Yara Teri Yari Novel Part 1 by Aleena Meer | Farhan Speak - Farhan Speak

Thursday, August 31, 2023

Yara Teri Yari Novel Part 1 by Aleena Meer | Farhan Speak

   السلام علیکم! کیسے ہیں آپ سب؟ 

 Yara Teri Yari Novel Part 1 by Aleena Meer 

 Yara Teri Yari Novel Part 1 by Aleena Meer, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels,
Yara Teri Yari Novel Part 1 by Aleena Meer
 

یہ میرا پہلا ناول ہے جو میں لکھ رہی ہوں امید کرتی ہوں فرینڈز بیس پر لکھا یہ ناول آپ سب کو پسند آئے گا۔ کمینٹس کے ذریعے اپنی قیمتی رائے کا اظہار لازمی کریں آپ کی قیمتی رائے میرے لیے باعث فخر ہو گی. جزاک اللّٰہ


نام ناول : یارا تیری یاری

ازقلم: الینا میر

قسط نمبر :1

۔❤️❤️❤️❤️

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اذہان نے بلند آواز میں ان تینوں کو سلام کیا وہ جو یونیورسٹی کے گیٹ سے اندر آرہیں تھیں ڈر کے مارے ان کی چیخیں نکل گئیں ۔

اذہان نے اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیں اففف کیا ہو گیا اتنی زور سے کیوں چیخیں ماررہی ہو۔

اذہان کے بچے کوئی ایسے بھی سلام کرتا ہے ابھی میرا ہارٹ فیل ہو جاتا تو فائقہ اور صنوبر جوا سکے ساتھ تھیں انہوں نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی ۔ ۔

رمضیہ صاحبہ تم ہمارے مرنے سے پہلے نہیں سکتیں یہ بات لکھوا لو مجھ سے کیا کہا تم نے اذہان میں تمہارا سر پھاڑ دوں گی اگر دوبارہ اس فضول نام سے بلایا مجھے ، میرا نام رمضیہ ہے سمجھ آئی۔

ہاں ہاں رضیہ میرا مطلب رمضیہ 

ہیلو تم لوگ یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو کلاس نہیں لینی کیا فہیم جو انہیں جو انہیں ڈھونڈتا ہوا وہاں آیا تھا اس نے ان سے پوچھا ۔

رمضیہ اسے گھور رہی تھی وہ اسکے ایسے دیکھنے سے گڑبڑا گیا ۔ 

کیا ہوا مضیہ ایسے کیوں گھور رہی ہو کبھی کوئی بینڈسم لڑکا نہیں دیکھا ۔۔

اس سے پہلے ک رمضیہ نظروں سے ہی فیم کا قتل کر دیتی اذہان فہیم کے کان میں منہ گھساتے ہوا بولا بھائی تھے پتا تو ہے رضیہ کا پھر بھی تونے ہیلو کہا بقول

رمضیہ کے فرنگیوں والا کام ۔

اچھا اچھا فہیم نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا اور بولا ۔ ۔

اسلام و علیکم سوری میں بھول گیا تھا ۔ 

کھانا کھانا تو نہیں بھولتے تم اور سلام کر نا بھول گئے ۔ ۔

سے پہلے ک ان کی بحث شروع ہوتی اذہان بولا چلو یار کلاس لینے ور نہ بیستی ہو جائے گی اور میرا کوئی ارادہ نہیں صبح صبح بیستی کروانے کا تم تو ایسے بول رہے ہو جیسے بیستی ہونے سے تمہاری شان میں فرق آجائے گا

رمضیہ نے طنز کرتے ہوئے کہا ۔ 

وہ سب ہی اپنی اپنی کلاس روم کی طرف بڑھے ۔ ۔

رمضیہ فائقہ اور صنوبر اپنی کلاس لینے چلی گئیں جبکہ اذہان اور فیم باہر رگ کر باقی دوستوں کا انتظار کرنے لگے ان کے سبجیکٹس الگ تھے ابھی دو منٹ ہی گزرے تھے کہ سامنے سے ارتضی ، رومان ، صائب اور سہراب آتے دکھائی دیئے اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات کرتے صائب نے سب کو کلاس میں چلنے کا کہا اور صائب کے پیچھے سب کلاس میں داخل ہو گئے ۔

وہ 9 دوستوں کا گروپ تھا سکول میں بھی ساتھ ساتھ رہے کالج میں بھی اور اب یو نیورسٹی میں بھی وہ سب اک دوسرے کی جان تھے جہاں وہ لوگ لڑتے بہت تھے وہیں ان لوگوں میں دوستی بھی بہت تھی اور پیار بھی ۔

رضا حبیب اور تانیہ بیگم کے دو ہی بچے تھے اذہان اور رانیہ۔۔

اذہان جتنا شرارتی تھا رانیہ اتنی ہی معصوم ان کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ بہن بھائی ہیں۔

ملک برہان اور رقیہ بیگم کے تین بچے تھے زوہیب ، رونق اور سب سے چھوٹا فہیم۔ زوہیب اور رونق کی شادی ہو چکی تھی پیچھے بچا فہیم تو وہ ابھی چھوٹا تھا بقول اسکے کہ اسکی ابھی کھیلنے کودنے کی عمر ہے۔

روحیل وقاص کی دو ہی بیٹیاں تھیں افق اور رمضیہ ۔ 

افق اور رمضیہ کے بچپن میں ہی انکی والدہ وفات پا چکی تھیں اور انکے والد نے دوبارہ شادی نہیں کی کہ سوتیلی ماں جانے انکی بچیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرے اس لیے انھوں نے اکیلے ہی اپنی بچیوں کی پرورش کی ۔

صنوبر عمران اور واجدہ بیگم کی اکلوتی بیٹی تھی وہ نا صرف ماں باپ بلکے اپنے خاندان میں اکلوتی تھی اسکے دادا کی بھی کوئی بہن نہیں تھی آگے اسکے بابا والوں کی کوئی بہن نہیں تھی اور اسکے تایا کے بھی چار بیٹے ہی تھے سہراب اسکا کزن تھا تا یا کا سب سے چھوٹا بیٹا اور تو اور صنوبر کا نام بھی اسی نے رکھا تھا۔

جہاں انکے دادا نے اسکا نام صنوبر رکھا وہیں سہراب کے لیے وہ زوبیہ تھی۔۔

رومان بھی اکلوتا تھا اسکے والد صاحب کا انتقال کچھ سال پہلے ہی ہوا تھا اچانک دل کا دورہ پڑنے سے امان اور ارتضی جویریہ اور فائق کے بچے تھے صائب اور ارباب مومنہ اور نثار صاحب کے بچے تھے ارتضی اور صائب آپس میں کزنز بھی تھے دونوں کی مائیں آپس میں بہنیں تھیں ۔ 

فائقہ کے ماں باپ نہیں تھے وہ چھوٹی سی تھی جب اک حادثے میں اسکے ماں باپ کا انتقال ہو گیا وہ اپنی نانو کے ساتھ رہتی تھی انہوں نے ہی اسے پالا تھا

جہاں ان سب کی آپس میں خوب دوستی اور محبت تھی وہیں انکے گھر والوں کے بھی آپس میں کافی اچھے تعلقات تھے ۔  

Yara Teri Yari Novel Part 1 by Aleena Meer

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تینوں کینٹین جار میں تھیں کہ راستے میں سہراب نے روک لیا 

ہاں بھئی کہاں بھاگی جارہی ہو۔ 

ہم تو نہیں بھاگ رہیں کہیں رمضیہ نے جلدی سے جواب دیا ۔ ۔

سہراب نے صنوبر سے پوچھاہاں زوبیہ صنوبر صاحبہ ایسی بھی کیا آفت آ گئی تھی کہ اکیلی ہی یونی آ گئی ۔

سہراب تمہیں پتہ تھا نا آج بہت ضروری ٹیسٹ تھا میرا اگر میں لیٹ ہو جاتی تو کلاس کے آس پاس بھی نہیں بھٹکنے دینا تھا مس نائلہ نے مجھے ۔

اچھا سوری یار آئیندہ ایسا نہیں ہوگا سہراب نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔

اس سے پہلے کے صنوبر کچھ بولتی فائقہ نے پوچھا باقی سب کہاں ہے ہیں ۔ 

سہراب بولا باقی سب کینٹین کی طرف گئے ہیں اذہان کسی کام سے گیا ہوا ہے تم لوگ جاؤ میں اسے لے کر آتا ہوں وہ تینوں سر ہلا کر جانے لگیں۔

تینوں جیسے ہی کینٹین پہنچیں انہیں اک ٹیبل پر رومان ، فہیم ، ار تضی اور صائب بیٹھے نظر آئے۔

وہ بھی انکے ساتھ آ کر بیٹھ گئیں ۔

سناؤ کیا حال ہے نکمی لڑکیوں ارتضی نے فائقہ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ 

فائقہ جوا سکے اس طرح دیکھنے سے گھبرارہی تھی فوراً غصے سے بولی نا آپ کا کیا مطلب ہے ہم کوئی کام نہیں کرتی سب کام آپ لوگ کرتے ہیں مت بھولیں کہ آپ لوگ اسائنمنٹ بھی ہم سے ہی بنواتے ہیں ۔

وہ جو فائقہ کی طرف پیار سے دیکھ رہاتھا فوراسٹپٹا گیا۔

ارے فائقہ میں نے ایسا تو نہیں کہا کچھ بھی تم غلط سمجھ رہی ہو۔

میں سب سہی سمجھی ہوں ار تضی اب بات مت کرنا مجھ سے ۔ 

ارے یار مزاق کر رہا تھا میں پلیز یار ناراض مت ہو اب بس بھی کرو تم دونوں بچے نہیں ہو جو سب کے بیچ تماشا لگارہے ہو چپ کر کے بیٹھو اب ۔ ۔

وہ سب جومنہ کھولے ان کو لڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے اچانک صائب کے غصے سے بولنے کی وجہ سے ڈر گئے ۔

رومان اٹھا اور سب کے لئے کچھ کھانے کے لیے لینے چلا گیا ۔ ۔

Yara Teri Yari Novel Part 1 by Aleena Meer

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 1 by Aleena Meer

دوسر ی طرف سہراب اذہان کو ڈھونڈتا ہوا آیا ۔ 

وہ لائیبریری کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھا نظر آیا تو فوراً اسکے پاس آیا ۔

اذہان میرا کام کر دیا تونے ؟ ۔

کونسا کام ؟ وہ جوا اپنے موبائل میں گیم کھیل رہا تھا اسنے سر جھکائے ہی جواب دیا ۔ 

ابے اوئے مزاق مت کر

اواچھا وہ کام ۔ ۔ بس سمجھ ہو گیا تیرا کام بس تواک بریانی کی پلیٹ ، اک سموسہ چاٹ اور ساتھ کولڈرنک تیار رکھ ۔ ۔

وہ کس خوشی میں ۔

یار سہراب تیرا کام کیا ہے میں نے ۔

اچھا اچھا جب ہو جائے گا کام تو ٹھونسا دوں گا تجھے سب۔

اچھا میں زوبیہ کے پاس جا رہا ہوں زرا دیر ہو گئی نا تو چار لوگوں میں بھی بے عزت کرنے سے نہیں چوکے گی ۔ ۔

اذہان جواسکی بات سن رہا تھا مصنوعی غصے سے بولا

کتنا ڈرتا ہے نا تو اس سے شرم کر میرا دوست ہو کر اتنا ڈر پوک ۔

ویسے تجھے دیکھ کر مجھے اک گانا بہت یاد آرہا ہے ۔

سهراب اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولا کونسا ؟ ؟ ؟ ؟

اذہان نے اسکے کان کے پاس آتے ہوئے کہا وہی میں توجورو کا غلام بن کے رہوں گا ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا 

سہراب جو بچارہ غور سے سننے لگا تھا فوراً پیچھے ہٹا اور بولا شرم سے ڈوب مر تو جارہا ہوں میں۔

ایسے کیسے مرجاؤں تیرے کام کے بدلے جو ڈیل ہوئی ہے وہ تو پہلے پوری ہو جائے ۔ ۔

اذہان دومنٹ تک بیٹھا رہا پھر اٹھ کر سہراب کے پیچھے بھاگا وہ دونوں اک ساتھ ہی کینٹین میں داخل ہوئے اور چلتے ہوئے ٹیبل  کے پاس آئے جہاں باقی سب بیٹھے لنچ کر رہے تھے

اذہان جو ندیدوں کی طرح کھانے کو دیکھ رہاتھا فوراً رمضیہ کے ہاتھ سے بر گر چھین کر کھانے لگا اور بولا رضیہ سلطانہ تمہیں میری یاد نہیں آئی ۔ ۔ 

رمضیہ جسے ابھی تک سمجھ ہی نہیں آئی تھی کہ اسکے ساتھ ہوا کیا اور جب سمجھ آئی تو پاس پڑی پانی کی بوتل اذہان کی طرف پھینکی ۔

اذہان منحوس شکل کے میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی فوراواپس کرو میرابر گر ۔ ۔

اذہان کے ہاتھ میں آدھا برگربچا تھا اذہان نے بنا برا منائے رمضنیہ کو کہا ۔

اووہ پہلے بتانا تھا نا پھر رکا اور باقی بچا ہوا بر گر اک ہی نوالے میں منہ میں ڈال لیا اور بولا میں تو سارا برگر ہی کھا گیا رمضیہ کا تو صدمے سے برا حال تھا رومان سہراب ارتضیٰ فہیم زور زور سے ہنسنے لگے جبکہ صائب بھی اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی چھپا رہا تھا اور صنوبر فائقہ بھی ہنس رہیں تھیں ۔

رمضیہ فوراً اٹھی اور بولی بھاڑ میں جاؤ تم دیکھنا تم کنوارے ہی مرو گے ۔ ۔ ۔

اذہان جو پہلے ہنس رہا تھا اسکی ہنسی کو بریک لگا اور رمضیہ کے قریب آ کر بولا رضیہ سلطانہ ایسے مت کرو یار میں کنوارا نہیں مرنا چاہتا تمہیں نہیں پتہ کہ مجھے شادی کا کتنا شوق ہے۔

رمضیہ جو پہلے ہی غصے میں تھی اذان کے رضیہ کھنے پر اور بھڑک گئی فوراً بیگ اٹھا کر اذہان کو مارا اور بولی میرا نام رمضیہ ہے اذہان اب تم نے اگر میرا نام بگاڑا تو جہنم واصل کر دوں گی میں تمہیں ۔ ۔

فائقہ اور صنوبر اسکے پاس آئیں فائقہ بولی چلو آخری کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے کلاس میں چلتے ہیں پھر گھر چلیں گے ۔ ۔ ۔

وہ تینوں وہاں سے نکل آئیں ۔ ۔

سہراب بولا چلو اوئے ہم بھی چلیں۔

Yara Teri Yari Novel Part 1 by Aleena Meer

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کلاس روم میں سر واجد کی آواز گونج رہی تھی سب سٹوڈنٹس توجہ سے انکا لیکچر سن رہے تھے اور ساتھ ساتھ نوٹ بھی کر رہے تھے ۔ ۔

اچانک گانے کی آواز آئی سر غصے سے بولے سائلنٹ پر رکھیں اپنے اپنے موبائل ۔ ۔

دومنٹ ہی گزرے تھے کہ دوبارہ آواز آئی سر غصے سے سٹوڈنٹس کی طرف آئے۔۔۔۔

اور دیکھنے لگے آواز کہاں سے آئی ہے جب غور کیا تو دیکھا فہیم کا موبائل بج رہا تھا اور بجانے والا بھی اور کوئی نہیں اذہان ہی تھا جو بار بار کال کر رہا تھا اسکا اپنا دل نہیں تھا کلاس لینے کو پر انکے زبردستی کہنے پر وہ آگیا اب بور ہورہا تھا کہ فہیم کو تنگ کرنے کا سوچا کہ اسی بہانے کلاس سے تو جان چھوٹے گی ۔ ۔ ۔

سر نے فیم کو کھڑا کیا اور بہت ہی عزت کے ساتھ باہر دفع ہو جانے کا کہا ۔ ۔ ۔ ۔

بیچارہ فہیم اذہان کو گھورتے ہوئے کلاس سے نکل گیا ۔ ۔ ۔

سر دوبارہ اپنی جگہ پر گئے کہ اچانک اذہان کھڑا ہوتے ہوئے بولا سررر۔ ۔ ۔ ۔

سر نے اسکی طرف دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سر وہ فیم بیچارہ بور ہورہا ہوگا ۔ ۔ ۔

سر  نے کہا تو ؟ ۔ ۔ وہ جلدی سے بولا سر میں بھی جاؤں اسکے پاس اسک امیرے بنا دل نہیں لگتا اسکی ماما نے بھی کہا ہے کہ میں اسکے ساتھ ساتھ رہا کروں کہیں اسے کوئی اٹھا کر نالے جائے سارے سٹوڈنٹس ہنسنے لگے ۔

سر نے اسے گھورا اور طنزیہ انداز میں بولے ہاں وہ تو کوئی دودھ پیتا بچہ ہے اسے کوئی بھی اٹھا کر لے جائے گا ۔ ۔

سٹوڈنٹس کی ہنسی نہیں رک رہی تھی

سر واجد غصے سے دھاڑے خاموش اب کسی کی آواز آئی نا مجھے تو اسی وقت پر نپسل کے پاس کے جاؤں گا ۔ ۔ ۔

اور تم انہوں نے اذہان کی طرف آتے ہوئے کہا ابھی کے ابھی دفع ہو جاؤ کلاس سے باہر اذبان خوشی سے اچھلتا کودتا فوراً باہر بھاگا ۔ ۔

فہیم اس کے انتظار میں باہر کھڑا تھا ۔ ۔

اس نے اذہان کی گردن دبوچی اور گھسیٹ کر گراؤنڈ میں لے گیا ۔ ۔ ۔

بدتمیز انسان تجھ جیسے دوست سے بہتر تھا میں اکیلا ہی رہتا کیسا دوست ہے تو خود تو ذلیل ہو تا ہی ہے ساتھ مجھے بھی ذلیل کرواتا ہے۔

اچھا نا چھوڑ چل سب آنے والے ہوں گے گیٹ کے پاس چلتے ہیں ۔ ۔ ۔

اذہان اور فہیم کو گیٹ کے پاس کھڑے ہوئے دس منٹ ہی گزرے تھے کہ وہ سب بھی انکی طرف آتے ہوئے دکھائی دیے ۔ ۔

سب سے آگے ارتضی تھا اس نے دور سے ہی ہاتھ ہلایا اور بھاگتے ہوئے فہیم کے پاس گیا باقی سب بھی قریب آ گئے اور ارتضی بولا ۔ ۔ ۔

ہاں لنگوروں سناؤ کلاس سے باہر نکالے جانے پر کیسا لگا۔ 

کیاااااااا؟؟ فائقۃ ، صنوبر اور رمضیہ اک ساتھ چیخیں

اذہان اور رومان نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے آتے جاتے سٹوڈنٹس بھی انکو دیکھنے لگے

اور وہ تینوں لڑکیوں کو گھورنے لگے۔

رومان بولا کیا تکلیف ہے آرام سے نہیں بول سکتی تم چیخنا ضروری ہے کیا۔

 سہراب ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہورہا تھا اور بتا رہا تھا کہ کیا سین تھا جب وہ کلاس سے نکالے گئے تھے۔

جب سب کو اذہان کے کارنامے کا پتہ چلا تو سارے زور زور سے ہنسنے لگے

صائب بولا اب بس کرو اور گھر کے لیے نکو لیٹ ہو گئے تو گھر سے بھی تم سب کو جوتے ہی پڑیں گے اس بات پر سارے لڑکے ہی تڑپ گئے ۔ ۔ ۔ ۔

فہیم بولا یار یہ بدعا تو مت دو تم دوست ہو کہ دشمن ۔ ۔

بس ہوگیا تمہارا چلو اب نکلو یہاں سے صائب نے اسکی باتوں کو نظر انداز کیا اور نکلنے کے لیے کہا۔۔

سب نے اک دوسرے کو اللہ حافظ کہا اور سب گھر کے لیے نکلنے لگے سب سے پہلے رمضیہ اور فائقہ نکلیں ان دونوں کا گھر ایک دوسرے کے گھر کے قریب تھا اسلیے وہ ساتھ جاتی تھیں ۔ ۔

پھر سہراب اور صنوبر نکلے وہ ساتھ ہی آتے جاتے تھے

انکے بعد اذہان فہیم اور رومان نکلے اور آخر میں ارتضی اور صائب گھر کے لیے روانہ ہوئے۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 1 by Aleena Meer

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی رمضیہ گھر پہنچی ہی تھی اور سلام کر کے اندر آئی ۔ ۔

وہ اپنے کمرے میں جانے ہی لگی تھی کہ روحیل وقاص کے کمرے سے لوگوں کی با توں کی آواز سن کر اسکے قدم بے ساختہ انکے کمرے کی طرف بڑھے ۔

وہ اندر آئی اور سب کو دیکھا انجان لوگ تھے اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا انہیں ۔ ۔

ارے رمضیہ بچے آگئی آپ روحیل وقاص کی نظر اس پر پڑی تو انہوں نے اسے بلایا ۔ ۔

ان سے ملو بیٹا یہ میں احتشام اور یہ انکی وائف زرقہ اور یہ انکے بچے ہیں سلمان اور مائرہ اور یہ ہے میری بیٹی رمضیہ ۔ ۔

اسنے فوراً اسلام کیا اسکے اردگرد خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں تھیں کچھ تھا جو غلط ہورہا تھا پر کیا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ ۔ 

سب نے اسکے سلام کا جواب دیاز رقہ بیگم نے اسے پاس بٹھایا اور چھوٹے موٹے سوالات کر تیں رہیں اور وہ غائب دماغی سے جواب دیتی رہی ۔

تھوڑی دیر بعد وہ لوگ چلے گئے ۔ ۔ ۔ ۔

رمضیہ نے پوچھا باباکون تھے یہ اور کیوں آئے تھے ۔ ۔ ۔

روحیل صاحب بولے بیٹا یہ میرا بچپن کا دوست تھا احتشام دبئی میں رہتا تھا فیملی کے ساتھ کچھ دن پہلے ہی پاکستان شفٹ ہوا ہے وہ اپنے بیٹے کی شادی کرا چاہتے ہیں اس کے لیے لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں ۔ ۔

تو یہاں کیوں آئے تھے بابار مضیر نے پریشانی سے پوچھا ۔ ۔

بیٹاوہ آپکے لئے آئے تھے ۔

میرے لیے پر میرے لیے کیوں وہ حیران ہوئی ۔ ۔ ۔

بیٹا وہ آپ کے لیے رشتہ لائے تھے ۔ ۔ ۔ 

میرے لیے رشتہ پر کیوں بابا مجھے نہیں کرنی ابھی شادی مجھے پڑھنا ہے وہ روتے ہوئے بولی ۔ ۔ ۔

روحیل صاحب نے اسے گلے لگایا اور بولے ارے ابھی کو نسا شادی کر رہے ہیں ابھی تو بس رشتے کی بات ہوئی ہے صرف رشتہ ہو گا اور شادی پھر جب آپکی پڑھائی کمپلیٹ ہو جائے گی تب اور آپ ان کو بہت پسند آئیں ہیں اور رمضیہ کو لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی یہ سب کیا ہو گیا تھا ایسا تو اسنے سوچا ہی نہیں تھا۔

رضیہ جب سے روحیل وقاص کے کمرے سے آئی تھی تب سے اپنے کمرے میں ہی بند تھی ۔ ۔ ۔

اس نے کھانا بھی نہیں کھایا اب شام ہورہی تھی پر اسکے لیے تو جیسے وقت ٹھہر سا گیا تھا ۔ ۔

Yara Teri Yari Novel Part 1 by Aleena Meer

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افق آفس سے آ کر جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی گھر میں غیر معمولی خاموشی دیکھ کر پریشان ہوگئی ۔ ۔ ۔ ۔

وہ فوراً بابا کے روم میں گئی تو دیکھا وہ اپنے روم میں نہیں تھے وہ وہاں سے نکل کر رمضیہ کو آواز دیتی ہوئی ۔

اپنے اور رمضیہ کے مشترکہ کمرے کی طرف آئی پر جیسے ہی اس نے دروازہ کھولنا چاہا تو دروازہ نا کھلا وہ پریشان ہو گئی کہ بابا پتہ نہیں کہاں گئے ہیں اور اب رمضیہ بھی جواب نہیں دے رہی اور تو اور کمرے کا دروازہ بھی لاکڈ ہے ایسا تو آج سے پہلے کبھی نا ہوا اس سے پہلے کہ وہ کچھ سوچتی رمضیہ نے دروازہ کھول دیا اور واپس بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی۔

کیا بات ہے گڑیا ایسے روم لاک کر کے کیوں بیٹھی تھی اور بایا بھی گھر نہیں میں پتہ ہے میں کتنی پریشان ہو گئی تھی افق فوراً اسکے پاس آ کر بولی ۔ ۔ ۔

رمضیہ چہرہ جھکا کر بیٹھی تھی ایسے ہی جھکے سر کے ساتھ اس نے افق کو سلام کیا ۔ ۔ ۔

اسلام و علیکم آپی سوری مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ ۔ ۔

افق جو اس کی طرف دیکھ رہی تھی اسے لگا کہ رمضیہ رو رہی ہے اسنے رمضیہ کا چہرہ اوپر کیا اور بولی ۔ ۔ ۔

و علیکم السلام کوئی بات نہیں سوری نہیں کرو اور یہ بتاؤ تم روکیوں رہی ہو کچھ ہوا ہے کیا ۔ ۔ ۔ ۔

رمضیہ جو چپ بیٹھی تھی دوبارہ رونے لگی ۔ ۔ ۔ ۔

افق پریشان ہوگئی گڑیا پلیز بتاؤ نا کیا ہوا ہے ایسے بچوں کی طرح کیوں رو رہی و۔

رمضیہ نے فوراً اپنے آنسو صاف کیے اور ساری بات افق کو بتادی ۔ ۔ ۔ ۔

افق  نے گہر اسانس لیا پھر بولی پاگل ہو تم بھی اتنی سی بات کے لیے بھی کوئی روتا ہے

رمضیہ تڑپ گئی آپی یہ چھوٹی بات نہیں ہے ۔

اتنی بڑی بات بھی نہیں ہے کہ تم یہاں آنسووں کی ندیاں بہانے لگ جاؤ افق نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔ ۔

بی یار مجھے نہیں کرنی شادی وادی پلیز مجھے پڑھنا ہے اور شادی ضروری نہیں ہے اگر نہیں بھی ہوگی تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی ۔ 

رمضیہ کبھی نا کبھی تو شادی کرنی ہی ہے نا کب تک ہمارے بابا ہمارا بوجھ اٹھاتے رہیں گے اور ماں باپ کی زمیداری ہوتی ہے اولاد کی شادی افق نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا ۔ ۔ 

رمضیہ نے بیزاری سے کہا آپی میں نہیں بوجھ بنوں گی کسی پر اور آپ کی ہوگی ناشادی تو بس مجھے فورس نہیں کریں ۔

کیا تم کسی کو پسند کرتی ہوافق نے سختی سے پوچھا ۔

نہیں آپی ایسا کچھ بھی نہیں ہے رمضیہ گھبرا گئی ۔ 

ایسا نہیں ہے تو پھر کیا وجہ انکار کی افتق نے جانچتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔

رمضیر نے افق کا ہاتھ پکڑ کر کہا آپی بس مجھے نہیں کرنی شادی پلیز ۔ ۔

اچھا ٹھیک ہے ہم بعد میں اس بارے میں بات کریں گے میں زرا فریش ہو جاؤں بابا کال کر کے پوچھو کہاں ہیں پھر چائے بناتی ہوں آجاؤ تم بھی پھر ساتھ بیٹھ کر چائے پیئیں گے افق چلی گئی ۔

اور رمضیہ روحیل وقاص کو کال ملانے لگی ۔

ایسا نہیں تھا کہ رمضیہ کسی کی محبت میں شادی سے انکار کر رہی تھی بس شادی کا کبھی اس نے سوچا ہی نہیں اس کی زندگی اپنے بابا بہن اور دوستوں کے گرد گھومتی تھی ۔  

اب اچانک اس کی شادی کی بات چھڑی تو وہ بوکھلا گئی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسا ردعمل ظاہر کرے۔

اذہان اپنے روم میں لیٹا سونگ سن رہا تھا ۔ ۔

Yara Teri Yari Novel Part 1 by Aleena Meer

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 آپ ابھی تک لیٹے ہوئے ہیں اٹھ جائیں جلدی ماما کب سے بلا رہیں ہیں رانیہ اذہان کو پانچویں دفعہ بلانے آئی تھی پر اسے اب تک ویسے ہی لیٹے دیکھ کر بیزاری سے بولی ۔ ۔

او و وہ یار تم کیا بار بار میرے سر پر موت کے فرشتے کی طرح مسلط ہو جاتی ہو آ جاتا ہوں نا میں ۔

اذبان جو مزے سے سونگ سن رہا تھا رانیہ کی آواز سن کر بد مزہ ہوتے ہوئے بولا ۔ ۔ ۔

کیا کہا میں موت کا فرشتہ رک جائیں آپ میں ابھی بابا کو بتاتی ہوں ۔

رانیہ پہلے تو اس کو گھورتی رہی پھر دھمکی دیتے ہوئے بولی ۔

اذہان فورا سے اٹھ بیٹھا ارے یار میں تو ویسے ہی کہ رہا تھا پلیز بابا سے کچھ نا کہنا ۔

رانیہ نے اپنی ہنسی دبائی اور کہنے لگی نہیں میں تو ضرور بتاؤں گی بابا کو پھر اپنی خیر منانا آپ۔

ارے میری ماں آئسکریم کھلاؤں گا نا تمہاری فیوریٹ پلیز اب اپنامنہ بند رکھنا ۔

اذہان نے اسکے آگے ہاتھ جوڑے ۔ ۔ ۔

رانیہ کی تو دلی مراد بر آئی تھی اس نے فوراََ کہا ٹھیک ہے نہیں بتاؤں گی بھائی کیا یا د کریں گے کس سخی سے پالا پڑا ہے ..

اچھا میں جارہی ہوں نیچے اور آپ بھی جلدی آجائیں ۔ 

اذہان نے سر جھٹکا اور بولا ہنہ چڑیل کہیں کی ۔ 

پتہ نہیں میرے سامنے کیسے اسکی زبان چلتی ہے ۔

باقی سب کے سامنے تو ذرا بھی کا نفیڈینس نہیں میری بہن میں اذہان کا کہنا بھی ٹھیک تھا رانیہ صرف اس سے فری تھی یہاں تک کہ ماں باپ سے بھی زیادہ وہ اذہان کے قریب تھی ۔ ۔

Yara Teri Yari Novel Part 1 by Aleena Meer

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سہراب نے گھر میں داخل ہوتے ساتھ سلام کیا جیسے ہی لاؤنج میں قدم رکھا اڑتا ہوا ٹی۔وی کا ریموٹ اسکے سر پر آ کر لگا ۔

پہلے تو وہ سمجھنے کی کو شش کر تا رہا کہ ہو کیا ۔ 

پر جب سب کو ہنستے ہوئے دیکھا تو صنوبر کی طرف دیکھا جو سب سے زیادہ ہنس رہی تھی ۔

فوراً سکی طرف آیا اور غصے سے بولا یہ کیا بد تمیزی ہے زوبیہ ۔

صنوبر ڈر کر پیچھے ہوئی اور ہمت کر کے بولی ۔ ۔

کون سی بد تمیزی ساتھ آ نکھیں پٹپٹائی۔

زوبیہ کی بچی باز آجاؤ اپنی حرکتوں سے تم سہراب نے گھورتے ہوئے کہا اور وہاں سے اپنے روم میں چلا گیا ۔ ۔ ۔

صنوبر کیا کرتی ہو تم ابھی ابھی گھر آیا تھا بچہ اور تم نے آتے ساتھ ہی اسے تنگ کرنا شروع کر دیا زوبیہ کی امی نے زوبیہ کولتاڑا۔ ۔

صنوبر زچ ہوتے ہوئے کہنے لگی افففف ہو امی جسے آپ بچہ کہ رہیں میں ناوہ پورے چھبیں سال کا ہے بچہ کہاں سے ہوا بھلا ۔ 

سہراب کی امی نے صنوبر کو پاس بٹھایا اور اپنی دیورانی واجدہ سے کہنے لگیں بس بھی کرو بچی کے پیچھے ہی پڑ جاتی ہو تم ۔ ۔ 

صنوبر نے اپنی تائی امی کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا تائی امی آپ مجھے اپنی بیٹی بنالیں میری امی تو مجھ سے پیار ہی نہیں کرتیں۔

ہاں ہاں میرا بچہ میں آج ہی بات کرتی ہوں تم میری ہی بیٹی ہو تائی امی نے اسے تسلی دی وہ شروع سے ہی صنوبر کو سہراب کی دلہن کے روپ میں دیکھتیں تھیں اسلئے انہوں نے آج ہی اپنے شوہر اور دیور سے سہراب اور صنوبر کے رشتے کی بات کرنے کا سوچا ۔ ۔ ۔ ۔

سچ میں تائی امی آپ مجھے اپنی بیٹی بنائیں گی صنوبر نے جلدی سے پوچھا ۔ ۔

سہراب کی بھابھیاں بھی ہنس رہیں تھیں انہوں نے بھی تسلی دلائی ہاں ہاں امی تمہیں بنالیں گی اپنی بیٹی کیوں کہ وہ بھی جانتی تھیں اپنی ساس کے دل کی بات ۔ ۔

اور واجدہ بیگم کا دل کیا اپنا سر پیٹ لیں صنوبر جوبات کا مطلب سمجھتی نہیں تھی اور بک بک شروع کر دیتی تھی واجدہ بیگم اپنی بیٹی کی بیوقوفیوں سے بہت تنگ تھیں۔۔۔

                               

             (جاری ہے)






Yara Teri Yari  Novel Part 1 by Aleena Meer, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, 


No comments:

Post a Comment