Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak - Farhan Speak

Saturday, September 2, 2023

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

  السلام علیکم! کیسے ہیں آپ سب؟

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels,
Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

نام ناول : یارا تیری یاری

ازقلم : الینا میر

قسط نمبر: 2


زوبیہ میرے کمرے میں چائے کا کپ دے جاؤ سہراب نے کمرے سے ہی زوبیہ کو آواز دی۔

زوبیہ جو کچن میں تھی وہیں سے آواز لگا کر بولی۔

میں نہیں آ رہی تم خود باہر آجاؤ۔

پھر سہراب کی بڑی بھابھی سے کہنے گی کہ ہانا بھا بھی آپ کا دیور بہت بڈحرام ہے مجال ہے کہ خود ہل کر پانی بھی پی لے وہ بھی نواب صاحب کو بیڈ پر چاہیے۔

اس سے پہلے کہ بھابھی کوئی جواب دیتیں سہراب جو کافی دیر سے اس کی باتیں سن رہا تھا فوراً اندر آیا اور بولا پیٹھ پیچھے بات کرنے والا جہنمی ہو تا ہے

صنوبر جوا پنے دھیان میں سہراب کی عزت افزائی کر رہی تھی بوکھلا گئی گھبراہٹ کے مارے اسکی زبان تالو سے چپک گئی ۔

اب بولو پہلے تو بہت زبان چل رہی تھی تمہاری سہراب نے شوخ ہوتے ہوئے کہا۔

زوبیہ جو دومنٹ پہلے گھبرارہی تھی اب خود کو کافی حد تک کمپوز کر چکی تھی ۔

سہراب کی طرف دیکھ کر بولی ہاں میں بول رہی ہوں ابھی بھی میں کون سا ڈرتی ہوں تم سے۔

بار تم کبھی پیار سے بھی بات کر لیا کرو مجھ سے ہر وقت لڑتی رہتی ہو سہراب نے تھک کر کہا۔

کیا کہا میں لڑتی ہوں تمہیں شرم نہیں آتی جھوٹ بولتے ہوئے زوبیہ نے بیلن اٹھا کر سہراب کے کندھے پر مارا ۔

سہراب بیچارے کو لگا اسکا کندھا شہید ہو گیا ہے ۔

زوبیہ اللّٰہ پوچھے تمہیں کتنی ظالم ہو تم اتنی زور سے بھی کوئی مارتا ہے کیا سہراب نے غصےسے کہا۔

اب دفع ہو جاؤ باہر میں چائے لے کر آتی ہوں ورنہ سر بھی پھاڑ دوں گی تمہارا زوبیہ نے دھمکی دی ۔

سہراب نے غصے سے اسے دیکھا اور بڑ بڑاتے ہوئے کچن سے باہر چلا گیا ۔

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


رات 11 بجے کا ٹائم تھا اذہان فیم اور رومان آئسکریم کھانے باہر آئے ہوئے۔

یار اب جلدی سے باقی سب کو بھی بلا لو رومان نے اذہان سے کہا۔۔۔

اذہان نے اسے گھورا اور بولا نا میں کیا تمہیں اتنا امیر لگتا ہوں کہ تم مجھے بول رہے ہو۔

او ہاں میں تو بھول ہی گیا تھا تم وہی ہو جو ہمارے پیسوں پر دعوتیں اڑاتے ہو رومان نے جل کر کہا ۔ ۔

فہیم نے انہیں بحث کرتے دیکھا تو بولا اب بس کرو میں بلا لیتا ہوں سب کو کال کر کے فہیم نے پہلے سہراب کو کال کی اور کہا کہ وہ اذہان اور رومان آئسکریم کھانے باہر آئیں ہیں تو وہ بھی صنوبر کولے کر آ جائے اور ساتھ رمضیہ اور فائقہ کو بھی اٹھا لائے ۔

ابے اوئے تجھے کیا میں ایسا ویسا لگتا ہوں جو تو مجھے لڑکیاں اٹھانے کا بول رہا ہے سہراب نے جل کر کہا ۔

فہیم نے ہنستے ہوئے کہا میری جان ان کو بھی ساتھ لے آ میرا کہنے کا یہ مطلب تھا ۔

سہراب نے کہا اچھا میں کہتا ہوں زوبیہ کو وہ کرتی ہے ان کو کال پھر آتے ہیں ہم ۔ 

فہیم نے جیسے ہی کال بند کی اذہان بولا کیا کہ رہا تھا سہراب۔

ہاں وہ کہ رہا ہے ہم آتے ہیں ۔

ہممم تو وہ رضیہ سلطانہ آ رہی ہے کہ نہیں ۔ 

 یہ تواب سہراب آئے گا تو پتہ چلے گا فہیم نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔ 

پھر اسنے ارتضی اور صائب کو بھی کال کر کے بلا لیا.

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

سہراب نے زوبیہ کے روم میں آ کر اس کو ریڈی ہونے کا کہا ۔ 

کیوں بھئی کہاں جانا ہے زوبیہ نے حیران ہو کر پوچھا ۔ 

فیم کی کال آئی تھی کہ رہا ہے آئسکریم کھانے باہر آئیں ہے وہ سب تو تم لوگ بھی آجاؤ ۔  

اب چلو جلدی سے ریڈی ہو جاؤ اور رمضیہ اور فائقہ کو بھی کال کر وان کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے سہراب نے تفصیل سے بتایا ۔  

اچھا میں کرتی ہوں کال زوبیہ نے موبائل اٹھایا اور کانفرنس کال ملائی دوسری طرف دو بیل کے بعد ہی کال اٹھالی گئی تھی سلام کے بعد زوبیہ نے رمضیہ اور فائقہ سے کہا کہ وہ دونوں ریڈی ہو جائیں ۔

پر رمضیہ نے پوچھا کیوں ؟ ؟

زوبیہ نے کہا آئسکریم کھانے جارہے ہیں تم لوگوں کو بھی ساتھ لے کر جانا ہے

رمضیہ نے منع کر دیا نہیں میں نہیں جارہی تم لوگ جاؤ فائقہ نے بھی کہا ہاں میں بھی نہیں جارہی ۔

زوبیہ نے ان کی ایک نا سنی اور بولی دس منٹ میں ریڈی ہو جاؤ میں آرہی ہوں ورنہ ایسے ہی اٹھا کر لے جاؤں گی زوبیہ نے دھمکی دی.

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

رمضیہ اپنے روم سے نکل کر نیچے اپنے بابا کہ روم میں آئی وہ جاگ رہے تھے ۔ ۔

رمضیہ دروازہ بجا کر اندر آئی اور بولی بابا سب آ ئیسکریم کھانے جارہے ہیں مجھے بھی ساتھ چلنے کا بول رہے ہیں ۔ ۔

روحیل وقاص کوئی کتاب پڑھ رہے تھے انہوں نے پوچھا سب کون ؟

بابا وہ میرے سب دوست رمضیہ نے جلدی سے کہا ۔ 

اچھا ٹھیک ہے جاؤ پر دھیان سے جانا اور جلدی واپس آنا ۔

جی با با جلدی آجاؤں گی

کس کے ساتھ جاؤ گی روحیل وقاص نے پوچھا ۔

رمضیہ جو اپنے روم میں جانے لگی تھی کہنے لگی بابا وہ صنوبر آ رہی ہے میں اور فائقہ اسی کے ساتھ جائیں گی.

روحیل  وقاص  مطمئن ہو گئے اور دوبارہ کتاب کا مطالعہ کرنے لگے

رضیہ اپنے روم میں آئی اور جلدی سے سٹالر سر پر لپیٹا اور روم سے باہر آ گئی افق سورہی تھی ورنہ رمضیہ اس کو بھی بتا کر جاتی ۔ ۔ ۔

رمضیہ لاؤنج میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگی ۔

ویسے تو رمضیہ کو اس ٹائم کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں تھی سوائے اسکے دوستوں کے وہ بھی اس لئے کہ ان سب کو اور انکی فیملی کو وہ اچھے سے جانتے تھے ۔ ۔

رمضیہ کو لاؤنج میں بیٹھے ہوئے پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ صنوبر کی کال آ گئی اس نے جلدی سے کال کاٹی اورا پنا پرس اٹھا کر باہر آگئی اس  نے جیسے ہی گیٹ کھولا سا منے ہی کار میں سہراب صنوبر اور فائقہ کو بیٹھے دیکھا وہ بھی جلدی سے گیٹ بند کر کے آئی اور سب کو سلام کر کے پیچھے فائقہ کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔۔۔

ڈرائیونگ سیٹ پر سہراب بیٹھا تھا اور اس کے ساتھ صنوبر بیٹھی تھی سہراب ان کو لے کر وہاں سے نکلا ۔ ۔

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

ارتضی اور صائب بھی پہنچ چکے تھے اب بس سہراب والوں کا انتظار تھا ۔ 

سہراب کب تک پہنچ جائے گا ارتضی نے رومان سے پوچھا ۔ ۔

بس پہنچنے والے ہوں گے وہ لوگ رومان کی بجائے فہیم نے جواب دیا ۔ ۔

کیا مطلب وہ لوگ؟؟ صائب جو موبائل پر بزی تھا فہیم کو دیکھتے ہوئے بولا ۔ ۔ ۔

فہیم نے کہا صنوبر رمضیہ اور فائقہ بھی ہیں ساتھ ۔ ۔ ۔

اس سے پہلے کہ وہ لوگ مزید کوئی بات کرتے سامنے سے آتے سہراب پر اذہان کی نظر پڑی چلو آ گیا سہراب بھی اذہان نے شکر ادا کرنے والے انداز میں کہا۔

وہ سب بیٹھے آئسکریم کھارہے تھے جب اچانک صنوبر رمضیہ سے بولی تمہیں پتہ ہے تائی امی مجھے اپنی بیٹی بنانے لگیں ہیں اس نے بتایا تو رمضیہ کو تھا پر اس کی آواز اتنی اونچی ضرور تھی کہ وہاں بیٹھے سب لوگ بآسانی سن سکیں ۔ ۔

رمضیہ اور فائقہ نے فوراً اپنی مسکراہٹ چھپائی کیونکہ وہ دونوں ہی اس بات کا مطلب اچھے سے سمجھ گئیں تھیں ۔

مگر ہائے رے ہماری معصوم صنوبر جو بنا سوچے سمجھے کچھ بھی بول دیتی تھی ۔

سہراب کا دل کیا صنوبر کو شوٹ کر دے کبھی جو وہ لڑکی اسے شرمندہ کروانے سے باز آجائے ۔

سارے لڑکے سہراب کی طرف دیکھ کر مسکرارہے تھے ۔

آئسکریم کھاؤ زوبیہ میلٹ ہو رہی ہے اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ کوئی گل افشانی کرتی سہراب نے اسکی توجہ آئسکریم کی طرف دلوائی ۔

اذہان جو کب سے شرارتی نظروں سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا اچانک بولا ویسے صنوبر تم تائی امی کی بیٹی بنو گی تو اس کا مطلب سہراب تمہارا بھائی ہوگا ...

لاحول ولا قوه سہراب نے زیر لب کہا اور اذہان کو گھورا ۔ ۔ ۔

جو اب صنوبر کے جواب کا منتظر تھا رومان اور ارتضیٰ ہنس ہنس کر پاگل ہورہے تھے ۔ ۔

زوبیہ نے دہل کر اسے دیکھا اور کہنے لگی اللّٰہ نہ کرے  یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں کہ اگر میں تائی امی کی بیٹی بنوں گی تو مجھے سہراب کی بہن بھی بننا پڑے گا۔

اذہان نے کہا تو اب سوچ لو ۔ ۔ ۔ 

نہیں نہیں مجھے نہیں بننا اس ہٹلر کی بہن میں صرف تائی امی کی بیٹی بنوں گی ۔ ۔

ہاں بن جانا تائی امی کی بیٹی اب تم سب بھی گھر کے لیے نکلو کافی ٹائم ہوگیا ہے صبح یونی بھی جانا ہے صائب نے سب کو اٹھنے کا بولا اور خود آئسکریم کا بل دینے چلا گیا ۔ ۔

میں تمہیں ڈراپ کر دوں ارتضی نے سب سے نظر بچا کر فائقہ سے پوچھا ۔ ۔

نہیں نہیں سہراب ڈراپ کر دے گا مجھے اور رمضیہ کو فائقہ نے گھبراتے ہوئے کہا۔

یار تم تو ایسے گھبراتی ہو جیسے میں تمہیں کھانے لگا ہوں ارتضی نے افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔ ۔

فائقہ نے کوئی جواب نہ دیا اور رمضیہ کے ساتھ آ کر کھڑی ہو گئی۔

صائب بل دے کر باہر آیا تو انہیں ویسے ہی باہر کھڑے دیکھ کر بولا تم لوگ نکلے نہیں ابھی تک ۔۔۔

نہیں بس تمہارا انتظار کر رہے تھے کہ تم آؤ تو ساتھ نکلتے ہیں ارتضی نے کہا ۔

ہممم سہراب تم نکلو ان لڑکیوں کو لے کر پہلے صائب نے سہراب سے کہا ۔ ۔

رمضیہ صنوبر اور فائقہ نے سب کو اللّٰہ حافظ کہا اور سہراب کی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئیں سہراب بھی سب سے مل کر گاڑی میں آ کر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگا ۔ ۔

سہراب کے نکلتے ہی اذہان فہیم اور رومان بھی وہاں سے نکلے اس کے بعد ہمیشہ کی طرح آخر میں ارتضی اور صائب بھی گھر کی طرف روانہ ہوئے ان سب کی ایک اچھی عادت تھی وہ سب جب بھی ملتے تھے تو سلام کرتے تھے اور جب الگ

ہوتے تھے تو اللّٰہ حافظ یعنی ایک دوسرے کو اللّٰہ کی امان میں دے دیتے تھے ۔

یہ سب رمضیہ کی بدولت تھا کہ اسنے ہی سب کو یہ عادت ڈالی تھی وہ چاہے دن میں دس بار ملیں یا بات کریں پر پہل انہوں نے سلام سے ہی کرنی ہوتی تھی۔

وہ سب ناصرف پانچ وقت کی نماز پڑھتے تھے بلکہ ان کی صبح بھی تلاوت قرآن پاک سے ہوتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن وہ تینوں سب سے پہلے یونی پہنچی تھیں اور اب گراؤنڈ میں کھڑی باقی سب کا انتظار کر رہیں تھیں ۔ ۔

ویسے یار میں نا ایک بات سوچ رہی تھی فائقہ نے رمضیہ اور صنوبر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ ۔ 

کیا ؟ ؟ دونوں نے اک ساتھ پوچھا ۔ ۔ ۔

کتنا ٹائم ہو گیا ہے فیملی میں کوئی شادی نہیں ہوئی فائقہ نے اداسی سے کہا ۔ ۔ 

صنوبر بولی تو تم کر والو شادی رمضیہ نے بھی کہا ہاں تم کر والو شادی اسی بہانے ہم بھی انجوائے کر لیں گے ۔

وہ ان دونوں کو گھور کے کہنے لگی ڈفر میں کسی اور کی شادی کر رہی ہوں جو میں انجوائے کر سکوں اپنی شادی کیسے انجوائے کر سکوں گی میں ۔ ۔ ۔

اچھا اچھا کہ تو تم ٹھیک رہی ہو ویسے رمضیہ نے کہا ۔ ۔  کلاس میں چلتے ہیں ٹا ئم ہو رہا ہے سہراب والے پتہ نہیں کب آئیں گے ہماری کلاس نا مس ہو جائے انکے چکر میں صنوبر نے بیزاری سے کہا ۔ ۔ ۔ 

ہاں چلو فائقہ نے بھی کہا اور وہ تینوں کلاس کی طرف بڑھیں وہ تینوں کلاس میں اینٹر ہوئیں اور لاسٹ رو میں جا کر بیٹھ گئی ۔ ۔ ۔

وہ تینوں ابھی بیٹھیں ہی تھیں کہ مس نائلہ کلاس میں آئیں ۔

سٹوڈنٹس ۔ ۔ ۔ مس نائلہ نے اونچی آواز میں کہا ۔

سارے سٹوڈنٹس سیدھے ہو کر بیٹھ گئے ۔ ۔ ۔

مس نائلہ نے کہا ابھی پر نسپل ہیڈ کا میسج ملا ہے کہ فائنل ائیر کے سٹوڈنٹس کا ٹرپ نادرن ایریاز لے جایا جائے ۔ ۔ ۔

سٹوڈنٹس اپنی سیٹ سے اٹھ کر شور مچانے لگے کوئی ناچ رہا تھا کوئی ڈیسک بجا رہا تھا کوئی گا رہا تھا۔

بس کریں سب اور شرافت سے اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں مس نائلہ نے غصے سے کہا ۔

سب سٹوڈنٹس تمیز کا مظاہرہ کرتے ہوئے واپس اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے 

مس نائلہ نے دوبارہ سے کہا کسی نے کچھ پوچھنا ہے تو پوچھ سکتا ہے ۔

صنوبر کھڑی ہوئی اور بولی میم کب جانا ہے ۔

نیکسٹ منتھ کے فرسٹ ویک میں مس نائلہ نے جواب دیا ۔ ۔ ۔

اوووہ ابھی تو ٹا ئم ہے فائقہ اور رمضیہ نے کہا ۔ ۔

اسکے بعد مس نائلہ چلی گئیں اور وہ تینوں بھی کلاس سے باہر آ گئیں کہ اب پڑھائی تو ہونی نہیں تھی صنوبر ان سے آگے بھاگی کیونکہ اسے جلدی تھی سہراب کو بتانے کی

رمضیہ اور فائقہ اسکی جلد بازی پر ہنسیں اور گراؤنڈ کی طرف چلی گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صنوبر سہراب کو ڈھونڈتی ہوئی ان کی کلاس کی طرف آئی پر اسے سہراب نظر نا آیا باقی دوستوں میں سے بھی کوئی نا تھا۔

افففف اب کہاں ڈھونڈوں صنوبر منہ میں بڑ بڑائی ۔

وہ وآپس مڑنے لگی تھی جب اس کی نظر زوہیب پر پڑی ۔

اسلام و علیکم تمہیں پتہ ہے کہ سہراب کہاں ہے اسنے زوہیب سے پوچھا زوہیب اپنے دھیان میں بیٹھا چونک کر سیدھا ہوا اور صنوبر کو دیکھ کر بولا ۔

وعلیکم السلام ہاں وہ گراؤنڈ کی طرف گیا ہے ۔ ۔

اچھا شکر یہ صنوبر نے جلدی سے کہا اور وہاں سے بھاگی ۔ ۔ ۔

زوہیب تب تک اسے دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نا ہوگئی پاگل زوہیب نے ہنستے ہوئے سر جھٹکا اور خود بھی گراؤنڈ کی طرف چل دیا۔

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صنوبر جیسے ہی گراؤنڈ میں آئی اسے سامنے ہی درختوں کے سائے میں وہ سب بیٹھے نظر آئے رمضیہ اور فائقہ بھی وہیں تھیں وہ بھی ان کے قریب آ گئی ۔ ۔

اففف تم دونوں بھی ادھر ہو مجھے بھی لے آتی اپنے ساتھ صنوبر نے منہ بنا کر کہا اور انکے پاس ہی بیٹھ گئی ۔ ۔ 

فائقہ نے مصنوعی غصے سے کہا تمہیں خود جلدی تھی سہراب کو بتانے کی اب اس میں ہماری کیا غلطی اچھا ٹھیک ہے چھوڑو اب تو آگئی ہو نا تم زوبیہ بتاؤ کیا بتانا تھا تم نے مجھے سہراب نے زوبیہ سے پوچھا۔

ہاں میں تو بھول ہی گئی وہ نا تمہیں پتا ہے ٹرپ جانا ہے ہمارا مس نائلہ نے بتایا ہے زوبیہ نے جلدی سے بتایا ۔ ۔ ۔

زوبیہ میرا خیال ہے ہم بھی تمہارے ہی ساتھ اس یونی میں پڑھ رہیں ہیں اور جو بات تمہیں پتہ لازمی بات ہے کہ وہ ہمیں بھی پتہ ہوگی تمہیں نہیں لگتا ایسا ؟ ؟ ؟ اذہان نے بیزاری سے کہا اب سارے اپنی ہنسی کنٹرول کرنے میں بے حال ہو رہے تھے ۔ ۔ ۔

اور زوبیہ اب غصے سے سہراب کو دیکھ رہی تھی جو بس زوبیہ کو ہی دیکھ رھا تھا اور اتنی توجہ سے اس کی بات سن رہا تھا جیسے زوبیہ نا بتاتی تو اس کا پتہ نہیں کتنا نقصان ہو جاتا ۔ ۔ ۔

سہراب کے بچے تم بتا نہیں سکتے تھے کہ تمہیں یہ بات پتہ ہے سب کے سامنے میرا مذاق بنا دیا تم نے زوبیہ نے چیخ کر کہا ۔ ۔ ۔

یار مجھے نہیں پتہ تھا سچ میں تم نے بتایا تو مجھے پتہ چلا ہے سہراب نے زوبیہ کو دیکھتے ہوئے کہا جو رونے والی ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔

نہیں تم جان بوجھ کے میرا مذاق اڑاتے ہو جاؤ اب کبھی بھی بات نہیں کروں گی تم سے میں زوبیہ نے دھمکی دی ۔ ۔ ۔

اذبان بولا ہاں بلکل سہی کہ رہی ہو تم اس کو معاف نہیں کرنا یہ ہمیشہ تمہارا مزاق اڑاتا ہے۔

سہراب جو صنوبر کو منا رہا تھا فوراً اذہان کی طرف لپکا ۔ ۔ ۔

ابے رک تجھے میں بتاتا ہوں یہ سب آگ تیری لگائی ہوئی ہے

اس سے پہلے کہ سہراب اذہان کو پکڑتا اذبان اسے منہ چڑاتا ہوا بھاگ نکلا ۔ ۔ ۔

پیچھے سب ہنس رہے تھے فہیم اور رومان بھی ان کے پیچھے چلے گئے۔

ارتضی بولا ویسے تم لوگوں میں سے کون کون جا رہا ہے ۔

صنوبر بولی ہم سب جائیں گی ۔ ۔

ارتضی کا بس نہیں چل رہا تھا خوشی سے ناچنے ہی لگ جائے ۔

اچھا تم لوگوں میں سے کون کون جائے گار مضیہ نے پوچھا ۔ ۔

ہم بھی سب جائیں گے ارتضی نے دانت نکالتے ہوئے کہا ۔

نہیں میرا پکا نہیں ہے کہ میں جاؤں صائب نے کہا ۔ ۔

کیوں ؟ ؟ ؟ ان سب نے اک ساتھ پوچھا ۔ ۔ ۔

نیکسٹ منتھ کچھ کام ہے مجھے اسلام آباد جا نا ہے صائب نے رمضیہ کو دیکھتے ہوئے بتایا ۔ ۔ ۔

چلو کوئی نہیں جب تک تمہارا کام بھی ہو جائے گا ابھی بہت دن ہیں ارتضی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کیا ۔ ۔ ۔

چلو یار اذہان والوں کو دیکھیں چل کے کہیں کوئی ہڈی پسلی نا کریک کر دی ہو سہراب نے اس کی سب سے پہلے فائقہ اٹھی اور وہ سب گراؤنڈ سے نکل کر کینٹین والی سائیڈ پر آئے رمضیہ ہی نے کہا تھا کینٹین چلو وہیں ہوں گے سب بقول رمضیہ کے کہ وہ لوگ سانس لیے بنارہ سکتے ہیں مگر کھائے بنا نہیں خاص کر اذہان۔۔

اور وہی ہوا جیسا رمضیہ نے کہا تھا ۔ ۔

وہ لوگ کینٹین میں جیسے ہی اینٹر ہوئے سامنے ٹیبل پر اذہان بیٹھا سموسہ کھاتا نظر آیا ساتھ ہی فہیم اور رومان بھی بیٹھے تھے سہراب نا جانے کہاں تھا ۔ ۔

رمضیہ نے صنوبر اور فائقہ کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہ رہی ہو دیکھا میں نے کہا تھا نا..

صائب اور ارتضی بھی جا کر ان کے ساتھ بیٹھ گئے وہ لوگ بھی ان کے پاس آ گئیں اور ان کے پاس ہی بیٹھ گئیں ۔

رمضیہ نے اذہان کی پلیٹ سے اک سموسہ اٹھا لیا اذہان کے تو جیسے دل پر ہاتھ پڑا تھا اس نے فوراً اپنا سموسہ لینے کے لیے رمضیہ کی طرف ہاتھ بڑھایا اس سے پہلے رمضیہ اک بائٹ لے چکی تھی۔

 رضیہ سلطانہ تم نے میرا سموسہ کھا لیا اذہان نے چیخ کر کہا ۔

رمضیہ جس نے ابھی سموسے کی ایک بائٹ ہی لی تھی کہ اذہان کے کہنے پر جلدی سے باقی بچا ہوا سموسہ بھی منہ میں ٹھونس لیا اور مزے سے اذہان کو دیکھتی کھانے لگی ۔ ۔ ۔

اذہان کی تو صدمے سے آنکھیں باہر نکلنے کو تھیں ۔

آرام سے میرے بھائی کہیں اپنی آنکھیں نا گنوا بیٹھنا ایک سموسے کے چکر میں رومان نے ہنستے ہوئے کہا ۔ ۔

صائب تم مجھے اور سموسے منگوا کر دو اذہان نے کسی ضدی بچے کی طرح منہ پھلا کر کہا ۔ ۔

صائب جو باقی سب کی طرح اس کے ڈرامے پر مسکرارہا تھا فوراً سیدھا ہو کر بیٹھا اور بولا کیا مطلب میں کیوں منگواکر دوں؟

کیونکہ رضیہ سلطانہ نے میرا سموسہ کھایا ہے رمضیہ نے اپنا بیگ اٹھا کر اذہان کے سر پر مارا اور بولی اذہان میرا نام رمضیہ ہے خبردار جو اس فضول نام سے بلایا مجھے تو اور صائب تم نا سنو اسکی بات نا منگوا کر دینا کچھ بھی اسے رمضیہ نے صائب کو وارن کیا۔

تم بہت ہی بھوکی ہو ایک تو میرا سموسہ کھا لیا اور اب اگر صائب منگوا کر دے رہا ہے تو تم وہ بھی نہیں منگوانے دے رہی اذہان نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔

اچھا میں منگوا دیتا ہوں تم لڑنا بند کرو اب صائب نے کہا اور اذہان کو سموسے منگوا کر دیے صنوبر اور فائقہ تو بس منہ کھولے ان کو ہی دیکھ رہیں تھیں اور ارتضیٰ فائقہ کو دیکھنے میں مگن تھا ۔ ۔

صنوبر نے سہراب کو آتے دیکھا تو اسے اشارہ کر کے اپنی طرف بلا لیا وہ بھی انہیں ڈھونڈتا ہوا ہی آیا تھا ادھر ۔ ۔

ہاں بھئی تم لوگوں کی تو آج آخری کلاس بھی نہیں ہے تو کیا ارادہ ہے پھر سہراب نے چئیر پر بیٹھتے ہوئے رمضیہ صنوبر اور فائقہ کو دیکھتے پوچھا ۔ ۔

گھر جائیں گے ہم اور کیا ان سے پہلے ہی اذہان بولا ۔ ۔

سہراب اسے گھورتے ہوئے جواب دینے ہی لگا تھا کہ سہراب کا موبائل بجا اس نے موبائل دیکھا تو گھر سے کال آرہی تھی اس نے سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور کال اٹھائی

سب اس کی طرف ہی دیکھ رہے تھے ۔ ۔

اسلام و علیکم ! سہراب نے کال اٹھا کر پہلے سلام کیا ۔ ۔ ۔

وعلیکم السلام! دوسری طرف سہراب کی امی تھیں جو اسے جلد از جلد ہوسپیٹل آنے کا کہ رہیں تھیں رمضیہ کے والد کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور ساتھ صنوبر اور رمضیہ کو بھی ساتھ لانے کا کہ رہیں تھیں ۔ ۔

کیا ہوا می سب خیریت تو ہے نا سہراب اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اس نے جلدی سے پوچھا باقی سب بھی اب پریشانی سے سہراب کو دیکھ رہے تھے ۔ ۔ ۔

ٹھیک ہے امی میں آتا ہوں ان کو لے کر اللّٰہ حافظ سہراب نے جلدی سے بات ختم کر کے کال کاٹی ۔ ۔

کیا ہوا سہراب تائی امی کیا کہ رہیں تھیں صنوبر نے پوچھا ۔

سہراب کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ کیسے بتائے ۔

بتاؤ نا سہراب صنوبر نے دوبارہ پوچھا ۔ 

سب اس کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے تھے اور اس کے جواب کے منتظر تھے ۔ 

وہ امی ہمیں ہو سپیٹل آنے کا کہ رہیں تھیں سہراب نے دھیرے سے بتایا ۔ 

کیوں ہوسپیٹل کیوں صائب نے پوچھا سب خیریت ہے نا کون ہے ہوسپیٹل میں سہراب سے بولا ہی نہیں جا رہا تھا ۔ ۔

ہمت کر کے بولا رمضیہ کے بابا رمضیہ کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے اس نے دوبارہ سہراب کی طرف دیکھا جواب رمضیہ کو کہ رہا تھا انکل کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ۔

رمضیہ کو لگا اس کا دل بند ہو جائے گا وہ جلدی سے ان سب کو پیچھے کرتے ہوئے گیٹ کی طرف بھاگی وہ سب بھی اس کے پیچھے بھاگے سب سے آگے صائب تھا وہ پہلے رمضیہ کے پاس پہنچا اور رمضیہ کو بازو سے پکڑ کر روکا ۔ ۔ ۔

با هم - میرے ب- با ۔ بام ۔ میرے با- با ہوس ہوس پیٹل میں رمضیہ سے بولا ہی نہیں جا رہا تھا ۔ ۔ 

کچھ نہیں ہوا رمضیہ ریلیکس ہم جا رہے ہیں ہوسپیٹل انکل ٹھیک ہوں گے پریشان نا ہو صائب نے دکھ سے اسے دیکھا ۔ ۔

باقی سب بھی آ گئے تھے صنوبر اور فائقہ نے رمضیہ کو پکڑا اور وہ لوگ سہراب کی گاڑی میں بیٹھ گئیں ۔ ۔

اذہان فہیم اور رومان صائب کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھ گئے کہ ان سب نے بھی رمضیہ کے بابا کو دیکھنے ہوسپیٹل جانا تھا۔

ارتضیٰ۔۔ ۔وہ بھی صائب کی گاڑی میں بیٹھنے لگا تھا جب فائقہ کی آواز پر مڑا وہ اسے اشارے سے پاس بلا رہی تھی ۔ ۔

ارتضی سہراب کی گاڑی کے پاس گیا اور فائقہ کی طرف دیکھا اور کہا جی بولو ۔ ۔

یہ میری بائیک کی چابی ؟ فائقہ نے اپنی ہیوی بائیک کی چابی اس کی طرف بڑھائی ۔

اس کا میں کیا کروں ارتضی نے چابی اسکے ہاتھ سے لے کر پوچھا۔

 یہ تم لے جاؤ اور صبح یونی لے آنا مجھے سہراب ڈراپ کر دے گا ۔

ٹھیک ہے ارتضیٰ نے اسے دیکھا اور صائب کی گاڑی کی طرف آیا یار صائب تم لوگ جاؤ میں فائقہ کی بائیک پر آ جاتا ہوں ۔

ٹھیک ہے صائب نے اسے جواب دیتے گاڑی سٹارٹ کی اور آگے بڑھالے گیا سہراب ان سے پہلے ہی نکل گیا تھا ارتضی نے بھی بائیک سٹارٹ کی اوران کے پیچھے پیچھے آنے لگا۔۔۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

بیس منٹ میں وہ سب ہوسپیٹل کے باہر تھے رمضیہ سب سے پہلے نکلی اور بھاگتے ہوئے ہوسپیٹل کے گیٹ سے اندر آئی باقی سب بھی اس کے پیچھے آئے سہراب نے ریسیپشن پر کھڑی لڑکی سے روم کا پوچھا لڑکی نے بتایا سیکنڈ فلور پر تھرڈ روم ہے جہاں روحیل وقاص ایڈمٹ تھے ۔ ۔

وہ سب سیکنڈ فلور پر آئے روم کے باہر سہراب کا بڑا بھائی کھڑا تھا رمضیہ جلدی سے ان کی طرف بڑھی وہ سب بھی اس کے پیچھے پیچھے آئے ۔ ۔

شہیر بھیا بابا کیسے میں کیا ہوا ان کو وہ ٹھیک تو ہیں نا آپی کہاں میں رمضیہ نے ایک ہی سانس میں سارے سوال پوچھ لیے۔۔

اب ٹھیک ہیں انکل افق اند رہے انکل کے پاس آپ جاؤ اندر مل لو ان سے شہیر نے اسے کہا اور وہ روم کی طرف بڑھ گئی ۔ ۔

شہیر سہراب کا سب سے بڑا بھائی تھا ان سب سے اسے بہت محبت تھی پر صنوبر رمضنیہ اور فائقہ کو تو وہ اپنی بیٹیوں کی طرح ٹریٹ کر تا تھا ۔ ۔

کیسے ہیں انکل کیا کہا ڈاکٹرزنے رمضیہ کے اندر جانے کے بعد سہراب نے شہیر سے پوچھا ۔ ۔ ۔

ڈاکٹرز کچھ خاص پر امید نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہارٹ اٹیک لاسٹ سٹیج کا تھا اور بروقت ہوسپٹیل لانے کی وجہ سے فلحال تو طبیعت سنبھل گئی ہے پر ابھی کچھ کہ نہیں سکتے شہیر نے تفصیل سے بتایا۔

وہ سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور ان کے دماغ میں ایک ہی بات تھی کہ اگر انکل کو کچھ ہو گیا توافق اور رمضیہ کا کیا ہو گا کیسے رہیں گی وہ انکل کے بنا ۔ ۔ ۔ ۔

رمضیہ جب اندر آئی تو اسے بیڈ پر اپنے بابا لیٹے نظر آئے اور پاس ہی افق کھڑی تھی جب کہ سراب کی امی صوفے پر بیٹھیں تسبیح پڑھ رہیں تھیں ۔ ۔

افق نے سر اٹھا کر دیکھا تو رمضیہ کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں آنسوں چمکے۔ ۔ ۔

رمضیہ نے دھیمی آواز میں سلام کیا افق نے بھی دھیرے سے جواب دیا جبکہ سہراب کی امی نے سر ہلا کر سلام کا جواب دیا رمضیہ افق کے پاس آ کر اسکے گلے لگی اور رونے لگی افق آہستہ آہستہ اسے چپ کر وار ہی تھی خود پر کنٹرول کرنا بہت مشکل تھا پر وہ کر رہی تھی وہ بڑی تھی اسے ہی حوصلے سے سب برداشت کرنا تھا ۔

سہراب کی امی اٹھ کر آئیں اور رمضیہ کے سر پر ہاتھ رکھا بیٹا رو نہیں دعا کرو دعا سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔

رمضیہ نے اک نظر اپنے بابا کو دیکھا جو دواؤں کے زیراثر سورہے تھے پھر بولی میں نماز پڑھ لوں ٹائم جا رہا ہے میں آتی ہوں پھر وہ کہ کر باہر آ گئی ۔ 

سب نے اسے روم سے نکلتے دیکھا تو اس کی طرف آئے انکل کیسے ہیں رمضیہ سب نے پوچھا۔

سورہے ہیں آپی کہ رہیں تھیں پہلے سے کچھ بہتر ہیں رمضیہ نے آہستہ سے جواب دیا ۔ ۔

فائقہ نے کہا اللّٰہ پاک شفا عطا فرمائے سب نے زیر لب آمین کہا

میں نماز پڑھ کر آتی ہوں ٹھہرو ہم بھی چلتی ہیں صنوبر اور فائقہ بھی اس کے ساتھ ہی پر ئیر روم میں آ گئیں اور اب تینوں نماز ادا کر رہی تھیں ۔

سہراب نے بھائی کو بھیج دیا کہ وہ سب وہاں تھے اگر ضرورت پڑی تو بلا لیں گے شہیر کے جانے کے بعد  صائب نے ارتضی رومان فہیم اور اذہان کو بھی گھر جانے کا کہا ۔ ۔

انہوں نے انکار کیا کہ وہ گھر بتا چکے ہیں کہ وہ ہوسپٹیل میں ہیں اور رمضیہ کے بابا کی طبیعت کی وجہ پھر صائب بھی چپ کر گیا ۔ ۔

تھوڑی دیر بعد رمضیہ صنوبر اور فائقہ بھی اگئیں ۔ ۔

تم لوگ گئے نہیں ابھی تک صنوبر نے قریب آ کر پوچھا نہیں ہم ادھر ہی میں جب تک انکل ٹھیک نہیں ہو جاتے اذہان نے کہا ۔

رمضیہ نے اذہان کو دیکھا اور بولی نہیں تم لوگ جاؤ تھک گئے ہوگے بابا ٹھیک ہیں اب اگر کچھ مسئلہ ہوا تو میں بتا دوں گی ۔ ۔

کوئی بھی راضی نا تھا پر رمضیہ کے ضد کرنے پر سب نے اس کی بات مان لی۔

اذہان رومان فہیم پہلے نکلے پھر ارتضیٰ فائقہ کو لے کر نکلا کہ وہ اسے گھر ڈراپ کر دے گا اس کی بائیک سمیت اب بھی سہراب بھی اپنی امی کو روم سے لے آیا ۔ ۔

اس کا ارادہ صنوبر اور اپنی امی کو گھر چھوڑ کر دوبارہ آنے کا تھا پر رمضیہ نے منع کر دیا کہ نہیں وہ گھر ہی رہے اگر کچھ ہوا تو وہ کال کر دے گی ۔

سہراب کے جانے کے بعد رمضیہ نے صائب کو بھی کہا کہ وہ چلا جائے گھر مگر صائب نے یہ کہ کر اسے چپ کروادیا کہ رمضیہ تمہارے بابا میرے بھی کچھ لگتے ہیں میں ان کے بیٹوں جیسا ہوں اور ایک بیٹا اپنے باپ کو تکلیف میں چھوڑ کے کیسے جاسکتا ہے اس کی بات سنتی رمضیہ روپڑی ۔ ۔

اچھا بس اب رو نہیں تم اندر آپی کے پاس جاؤ میں کچھ کھانے کے لیے لاتا ہوں صائب تیز لہجے میں بولا تا کہ وہ چپ کر جائے اور وہ اندر افق کے پاس آگئی ۔ ۔

آپی یہ سب ہوا کیسے ؟ رمضیہ نے افق سے پوچھا ۔ ۔

میں آفس جانے کے لیے ریڈی ہوئی تھی جیسے ہی بابا کے روم میں گئی تو دیکھا بابا نے دل پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور تکلیف سے بے حال ہورہے تھے مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں کیا کروں پھر میں نے شہیر بھیا کو کال کی اور وہ آ گئے آنٹی کے ساتھ پھر ہم بابا کو ہوسپٹیل لے آئے افق نے آہستہ سے رمضیہ کو ساری بات بتادی ۔ ۔

صبح سے آپ ہوسپیٹل میں ہیں اور آپ مجھے اب بتا رہی ہیں آپی رمضیہ نے دکھ سے کہا۔

مجھے کچھ ہوش نہیں تھا رمضیہ بس یاد تھا تو صرف اتنا کہ اللّٰہ کے بعد اگر ہمارا کوئی سہارا ہے اس زمین پر تو وہ

ہمارے بابا ہیں اگر اللّٰہ نا کرے بابا کو کچھ ہو گیا تو ہم ۔ ۔ ۔

اس سے آگے افق سے بولا ہی نا گیا ۔ ۔

آپی پریشان نا ہوں اللّٰہ پاک سب اچھا کر دیں گے وہ ہم سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں وہ ہمیں ہماری برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیں گے رمضیہ نے افق کے آنسو صاف کیے

دروازے پر دستک دے کر صائب اندر آیا ۔ ۔

صائب تم نہیں گئے ابھی تک افق نے صائب سے کہا ۔ ۔

اسلام و علیکم ! آپی آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا بھائی آپ کو ایسے اکیلا چھوڑ کر جائے گا وہ بھی اس ٹائم صائب نے تھوڑی خفگی دکھائی 

و علیکم السلام! نہیں میرے جزباتی بھائی مجھے یقین ہے کہ تم ایسے وقت میں ہمیں چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔

افق نے پیار سے کہا ویسے تو افق کو ان سب سے انسیت تھی مگر صائب کو تو وہ اپنا سگا بھائی ہی سمجھتی تھی وجہ صائب کے بابا تھے جو اس کے بابا کے بیسٹ فرینڈ تھے وہ افق اور رمضیہ کو اپنی بیٹیاں ہی سمجھتے تھے اور کہتے بھی تھے۔

اچھا سب باتیں چھوڑیں یہ میں کھانا لایا ہوں جلدی سے نکالیں خود بھی کھائیں اور مجھے بھی دیں صائب نے کھانا افق کو پکڑاتے ہوئے کہا ۔ ۔

افق بھی بلا چوں چراں اس کے بات مان کر کھانا نکالنے لگی۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

ارتضی نے جیسے ہی بائیک فائقہ کے گھر کے آگے روکی فائقہ جلدی سے بائیک سے اتری ارتضی بھی بائیک سے اتر آیا۔

ٹھیک ہے میں چلتا ہوں اب یہ لو چابی ارتضی نے بائیک کی چابی فائقہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔

تم اندر نہیں آؤ گے فائقہ کو جیسے امید نا تھی کہ وہ گیٹ سے ہی وآپس چلا جائے گا ۔ ۔

اگر تم چاہتی ہو تو میں آ جا تا ہوں ارتضی کا دل تو خوشی سے جھوم رہا تھا ۔ ۔

گیٹ کھلا تھا فائقہ اندر آئی اس کے پیچھے ارتضی بھی اندر آیا وہ ساتھ ساتھ پورے گھر کا جائزہ بھی لے رہا تھا۔ ۔

اندر آ کر فائقہ ایک کمرے کی طرف آئی اور دروازہ بجایا اور بولی نانو جان میں اندر آجاؤں ۔ ۔ ۔

اندر سے اجازت ملتے ہی وہ دروازہ کھول کر اندر آئی اور 

ارتضیٰ بھی اس کے پیچھے اندر آیا ۔ ۔

اسلام و علیکم نا نوجان فائقہ سلام کرتے ہوئے اپنی نانو کے گلے لگی ۔

 وعلیکم السلام! آ گیا میرا بچہ آج دیر کر دی ۔ فائقہ نے دیر سے آنے کی وجہ بتادی کہ رمضیہ کے ابو بیمار ہیں انہوں نے کہا اچھا اللّٰہ پاک صحت یاب کرے اب ان کی نظر سامنے کھڑے ارتضیٰ پر پڑی تو کہنے لگیں یہ کون ہے فائقہ نے ارتضی کو گھور کہ دیکھا جوا بھی تک ویسے ہی کھڑا تھا ۔

نانوجان یہ ارتضی ہے یہ ہی چھوڑنے آیا ہے مجھے فائقہ نے تعارف کروایا ۔ ۔

اچھا یہ ارتضی ہے نانو نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔ ۔

اسلام و علیکم آ نئی ارتضی نے جلدی سلام کیا ۔ ۔

ہیں میں تمہیں کہاں سے آ نٹی لگتی ہوں لڑکے نانو نے ناگواری سے اسے دیکھا ۔

وہ بوکھلا گیا کہ اب آنٹی نا بولے تو اور کیا بولے ۔ ۔

نانو نے شاید اس کی پریشانی بھانپ لی تھی تبھی بولیں ۔

ارتضی بچے تم بھی مجھے نانو ہی بولو جیسے فائقہ بولتی ہے ٹھیک ہے۔

ارتضیٰ کی تو خوشی دیکھنے والی تھی جیسے اسے کوئی خزانہ مل گیا ہو۔۔

جی جی نانو ارتضیٰ نے اپنی خوشی سے بے قابو حالت کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔۔

فائقہ جو کب سے دیکھ رہی تھی اور اپنی ہنسی کنٹرول کرنے میں بے حال ہو رہی تھی کہ ارتضیٰ کو آج تک اتنی شرافت سے کہیں بیٹھے نہیں دیکھا تھا اس نے۔۔

فائقہ جاؤ جا کر کچھ کھانے پینے کو لے کر آؤ بچے کے لیے نانو نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔۔

جی نانو وہ بھی اٹھ کر کچن میں آگئ۔۔

تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ کمرے میں آئی تو دیکھا نانو اور ارتضیٰ دونوں کسے بات پر قہقے لگا رہے تھے اور وہ حیران ہو رہی تھی کہ آج تک اس نے کبھی نانو کو ہنستے نہیں دیکھا تھا۔۔

وہ ٹیبل رکھ کے کچن میں گئی چائے کے ساتھ نگٹس اور سموسے فرائی کر کے رکھے تھے وہ کا کر ٹیبل پر رکھے اور خود بھی نانو کے پاس بیٹھ گئ جو ارتضیٰ کی بات بتا رہیں تھے کہ وہ کتنے مزے کی باتیں کرتا ہے اور فائقہ بیچاری سوچ رہی تھی کہ ایسی کون سی باتیں بتا رہا تھا ارتضیٰ نانو کو آج تک اسے تو نہیں سنائی ایسی باتیں۔

اذہان گھر پہنچا تو  سیدھا اپنے روم میں آگیا وہ ابھی فریش ہونے جا ہی رہا تھا کہ تانیہ بیگم اسکے کمرے میں آئیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اسلام علیکم ماما اذہان ان کے قریب آیا۔

و علیکم السلام کیسی طبعیت ہے اب رمضیہ کے والد صاحب کی تانیہ بیگم نے اسکے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا۔۔

ماما بس دعا کریں وہ ٹھیک ہو جائیں ورنہ ڈاکٹرز کچھ زیادہ پر امید نہیں ہیں اذہان نے افسردہ ہوتے ہوئے کہا۔۔

وہ ایسا ہی تھا اپنوں کی زرا سی تکلیف پر تڑپ جانے والا۔۔

انشاءاللّٰہ سب بہتر ہو گا پریشان نا ہو کھانا لاؤں کھانا کھاؤ گے انہوں نے اس کو تسلی دیتے ہوئے پوچھا۔۔

نہیں ماما ابھی نہیں اذہان نے منع کر دیا۔

ٹھیک ہے میں تمہارے کی چائے بھجواتی ہوں تم فریش ہو جاؤ تب تک تانیہ بیگم نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے کہا اور کمرے سے نکل گئیں وہ بھی فریش ہونے چلا گیا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امی امی کہاں ہیں آپ رمان جب گھر پہنچا تو دروازے سے ہی اپنی امی کو آوازیں دیتا ہوا آیا۔۔

کیا ہوا کیوں چلا رہے ہو حنا جو کچن میں تھیں باہر آ کر پوچھنے لگیں ۔۔۔

اسلام و علیکم امی رومان نے گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔

و علیکم السلام میرا شہزادہ انہوں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اندر لاؤنج میں رکھے صوفوں میں سے ایک پر آ کر بیٹھ گئیں رومان بھی ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔۔

امی رمضیہ کے ابو بیمار ہیں آپ دعا کریں نا وہ ٹھیک ہو جائیں امی وہ دونوں بہنے اکیلی رہ جائیں گی انکا اپنے بابا کے سوا کوئی نہیں ہے اس دنیا میں رومان کہتی ہوئے رو پڑا وہ جانتا تھا باپ کا سایا سر سے اٹھ جائے تو اولاد دنیا کی ٹھوکروں کی زد میں آجاتی ہے۔۔

کچھ نہیں ہو گا بیٹا اللّٰہ پر بھروسہ رکھو انہوں نے رومان کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔

امی میرے پاس تو آپ ہیں ان کے پاس تو کوئی بھی نہیں ہے اپنے بابا کے سوا امی میں نے آج دیکھا ہے رمضیہ کو کیسے وہ تڑپ رہی تھی امی مجھ سے نہیں دیکھا گیا امی آپ دعا کریں نا پلیزز وہ روتے ہوئے ایک ہی بات کہے جا رہا تھا۔

رومان میرے بچے سنبھالو خود کو میں کروں گی انشاءاللّٰہ وہ ٹھیک ہو جائیں گے انہوں نے اسے چپ کرواتے ہوئے کہا۔۔۔

کون کہ سکتا تھا کہ یہ وہی رومان ہے جو دنیا والوں کے سامنے ہنستا مسکراتا رہتا تھا یہ تو وہ تھا جس نے اپنا باپ کھویا تھا اور اس تکلیف کا اندازہ تھا اسے جس سے رمضیہ اور افق گزر رہی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح وہ سب یونی جانے سے پہلے ہوسپیٹل آئے تھے اور اس وقت روحیل صاحب کے پاس تھے۔۔

انکل بس ا جلدی سے ٹھیک ہو جائیں آپ ورنہ یہ رضیہ سلطانہ آنسووں کے دریا بہا دے گی اذہان نے رمضیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ جو آرام سے بیٹھی تھی اذہان جو غصے سے گھورنے لگی ۔۔۔

وہ کچھ کہتی اس سے پہلے ہی اس کے بابا نے کہا نہیں میری لاڈو تو بہت بہادر ہے یہ نہیں روتی۔۔

رمضیہ نے اذہان کو منہ چڑایا اذہان منہ بناتے پیچھے ہوا۔۔

چلو اب نکلتے ہیں صنوبر نے کہا۔۔

تم نہیں جا رہی رمضیہ روحیل صاحب نے رمضیہ سے پوچھا۔

نہیں بابا آپ ٹھیک ہو جائیں پھر جاؤں گی رمضیہ نے آہستہ سے کہا۔

میں ٹھیک ہوں بیٹا اور صائب ہے نا میرے پاس افق بھی ہے تم آرام سے جاؤ۔۔

پر بابا ۔۔

میں نے کہا نا رمضیہ روحیل صاحب نے تنبیہہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔

صائب بولا رمضیہ میں ہوں ادھر تم پریشان نہیں ہو انکل بلکل ٹھیک ہیں تو وہ بھی بنا ضد کیے سب کے ساتھ یونی آگئی۔

صائب نثار کہاں ہے مجھ سے ملنے بھی نہیں آیا سب کے جانے کے بعد روحیل صاحب نے صائب سے پوچھا۔

وہ جو افق کو  فروٹس کاٹتے دیکھ رہا تھا فوراََ روحیل صاحب کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا پاپا شام تک آجائیں گے وہ ایک میٹینگ کے سلسلے میں اسلام آباد گئے ہیں ماما اور ارباب بھی گئیں ہیں ان کے ساتھ میں نے انہیں رات ہی انہیں بتا دیا تھا آپکی طبیعت کا شام تک آجائیں گے وہ صائب نے تفصیل سے جواب دیا۔۔

افق اب روحیل صاحب کو فروٹس کھلا رہی تھی صائب کو دیکھ کر بولی تم تھوڑی دیر آرام کر کو گھر جا کر کل سے ادھر ہی ہو۔۔

نہیں میں ٹھیک ہوں آپی صائب نے افق سے کہا۔

بیٹا چلے جاؤ تھوڑا آرام کر لو گھر جا کر پھر آجانا شام کو۔۔

ناچار صائب کو ان کی بات ماننی پڑی اور وہ گھر آ گیا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer | Farhan Speak

رمضیہ کلاس سے نکل ہی رہی تھی کہ  سامنے سے سہراب آتا ہوا نظر آیا وہ تینوں اسے دیکھ کر رک گئیں۔۔

رمضیہ مجھے صائب کی کال آئی تھی وہ کہ رہا تھا کہ روحیل انکل کو لے کر وہ لوگ گھر جا رہیں ہیں تم لوگ سیدھا گھر آجانا سہراب نے تفسیل سے بتایا۔۔

پر مجھے تو آپی نے کال کر ک نہیں بتایا رمضیہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔۔

آپی تمہیں کال کر رہیں تھیں پر تم نے پک نہیں کی کال اس لیے صائب نے مجھے کال کر کے کہا سہراب نے جلدی سے بتایا۔

ہممم ٹھیک ہے نکلتے ہیں پھر صنوبر نے کہا۔۔

اوو میڈم تم کدھر تم ابھی میرے ساتھ گھر چلو پھر شام میں امی والوں کے ساتھ آئیں گے انکل کا پتہ کرنے سہراب نے صنوبر کو گھورتے ہوئے کہا۔۔

تم کبھی میری بات نہیں مانتے صنوبر نے منہ پھلا کر کہا۔۔

سہراب جواب دینے لگا تھا کہ رمضیہ بولی ٹھیک ہے بات ختم کرو اب تم لوگ شام میں آجانا پتہ کرنے بابا کا۔۔

ہممم یہ ٹھیک ہے میں باقی سب کو بتا کر آتا ہوں سہراب ان کو کہ کر گراؤنڈ کی طرف آ گیا جہاں وہ سب کلاس بنک کر کے مزے سے بیٹھے تھے آج صائب نہیں آیا تھا اور اس بات کا وہ سب پورا پورا فائدہ اٹھا رہے تھے۔۔

سہراب ان کے قریب آ کر بولا چلو بھائی لوگ شام کی تیاری رکھو۔۔

وہ کس لیے فہیم نے پوچھا۔۔

روحیل انکل کا پتہ کرنے جانا ہے کہ نہیں نالائقوں سہراب نے فہیم کو ٹیرھی نظروں سے دیکھا۔۔

 میں ضرور چلوں امی نے بھی کہا تھا وہ بھی جائیں گی سب سے پہلے رومان بولا۔۔

اذہان بھی کہنے لگا ماما بابا نے بھی کہا تھا میں جاؤں تو انہیں بھی ساتھ لے چلوں۔۔

بس پھر ٹھیک آج شام کو چلتے ہیں سب میں بھی زوبیہ اور امی والوں کو لے کر آجاؤں گا سہراب نے سب سے کہا۔۔

پھر وہ سب اٹھ کر گیٹ کی طرف آئے جہاں وہ تینوں ان کا ہی انتظار کر رہیں تھیں۔۔۔

رضیہ سلطانہ آج ہم آئیں گی تمہاری طرف ذرا احتمام کر لینا اذہان نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔۔

تم تو ایسے کہ رہے ہو جیسے پہلی بار آؤ گے میرے گھر رمضیہ نے جل کر کہا خلاف توقع آج وہ اذہان کے اسے رضیہ سلطانہ بولنے پر بھڑکی نہیں۔۔

اب چلو گھر چلتے ہیں فائقہ کہتے ہوئے اپنی بائیک کی طرف بڑھی اس کے پیچھے رمضیہ بھی نکل آئی ایک ایک کر کے وہ سب بھی باہر نکل آئے اور ایک دوسرے کو اللّٰہ حافظ کہتے ہوئے اپنی اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے پہلے فائقہ اور رمضیہ نکلیں ان کے پیچھے سہراب اور صنوبر پھر اذہان اور فہیم اور سب سے آخر میں ارتضیٰ اور رومان۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم بہت برے ہو سہراب کیا تھا جو تم مجھے رمضیہ کے ساتھ جانے دیتے تو صنوبر نے ناراضی سے کہا۔

شام میں سب ساتھ چلیں گے نا دیکھو منع تو نہیں کیا نا میں نے سیراب نے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔

تم مجھ سے پیار نہیں کرتے کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا ایک تائی امی ہیں جو میری ہر بات مانتیں ہیں صنوبر نے دکھ سے کہا۔

سہراب کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے کہ صنوبر بات کو کہاں سے کہاں لے گئی تھی۔

سوری غلطی ہو گئی آئندہ کچھ نہیں بولوں گا بس ہاتھ جوڑنے کی کثر رہ گئی تھی باقی تو سب کر لیا تھا سہراب نے۔

پہلے آئسکریم کھلاؤ پھر معاف کروں گی رمضیہ نے اپنی ناراضگی کا فائدہ اٹھانے کا سوچا۔

ہاں ہاں کھلاتا ہوں بس ناراض نہیں ہونا مجھ سے میں تمہاری ناراضگی نہیں افورڈ کر سکتا سہراب نے بے چارگی سے کہا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اس نے رمضیہ کے گھر کے آگے بائیک روکی رمضیہ جلدی سے اتری اور فائقہ کو اللّٰہ حافظ کہ کر دروازہ بجانے لگی فائقہ بھی اللّٰہ حافظ کہ کر بائیک آگے بڑھا لے گئی ۔ ۔

اسلام و علیکم رمضیہ نے گھر میں داخل ہوتے ہی اونچی آواز میں سلام کیا اور بابا کے روم میں آ گئی ۔

وعلیکم السلام آ گئی میری لاڈو رانی روحیل صاحب نے پیار سے پوچھا افق بھی ان کے پاس بیٹھی بابا کے پاؤں دبا رہی تھی۔

جی بابا آپ کی طبیعت کیسی ہے اب رمضیہ نے باپ کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا ۔ ۔

بلکل ٹھیک ہوں میری لاڈو کی دعا اور افق کے خیال رکھنے سے ٹھیک ہو گیا ہوں بالکل روحیل صاحب نے محبت سے اپنی دونوں بیٹیوں کو دیکھتے ہوئے کیا ۔ ۔

گڑیا تم فریش ہو جاؤ میں کھانا لگاتی ہوں پھر کھانا کھاتے ہیں افق نے رمضیہ سے کہا ۔ ۔

اوکے آپی رمضیہ اٹھ کر روم میں آئی فریش ہونے ۔ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رمضیہ نیجے آئی توافق کھانا ٹیبل پر لگا چکی تھی آپی بابا نہیں کھائیں گی کیا رمضیہ نے افق سے پوچھا ۔

نہیں گڑیا وہ کھا چکے ہیں ان کو میڈیسن دینی تھی اس لیے افق نے جواب دیا ۔

تو آپ نے کیوں نہیں کھایا آپ کھا لیتیں نا رمضیہ نے افق کے گلے میں بانہیں ڈال کر لاڈ سے پوچھا ۔

کیوں کہ میری گڑیا کے بنا میرے حلق سے کھانے کا ایک نوالہ بھی نہیں اترتا افق نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا اور دونوں کھکھلا کے ہنس پڑیں اور دور کھڑی قسمت ان کو افسوس سے دیکھ رہی تھی کہ آنے والا وقت ان کے چہروں سے یہ ہنسی چھینے والا تھا۔۔

                                  (جاری ہے)


Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels,

Yara Teri Yari Novel Part 2 by Aleena Meer, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels,

No comments:

Post a Comment