ کی شادی نہیں ہو رہی جو آپ سے چانس بنواؤں رضا صاحب اس کی بات پر دانت پیس کر رہ گئے ان کی اولاد کبھی باز نہیں آ سکتی وہ اچھے سے جانتے تھے۔

میری جان یہاں آ مجھ سے کھا لے جھانپڑ اتنا تجھے شوق چڑھ رہا ہے تو فہیم آگے آتا بولا اذہان جلدی سے رسم کرنے لگا کہ کہیں فہیم اپنا بیس کلو کا ہاتھ اس پر نا اٹھا لے کہ وہ اپنا منہ ہی تڑوالے اتنا تو سمجھ دار تھا ہی وہ اس کو رسم کرتے دیکھ عمائزہ بھی افق کی طرف دیکھتی رسم کرنے لگی اور جلدی سے اٹھ کر فائقہ کے ساتھ جا کر کھڑی ہو گئی جبکہ اذہان اپنے سارے ارمان پورے کرتے رومان کا حال بے حال کرتے پیار کرتے اٹھا تقریباً سب ہی رسم کر چکے تھے نثار صاحب اور روحیل صاحب بولے صائب اب کھانا کھلا دینا چاہیے ٹائم زیادہ ہو رہا ہے صائب جی کہتا سب کو لے کر باہر کی طرف بڑھا جہاں کھانے کا انتظام تھا رومان واشروم چلا گیا تھا اپنی حالت کچھ سنوارنے جبکہ لڑکیاں سب افق کے پاس بیٹھ گئیں اور باتیں کرنے لگیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب مہمانوں کو ہر چیز سرو کرنے کے بعد اذہان ان سب کو لے کر خود بھی ایک ٹیبل پر آ کر بیٹھ گیا صائب نے کوئی ویٹر نہیں بلایا اس کا کہنا تھا وہ سب لڑکے اتنے تو ہیں کہ کھانے کا سارا انتظام خود سنبھال سکیں اسی لیے تقریباً سب مہمانوں کو ہر جیز سرو کر کے اب سکون سے بیٹھے تھے۔

 اذہان سہراب کو لے کر اٹھا اورسب کے لیے کھانا لینے چل دیا۔

صائب اور ارتضیٰ رومان اور افق کے پاس تھے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو ان سے پوچھ لیں۔

صائب اذہان والوں کی طرف آیا اور بولا جلدی سے کھانے وغیرہ سے فری ہو جاؤ پہلے ہی رسموں اور فوٹو سیشن میں اتنا ٹائم لگ گیا تھا اذہان جو کباب کھا رہا تھا صائب کو گھورنے لگا اور بولا یار سکون سے کھانا تو کھانے دے کیا بار بار بے سکون کری جا رہا ہے جلدی کرو جلدی کرو صبح کا ناشتہ کیا ہوا ہے اور اب بھوک سے برا حال ہو رہا ہے اب بھی کھانے نہیں دے رہا۔

 صائب بولا میں نے کب بے سکون کیا اور ابھی ہی تو آیا ہوں بولنے۔

سہراب اور فہیم بھی ساتھ ہی بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اذہان کو دیکھ کر سہراب جل کر بولا بںغیرت انسان ناشتے کے بعد سے بھی تو کتنا کچھ ٹھونس چکا ہے اور راستے میں جو چپس نمکو کیک ٹھونستا ہوا آیا ہے وہ الگ ابھی بھی تیرا بھوک سے برا حال ہے۔

اس سے پیٹ تھوڑی بھرتا ہے وہ تو بس ویسے ہی تھا اذہان مزے سے بولا ان دونوں کو دیکھ کر صائب سر جھٹک کر رمضیہ والوں کی طرف پوچھنے آیا کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں انہیں وہاں سے تسلی کر کے جانے ہی لگا تھا کہ رمضیہ کرسی سے کھڑی ہو کر بولی تم نے کچھ کھایا صائب حیران ہوا اور بولا نہیں میں کھا لیتا ہوں ابھی تم سب کھاؤ آرام سے۔

ہاں پتہ ہے مجھے کتنا کھا لو گے تم پھر ارتضیٰ کو آواز دیتی اسے بلانے لگی ارتضیٰ سٹیج پر رومان والوں کے پاس تھا فوراً اتر کر ان کے پاس آیا اور بولا کیا ہوا کچھ چاہیے۔

رمضیہ کا دل کیا اپنا سر پٹ لے پھر بولی کچھ چاہیے ہو گا تو ہم خود منگوا لیں گی تم یہ بتاؤ تم نے کھایا کھانا۔

ارتضیٰ جو کب سے نوٹ کر رہا تھا کہ فائقہ بھی اپنے سامنے خالی پلیٹ لیے بیٹھی تھی مطلب ابھی تک اس نے بھی کچھ نہیں کھایا تھا اور یہ سوچتے ارتضیٰ دل ہی دل میں خوش ہوا پھر رمضیہ سے بولا نہیں میں اور صائب بعد میں کھا لیں گے۔

شرافت سے یہں بیٹھ جاؤ ہمارے ساتھ یا اذہان والوں کے پاس جاؤ اور کھانا کھاؤ بعد میں کتنا کھاؤ گے مجھے اچھے سے پتہ ہے اذہان والے کچھ نہیں چھوڑنے والے ان کے آگے دس دیگیں بھی رکھ دو گے نا کھانے کی تب بھی ان کے پیٹ نہیں بھرنے والے رمضیہ ہنستے ہوئے بولی۔

ارتضیٰ سر ہلا کر صائب کو لیتے اذہان والوں کی طرف بڑھا تھوڑی دور جانے کے بعد ہی صائب واپس ان کی طرف آیا اور ایک نظر فائقہ کو دیکھ کر ارتضیٰ کو دیکھ کر بولا آپ سب آرام سے کھانا کھا لیں اب ہماری فکر نا کیجیے گا ہم لوگ بھی کھانا کھا کر ہی اٹھیں گے اب ٹیبل سے اور اذہان والوں کی طرف چل دیا جبکہ فائقہ جلدی سے پلیٹ اٹھا کر کھانا ڈالنے لگی اسے لگا شاید صائب کو پتہ چل گیا ہے یا شک ہو گیا ہے ارتضیٰ اور اس کا تبھی وہ اسے دیکھ کر بولا تھا پھر سر جھٹک کر کھانا کھانے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھانے سے فری ہونے کے بعد وہ روحیل صاحب بولے اب نکلنا چاہیے اور ان سب کو اشارہ کرنے لگے۔

مہمانوں کے نکلتے ہی وہ سب بھی ہال سے باہر آئے رمضیہ افق کو لے کر ارباب کے ساتھ صائب کی گاڑی میں بیٹھی روحیل صاحب بھی صائب کی گاڑی میں تھے ان کے بیٹھتے ہی صائب نے ارتضیٰ کو اشارہ کیا کہ رانیہ عمائزہ آیت اور فائقہ کو اپنی گاڑی میں لے آئے ارتضیٰ مسکراتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف آیا اور ان سب کے بیٹھتے ہی گاڑی سٹارٹ کر دی اور صائب کے نکلتے ہی خود بھی گاڑی آگے بڑھائی اذہان فہیم اور سہراب پہلے ہی نکل چکے تھے اپنے اپنے گھر والوں کے ساتھ ورنہ اذہان کے ہوتے کیسے ممکن تھا کہ عمائزہ اس کے علاوہ کسی اور کے ساتھ چلی جاتی صنوبر نے کچھ سامان لینا تھا گھر سے اسی لیے وہ سہراب کے ساتھ پہلے گھر آئی پھر واپس رمضیہ کی طرف آنا تھا اس نے جبکہ لڑکے سارے گھر والوں کو چھوڑ کر رومان کی طرف جانے والے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رمضیہ گھر پہنچتے ہی ارباب کے ساتھ افق کو اس کے کمرے میں چھوڑنے چلی گئی صائب اور روحیل صاحب آ کر لاؤنج میں ہی بیٹھ گئے ان کے پیچھے ارتضیٰ بھی پہنچ گیا تھا وہ سب اندر آئے اور لاؤنج میں ہی بیٹھ گئے رمضیہ اور ارباب نیچیں آئیں تو عمائزہ بولی رمضیہ اب ہمیں چھوڑ آؤ آج واسع کسی کام سے لاہور گیا ہوا تھا اس لیے وہ لینے نا آسکا۔

رک جاؤ آج یہاں ہی رمضیہ لاڈ سے بولی۔

نہیں یار پھر کبھی سہی ابھی جانا ہے ہمیں عمائزہ سہولت سے انکار کرتی بولی۔

صائب تم چھوڑ آؤ ان دونوں کو روحیل صاحب صائب سے بولے صائب سعادت مندی سے جی کہتا اٹھا اور رمضیہ سے بولا آجاؤ انہیں چھوڑ کر آتے ہیں اور باہر نکل گیا رمضیہ بھی چپ چاپ اٹھ کر عمائزہ اور آیت کے ساتھ باہر آ گئی۔

ان سب کے بیٹھتے ہی صائب نے گاڑی سٹارٹ کی اور عمائزہ سے ایڈریس پوچھا عمائزہ کے بتانے پر سر ہلا دیا۔

چھوٹی موٹی باتوں کے درمیان پتہ ہی نہیں چلا اور ان کا گھر آگیا آیت سو گئی تھی عمائزہ نے آیت کو ہلاکر اٹھایا وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھی صائب اور رمضیہ نے گھبرا کر پیچھے دیکھا پھر سمجھتے گاڑی سے نکلے عمائزہ بھی نکلی اور آیت کو کھینچ کر باہر نکالا۔

ان دونوں کا گھر ساتھ ساتھ تھا پہلے عمائزہ آیت کو گیٹ تک چھوڑ کر آئی اندر آیت خود چلی گئ تھی پھر ان کی طرف آئی اور زبردستی اپنے گھر لے گئی صائب کے منع کرنے کے باوجود بولی صائب بھائی پہلی بار آئیں ہیں آپ ایسے ہی باہر سے چلے جائیں گے کیا اس کے بھائی کہنے پر صائب نا چاہتے ہوئے بھی اندر آگیا۔

مشکل سے دس منٹ بیٹھ کر صائب رمضیہ کو دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا اور عمائزہ کے پیرینٹس کو دیکھ کر بولا بہت دیر ہو گئی ہے اب ہم چلتے ہیں رمضیہ بھی کھڑی ہو گئی کہ اچانک عمائزہ کی کزن واسع کی بہن ارماہا بولی رمضیہ اپنے بھائی کو بولو تھوڑی دیر اور رکنے دے تمہیں ابھی تو آئے ہو تم لوگ رمضیہ اس کا منہ دیکھنے لگی صائب بمشکل ضبط کرتا بولا ہمیں دیر ہو رہی ہے ہمیں جانا ہے اور رمضیہ کو دیکھ کر بولا ہمارا ریلیشن جو بھی ہے آپ اپنے اندازے نا لگائیں مس اور رمضیہ کو باہر آنے کا کہتا نکل گیا ارماہا کلس کر رہ گئی وہ کب سے بیٹھی تھی کہ شاید صائب اس کی طرف دیکھ لے مگر صائب نے اس پر ایک نگاہ ڈالنا بھی گوارہ نا کیا تھا اور رمضیہ کو دیکھ کر جواب دیتے پتہ نہیں کیوں ارماہا کے دل میں آگ لگا گیا تھا۔

صائب نے رمضیہ کے گھر کے آگے گاڑی روکی رمضیہ اتر گئی صائب ویسے ہی بیٹھا رہا تو صائب سے پوچھنے لگی۔

تم نہیں آؤ گے اندر۔

نہیں مجھے کچھ کام ہے پھر میں رومان کی طرف جاؤں گا تم جاؤ اور گیٹ اچھے سے بند کرنا صائب گاڑی دوبارہ سٹارٹ کرتے بولا رمضیہ اللّٰہ حافظ کہتی گیٹ کھول کر اندر آگئی رمضیہ کے گیٹ بند کرنے تک صائب وہیں رہا جیسے ہی گیٹ بند ہوا وہ گاڑی زن سے آگے بڑھا لے گیا۔


No comments:

Post a Comment