Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak - Farhan Speak

Monday, September 4, 2023

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak


 
Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, Friendship Base Novels
Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer
  



 نام ناول : یارا تیری یاری

 ازقلم : الینا میر

قسط نمبر: 3


شام کا وقت تھا رمضیہ اپنے بابا کے کمرے میں آئی تو دیکھا افق بابا کے پاس بیٹھی تھی اور ناجانے کیا راز و نیاز کر رہی تھی۔۔

اہممم اہمممم کر لیں کر لیں میرے خلاف باتیں آپ لوگ رمضیہ شرارت سے کہتی بیڈ پر آ کر افق کے ساتھ بیٹھ گئی۔

ہمارے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ لوگوں کے بارے میں باتیں کرتے پھریں افق نے بھی اسی کے انداز میں کہا۔۔

بابا دیکھ رہے ہیں آپکے سامنے آپی ایسے بول رہی ہیں رمضیہ روحیل صاحب کی طرف دیکھ کر شکایتی انداز میں کہا۔۔

ارے میری شہزادی آپی مذاق کر رہی ہیں میری لاڈو کے ساتھ روحیل صاحب نے رمضیہ کو اپنے ساتھ لگاتے کہا۔۔

اچھا پھر ٹھیک ہے رمضیہ نے کہتے ہوئے افق کو اپنے ساتھ لگا لیا روحیل صاحب اپنی دونوں بیٹیوں کو دیکھتے مسکرانے لگے۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیل کی آواز پر رمضیہ بیڈ سے اتری میں دیکھتی ہوں کون آیا ہے کہتی ہوئی باہر بھاگی۔۔

یہ کبھی نہیں بدلے گی افق بھی ہنستے ہوئے کہتی بیڈ سے اٹھی روحیل صاحب بھی ہنس دئیے۔۔

رمضیہ نے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے صنوبر کی امی ابو اور تائی امی کو کھڑے پایا فوراً سائیڈ پر ہوتے ہوئے انہیں اندر آنے کی جگہ دی۔

اسلام وعلیکم! سلام کرتے ہی رمضیہ سہراب کی امی سے ملی پھر صنوبر کی امی سے ملی ان دونوں نے گلے لگا کر رمضیہ کو پیار کیا صنوبر کے ابو نے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی وہ ان سب کو لیے روحیل صاحب کے کمرے میں آگئی۔

ان کو بٹھا کر رمضیہ کچن کی طرف جانے لگی۔۔


اندر افق بھی سب سے مل کر کچن میں آئی اور رمضیہ سے بولی گڑیا تم پانی لے کر جاؤ میں چائے رکھتی ہوں۔

رمضیہ سر ہلا کر جواب دیتی پانی کا جگ اور گلاس ٹرے میں رکھے روحیل صاحب کے کمرے میں آئی۔۔

تائی امی صنوبر اور سیراب نہیں آئے رمضیہ نے سہراب کی امی سے پوچھا۔۔

صنوبر کی دیکھا دیکھی وہ سب بھی سہراب کی امی کو تائی امی کہتے تھے اور اس بات پر کسی کو اعتراض بھی نہیں تھا۔۔۔

بیٹا ہمارے پیچھے ہی تھے کیوں اندر نہیں آئے کیا طاہرہ بیگم نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔۔


ان کو پانی دے کر رمضیہ باہر آئی گیٹ کی طرف آئی کہ دیکھ سکے وہ لوگ باہر تو نہیں کھڑے۔۔

ارے رمضیہ کہاں جا رہی ہو ہم یہاں ہیں اسے گیٹ کی طرف جاتا دیکھتے سہراب نے آواز دی۔۔

وہ گیٹ کھولنے ہی والی تھی کہ اسے سہراب کی آواز آئی اس نے گردن گھما کر دیکھا تو صنوبر اور سہراب لان میں رکھی چئیرز پر بیٹھے تھے۔۔

وہ جلدی سے ان کی طرف آئی۔۔

اسلام و علیکم! ارے تم دونوں مجھے نظر ہی نہیں آئے کہاں تھے تم لوگ رمضیہ نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔۔

و علیکم السلام! ہم ادھر ہی تھے جب تم اپنی آنٹیوں سے مل رہی تھی اگر پیچھے دیکھتی تو ہم نظر آتے نا تمہیں صنوبر نے منہ بناتے ہوئے کہا۔


سہراب نے کہا آؤ انکل سے مل کر آتے ہیں تو وہ بھی کھڑی ہو گئی۔

وہ لوگ جا ہی رہے تھے کہ گیٹ کھلنے کی آواز پر رک گئے اور دیکھنے لگے جہاں اذہان اپنی فیملی کے ساتھ اندر آ رہا تھا اس کے پیچھے ارتضیٰ تھا اپنے موم ڈیڈ کے ساتھ وہ سب لوگ اندر آئے تو رمضیہ صنوبر اور سہراب ان کی طرف بڑھے۔

اسلام و علیکم! تینوں نے اک ساتھ سلام کیا سب سے مل کر رمضیہ ان کو روحیل صاحب کے کمرے میں لے آئی.

جہاں سب باتیں کر رہے تھے اذہان اور ارتضیٰ کی کے پیرنٹس بھی ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئے اور روحیل صاحب کی طبیعت کا پوچھنے لگے رمضیہ کچن میں آگئ اور اس کے پیچھے سہراب صنوبر اذہان اور ارتضیٰ بھی روحیل صاحب کو سلام کر کے باہر لان میں آگئے۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اذہان کچن میں رمضیہ کے پیچھے آیا اور سلیب پر چڑھ کر بیٹھ گیا پھر افق کو دیکھتے بولا۔

اسلام و علیکم! آپی۔

و علیکم السلام! کیسے ہو اذہان؟ سلام کا جواب دیتے افق نے پوچھا۔

میں ٹھیک فٹ فاٹ آپکے سامنے ہوں اذہان نے بچوں کی طرح کہا۔۔

افق مسکرا دی۔


رضیہ سلطانہ تم کیا کر رہی ہو اذہان نے رمضیہ کو دیکھا جو کباب فرائی کر رہی تھی مگر پھر بھی پوچھ بیٹھا عادت سے مجبور۔۔

اذہان تمہیں کسی نے تمیز نہیں سکھائی کہ کسی کے گھر جاتے ہیں تو منہ اٹھا کر کہیں بھی نہیں ٹپک پڑتے۔

رمضیہ نے تپ کر کہا-

ہاں تو وہ کسی کا گھر ہوتا ہے نا یہ تو میرا اپنا گھر ہے اذہان نے سکون سے جواب دیا-


رمضیہ پلیٹ میں کباب رکھ کر فریج کی طرف گئی۔

کہ اذہان نے جلدی سے دو کباب اٹھا کر چھپا لیے افق نے اسے کباب اٹھا کر چھپاتے دیکھ لیا اذہان نے ایک نظر افق کو دیکھا  جو اپنی ہنسی دباتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہی تھی اور ڈھیٹوں کی طرح مسکرا دیا شرمندہ ہونا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا باہر سے فہیم کی آواز سنتا اذہان سلیب سے اترا میں ذرا لان میں جا رہا ہوں کہتے ہوئے اذہان باہر نکل آیا اور دل میں بولا شکر ہے رضیہ سلطانہ نے نہیں دیکھا ورنہ حلق میں سے بھی نکلوا لیتی یہ کباب۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ لان میں آیا تو دیکھا فائقہ صائب رومان اور فہیم بھی لان میں ہی تھے۔۔

اسلام و علیکم! تم لوگ کب آئے فہیم کے پاس بیٹھتے بولا۔

بس ابھی ہی آئیں ہیں صائب نے بتایا۔

اچھا انکل سے مل آئے اذہان نے پوچھا۔


ہممم مل آئیں ہیں ہم سب رومان اور صائب کی فیملی بھی اندر ہی ہے ہم باہر آگئے کہ بڑوں میں ہمارا کیا کام فہیم نے جواب دیا۔۔

اس سے پہلے کہ اذہان کچھ کہتا رمضیہ چائے کی ٹرے اٹھاتی ان کی طرف آئی اسلام و علیکم! فائقہ رومان فہیم اور صائب کو دیکھتے سلام کیا اور چائے کی ٹرے ان سب کے سامنے رکھی۔

و علیکم السلام! سب نے فوراََ سلام کا جواب دیا۔

میں باقی چیزیں لے کر آتی ہوں رکو ہم بھی آتی ہیں تمہارے  ساتھ صنوبر اور فائقہ بھی اس کے پیچھے آئیں۔۔


دو منٹ بعد ہی وہ تینوں کباب سموسے اور رول کی ٹرے لے کر آتی نظر آئیں۔۔

وہ سب نیچے گھانس پر ہی بیٹھ گئے۔۔

یار میں جب بھی یہاں آتا ہوں مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کسی قید سے رہائی ملی ہو اذہان نے سموسہ اٹھاتے ہوئے کہا۔

بس رہنے دے تیری نوٹنکیاں نہیں ختم ہوتیں ابھی بھی تو آزاد گھوم رہا ہے پھر بھی پتا نہیں کونسی قید لگتی تجھے فہیم نے  اسے گھور کے دیکھا۔۔

باقی سب سر جھٹکتے چائے پینے لگے۔۔


افق بھی ان کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی فائقہ اور صنوبر افق سے باتیں کرنے لگی لڑکے آپس میں کچھ ڈسکس کرنے لگے۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھائی صاحب میں آج آپ سے کچھ مانگنے آئی ہوں امید ہے آپ انکار نہیں کریں گے رومان کی امی نے روحیل صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔

روحیل صاحب ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولے جی بہن کیا مانگنے آئیں ہیں مجھ سے آپ وہاں بیٹھے سب لوگ سوالیہ نظروں سے حنا بیگم کو دیکھ رہے تھے۔


بھائی صاحب میں افق کو اپنی بیٹی بنانا چاہتی ہوں حنا بیگم نے آس بھری نظروں سے روحیل صاحب کی طرف دیکھا۔۔

کیا مطلب بہن میں کچھ سمجھا نہیں روحیل صاحب نے نا سمجھی سے انہیں دیکھا۔۔

بھائی صاحب میں اپنے رومان کی دلہن بنانا چاہتی ہوں افق کو حنا بیگم نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔۔

سب حیرانی سے اک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔

پر ایسے کیسے حنا بہن رومان تو ابھی پڑھ رہا ہے اور پتہ نہیں اس کا کیا مائنڈ ہو ۔


بھائی صاحب وہ بیشک پڑ رہا ہے بس آخری سال ہے اس کا مگر اپنے بابا کا بزنس بھی سمبھال رہا ہے اور اس نے شادی کا فیصلہ مجھ پر چھوڑا ہے جو میری پسند وہی میرے بچے کی پسند ہو گی حنا بیگم نے آرام سے ساری بات بتا دی۔۔

روحیل کے کچھ کہنے سے پہلے اذہان کے والد نے کہا روحیل بھائی ویسے اس رشتے میں کوئی کمی نہیں ہے ہر لحاظ سے ہماری افق بیٹی کے لیے بہتر ہے۔۔

روحیل میرے جگری یار رضا ٹھیک کہ رہا ہے ہماری افق کو رومان جیسا لڑکا نہیں ملے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اسے جانتے ہیں ہمارے سامنے ہی بڑا ہوا ہے رومان۔صائب کے بابا نے بھی تسلی دی۔


بھائی صاحب آپ بلکل نا پریشان ہوں میں اپنی بیٹی بنا کر رکھوں گی افق کو۔۔حنا بیگم نے روحیل صاحب کو یقین دلایا۔۔

ٹھیک ہے پھر میری مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر میں شادی جلدی کرنا چاہتا ہوں روحیل صاحب نے پر سکون لہجے میں کہا۔۔

ٹھیک ہے بھائی صاحب مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے اگلے ہفتے رکھ لیتے ہیں شادی۔۔

ارے اتنی جلدی سب کیسے ہو گا صائب کی امی نے پریشانی سے کہا۔۔

سب ہو جائے گا اللّٰہ پر بھروسہ رکھیں صنوبر اور سہراب کی امی نے تسلی دی ۔


ٹھیک ہے پھر اگلے ہفتے نکاح مہندی بارات اور ولیمہ، جمعے کو نکاح ہفتے کو مہندی اتوار کو بارات اور پیر کو ولیمہ۔

روحیل صاحب نے اطمینان سے کہا۔

ٹھیک ہے بھائی صاحب حنا بیگم خوشی سے بولیں۔

رانیہ جاؤ باہر سب کو بلا کر لاؤ حنا بیگم نے رانیہ کو کہا۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رانیہ لان میں آئی تو دیکھا وہ سب مزے سے باتیں کر رہے تھے وہ جلدی سے ان کی طرف آئی اور ان کے سر پر کھڑی مصنوعی سنجیدگی سے بولی۔۔

بھائیوں اور ان کی بہنوں۔۔۔

وہ سب جو اپنے دھیان میں لگے تھے اک دم رانیہ کی آواز پر سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگے۔۔


سب سے پہلے ہوش فہیم کو آیا اور مسکراہٹ دباتے کھڑا ہو کر رانیہ کے پاس آ کر بولا میرے پاس وہ والے کان نہیں ہیں جو آپکی بات سن سکیں۔۔

ہیں یہ فہیم کے پاس کان ہیں تو سہی پھر کیوں کہ رہا کہ میں سن نہیں سکتا ابھی تو سب کے  بیٹھا باتیں سن رہا تھا اب کیا ہو گیا اس کو اور یہ سوال صنوبر کے علاؤہ کوئی کر ہی نہیں سکتا تھا۔۔

رانیہ فہیم کو گھورتی ہوئی اس کے پاس آ کر اس کے کان کے قریب چیخی بھائیوں کی بہنوں۔۔۔۔


اور فہیم کو لگا اس کے کان کا پردہ پھٹ چکا ہے کان پر ہاتھ رکھ کر  فوراً نیچھے بیٹھ گیا 

اس کی حالت دیکھ کر رومان اور اذہان لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔

باقی سب بھی دبی دبی ہنسی ہنس رہے تھے۔۔

اب ہنس بعد میں لیجئے گا آپ سب کو اندر بلا رہے ہیں رانیہ کہتی ہوئی اندر بھاگ گئی۔

اور رانیہ کی بات سنتے سب سے پہلے اذہان کی ہنسی کو بریک لگا اسے لگا کہ ضرور کسی نے ان کی مخبری کی ہے تبھی آج سب کو عدالت میں پیش ہونے کا آرڈر ملا ہے۔۔


چلو اندر پتہ نہیں کیوں بلا رہے ہیں صائب کہتے سب سے پہلے اٹھا اور اندر کی طرف بڑھا وہ بھی کھڑے ہو گئے۔

ابے اوئے اور کتنے دیر صدمے میں رہے گا چل اٹھ اندر چلیں ارتضیٰ نے فہیم کو اٹھاتے ہوئے بولا۔۔

اذہان کیسے برداشت کرتا ہے تو اپنی بہن کی شرارتوں کو فہیم نے بیچارگی سے اذان سے کہا۔۔

اس کا جواب میں بعد میں دوں گا ابھی چل عدالت میں ہماری پیشی ہے پتہ نہیں اب کس جرم کی سزا کے لیے بلایا ہے اذہان ٹھنڈی آہ بھرتے بولا اور اسے لے کر اندر آیا۔۔


سب آرام سے اندر آگئے اور پر سکون سے اک سائیڈ پر کھڑے ہو گئے اک اذہان ہی تھا جو بے چین تھا اور اپنے ناکردہ گناہوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جس کی سزا ان سب کو ملنے والی ہے جیسا وہ شیطان تھا وہ یہی سوچ سکتا تھا۔۔

حنا بیگم اٹھ کر افق کے پاس آئیں اور اپنے ساتھ بٹھاتے انگوٹھی پہنانے لگیں یہ سب اتنی اچانک ہوا کہ کسی کو کچھ سمجھنے یا کہنے کا موقع ہی نا ملا۔۔

مبارک ہو آپ سب کو افق اب ہماری امانت ہےآپ کے پاس بھائی صاحب میرے رومان کی دلہن حنا بیگم نے افق کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا اور وہ سب منہ کھولے حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔۔


افق حیرت سے سامنے کھڑے رومان کو دیکھ رہی تھی اور رومان جو اب سنبھل چکا تھا افق کو دیکھتے ایک سمائیل پاس کرتے باہر نکل گیا۔۔

'رانی کی آئے گی بارات رنگیلی ہو گی رات مگن میں ناچوں گا‘ سب سے پہلے اذہان اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوش میں آیا اور زور زور سے گانے لگا..

کمینے فٹے منہ تیری شکل پہ اگر گانا ہی ہے تو کوئی ڈھنگ کا گانا گا یہ کیا گا رہا ہے وہ سب جو حیرت سے کھڑے تھے اذہان کی بے سری آواز سن کر چونک گئے اور فہیم نے اذہان کی کمر میں مکا مارتے ہوئے کہا۔۔۔

آہ ظالم میری کمر توڑ دی اذہان مصنوعی درد سے چیخا۔۔


ابے چل ڈرامےباز فہیم نے ہاتھ جھکاتے ہوئے کہا۔۔

سب ان کے ڈرامے دیکھتے ہنسنے لگے۔۔

بس کرو اب اپنے ڈرامے اور کام پر لگ جاؤ  اگلے ہفتے شادی ہے اور وقت بہت کم ہے اور کام بہت زیادہ تو بچوں ابھی سے تیاریوں میں لگ جاؤ رضا صاحب نے بڑی آرام سے ان سب کے سر پر بم پھوڑا کم از کم اذہان کو تو یہی لگا۔۔

کیااااااا؟؟ اگلے ہفتے شادی وہ سب اک ساتھ چیخے کہ ابھی ایک جھٹکے سے نا سنبھلے تھے کہ ایک اور جھٹکا ملا تھا ان کو۔۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لڑکیاں افق کو لے کر لان کی طرف بڑھیں

آپی بہت بہت مبارک ہو آپ کو ہم بہت خوش ہیں آپ کے لیے ان سب نے افق کو گلے لگاتے ہوئے کہا افق مسکرا دی۔

آپی آپ خوش ہو نا افق کی سادہ سی مسکراہٹ دیکھ کر رمضیہ نے پوچھا۔

جی میری جان میں خوش ہوں افق نے رمضیہ کو یقین دلایا رمضیہ نے سکھ کا سانس لیا ورنہ افق کی سادہ سی مسکراہٹ دیکھ کر اسے لگا شاید اس کی آپی خوش نہیں ہیں ۔

 

لڑکے اچھی خاصی عزت افزائی کروا کر نکلے تھے اور وہ بھی  اذہان کے پاپا سے ان کے پیرینٹس انہیں جلدی گھر آنے کا کہ کر نکل گئے تھے اور وہ لوگ لان میں لڑکیوں کو بیٹھا دیکھ کر انہیں کے پاس آگئے۔

لڑکیوں کیا ارادہ ہے تم لوگوں کا اب وہ سب بیٹھے ہی تھے کہ اذہان نے ان سب سے پوچھا۔۔

کیا مطلب کس بارے میں رمضیہ نے آنکھیں گھما کر پوچھا۔

افق آپی کی شادی ہے رضیہ سلطانہ پلیز اب ہوش کی ناخن لو اور بڑی ہو جاؤ اذہان نے سر پیٹتے ہوئے کہا۔


میرے پاس ہوش کے ہی ناخن ہیں آئی سمجھ اور ہم تو کافی کچھ ڈیسائڈ بھی کر چکے ہیں رمضیہ نے اسے زبان چڑائی۔

جہاں وہ سب ان کو بحث کرتے دیکھ رہے تھے کہ رمضیہ کے زبان چڑانے پر ہنسنے لگ گئے اور صائب رمضیہ کو دکھنے لگا۔

ویسے میں کب سے ایک بات سوچ رہا ہوں فہیم نے ارتضیٰ اور سہراب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا لڑکیاں بھی فہیم کی آواز سن کر اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔

کیا سوچ رہا تھا؟ صائب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔


افق آپی کی شادی رومان سے ہو رہی ہے تو رومان ہمارا بھائی ہے اور افق آپی بہن تو اب ہم کس رشتے سے افق آپی کو مخاطب کریں گے فہیم نے بیچارگی سے کہا۔۔

کیا مطلب تو کہنا کیا چاہ رہا ہے سیدھی طرح بتا اذہان نے بیزاری سے کہا فہیم نے اک نظر سب پر ڈالی کہ کسی کو بھی اس کی بات سمجھ نہیں آئی تھی۔۔

ابے کمینے میرے کہنے کا مطلب ہے اب افق آپی کو ہم بھابھی بولیں گے نا فہیم نے اذہان کو شرم دلانے والی نظروں سے گھورا۔۔


اچھاااااااااااااا مطلب تو کہنا چاہ رہا ہے افق ہماری بھابھی جیییییییییی ہیں ارتضیٰ نے بھابھی جی کافی لمبا کھینچ کر ادا کیا ۔افق کی تو سٹی گم ہو گئی ان کی بات سن کر جب کے وہ سب  قہقے لگا رہے تھے صائب بھی ان کی بچکانا حرکتوں پر مسکرا دیا۔

اور شادی کے سارے فنکشنز میں ہم لڑکے والوں کی طرف سے شامل ہوں گے سہراب نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور اس کی بات سب کو کافی پسند آئی تھی اذہان نے تو باقاعدہ بلائیں لے ڈالیں تھیں سہراب کی یہ دیکھتے اک بار پھر سب کا قہقہہ گونجا اس بار صائب بھی ان کے ساتھ شامل تھا۔۔


نہیں بھئی ہماری تو افق آپی ہیں اور رومان ہمارے جیجو ہوئے فائقہ نے منہ بناتے ہوئے کہا اور ہم بھی ہر فنکشن پر لڑکی والوں کی طرف سے شامل ہوں گی فائقہ نے منہ چڑا کر کہا۔

کیا مطلب؟ ارتضیٰ کو تو جیسے کرنٹ لگا تھا اس کی بات سن کر فوراً سیدھا ہوا وہ تو خوش تھا کہ وہ ہر فنکشن میں فائقہ کو اپنے ساتھ میچنگ کروائے گا اور اسے اپنی پارٹی مطلب لڑکے والوں کی طرف سے شادی میں آنے کا بولے گا پر یہاں تو سب کچھ الٹا ہوتا نظر آ رہا تھا۔

کیا مطلب کیا تم لوگ لڑکے والوں کی طرف سے آؤگے تو ہم دلہن کی بہنیں ہیں ہم لڑکی والے ہوں گے فائقہ کے کہنے پر جہاں حیرت سے سب کے منہ کھلے وہیں رمضیہ اور صنوبر کی ہلتی گردن دیکھ کر انہیں جھٹکا لگا۔۔


اس سے پہلے کہ دوبارہ کوئی بحث شروع ہوتی صائب نے فوراََ بیچ میں آ کر کہا کہ فنکشنز کمبائن ہوں گے تو لڑکے والوں کی طرف یا لڑکی والوں کی طرف رٹ لگانا بند کرو۔

وہ سب خوش ہو گئے فہیم اور اذہان تو باقاعدہ بھنگڑے ڈالنے لگے اور لڑکیاں ان کو دیکھ کر ہنستی رہیں۔۔

رومان کدھر ہے سہراب نے صائب سے پوچھا۔۔

وہ کام سے گیا ہے اب  صبح آئے گا کہ رہا تھا صائب نے سکون سے جواب دیا۔ 

ابھی سہراب کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ اذہان کے بلانے پر اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔


کل سے شاپنگ پر چلنا ہے لڑکیوں تم لوگ افق آپی کی اور اپنی اپنی شاپنگ کل سے سٹارٹ کرو اور لڑکوں تم لوگ بھی سن لو کل سب نے ایک ساتھ نکلنا ہے شاپنگ کے لیے اپنی اور اپنے دولہے میاں کی شادی کی شاپنگ ہم نے ہی کرنی ہے اسے تو کوئی ہوش ہی نہیں سمجھ گئے۔

وہ سب ہاں میں اپنے اپنے  سر ہلانے لگے کہ انہیں سمجھ آگئی ہے اور اپنی اپنی باتوں میں مصروف ہو گئے۔۔

وہ کچھ اور کہتا کہ رانیہ کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی جو کہ رہی تھی۔

رمضیہ آپی ہم سب میچنگ کریں گیں بس کلر چینج کر لیں گے بس آپی باقی ڈریسز سینڈلز جیولری ہیئر اسٹائلز میکپ سب سیم ہوگا۔


صنوبر نے فوراً کہا میری طرف سے ڈن رمضیہ اور فائقہ نے بھی ڈن کر دیا افق ان کی خوشی دیکھ کر خوش ہوتی رہی اور رمضیہ کو بتا کر اندر آگئی۔

ہم بھی کریں گے اذہان نے اونچی آواز میں رانیہ کو دیکھ کر کہا۔

اوئے باؤلا ہو گیا ہے کیا ہوش میں آ کیا کہ رہا ہے تو فہیم کو اس کی بات سمجھ نا آئی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے فوراً اذہان کو کمر پر مکا مارتے بولا سب ان کو ہی دیکھ رہے تھے۔

مر جا منحوس تجھے میں ہی ملتا ہوں تشدد کرنے کے لیے اذہان نے فہیم کو دھکا دے کر پیچھے کیا۔

صائب نے اذہان کو دیکھا اور بولا کیا کرنے کا کہ رہے تھے تم۔


یار صائب ہم بھی سیم ڈریسنگ کریں گے رومان کی شادی میں ہم سارے بھائی اذہان نے منہ بسورتے کہا۔

ہمممممم ٹھیک ہے جیسے تم کہو صائب نے پیار سے اس کے بال بکھیرتے کہا اور اذہان بس اسے گھور کر رہ گیا۔

لڑکیوں ہم سب بھائی بھی سیم ڈریسنگ کریں گے تم لوگوں کی طرح رومان کی شادی میں اذہان نے اونچی آواز میں کہا وہ سب اسے دیکھنے لگے۔

مطلب تم سب بھی ہماری طرح گرارہ لہنگا اور ساڑھی پہنو گے صنوبر نے پریشانی سے اذہان سے پوچھا۔

صنوبر کی بات سن کر اذہان کو سانپ سونگھ گیا۔۔


ہوش تب آیا جب رمضیہ کو ہنس ہنس کے بے حال ہوتے دیکھا گردن موڑ کر دیکھا تو فہیم سہراب ارتضیٰ صائب میں گھستے ہنسی سے لوٹ پوٹ رہے تھے اور تو اور سب سے بڑا حیرت کا جھٹکا تو تب لگا جب رانیہ اسکی سگی بہن بھی ہنستے ہوئے اپنے سوتیلے ہونے کا سبوت دے رہی تھی۔

سہراب بچا لے اپنی زوبیہ کو نہیں تو آج تو میرے ہاتھوں قتل ہو جائے گی اذہان نے سہراب کے کان میں گھس کر دانت  پیستے ہوئے کہا۔۔

سہراب کی ہنسی ایک پل میں غائب ہو گئی اس نے دہل کر اذہان کو دیکھا۔۔

یار تجھے پتہ تو ہے اس کا مائنڈ کیسا ہے تو دل پر نا لے دیکھ اسے کچھ مت کہنا ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی تو بنا شادی کے مجھے بیوہ کرنا چاہتا ہے سہراب نے اموشنل ہوتے ہوئے کہا۔۔


پاگل بیوہ نہیں رنڈوا ہوتا ہے اتنا بھی نہیں پتہ تجھے یونی تک کیا چنے بیچ کر پہنچا ہے فہیم جو ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا سہراب کو شرم دلانے والے انداز میں بولا۔

جبکہ رمضیہ ان کو کھسر پھسر کرتے دیکھ کر صائب کو گھورنے لگی۔


صائب جو حیران سا ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ رمضیہ اسے کیوں گھور رہی ہے مگر رمضیہ کے اس کے پاس آ کر پوچھنے پر " تمہارا بہت رعب ہے سب پر مگر اذہان پر تو تمہارا کوئی رعب نہیں دکھتا مجھے“ فوراً سیدھا ہوا اور بولا اس کی نیچر ایسی ہے اب نہیں آتا میرے رعب میں تو میں کیا کروں صائب نے معصوم بن کر کہا۔

ہنہ جیسے میں جانتی نہیں ہوں کتنے معصوم ہو رمضیہ ناک چڑھا کر بولی اور واپس فائقہ کے ساتھ آ کر بیٹھ گئ صائب اس کے انداز پر ہنس دیا۔


اب اٹھو اور چلو دس بج گئے ہیں صبح بہت کام ہیں اور پانچ دن ہیں صرف شادی میں سب کام بس پانچ دنوں میں ختم کرنے ہیں صائب نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔

ہممم چلو پھر نکلتے ہیں صنوبر اور رانیہ بھی کھڑی ہو گئیں۔

تم نہیں جا رہی ارتضیٰ نے فائقہ سے پوچھا جو آرام سے چئیر پر پاؤں رکھ کر بیٹھی تھی۔

نہیں آج میں یہیں رکوں گی نانو جان ماموں کے گھر گئیں ہیں کل آئیں گیں فائقہ نے ارتضیٰ کی طرف دیکھے بنا جواب دیا۔ہمم ٹھیک ہے خیال رکھنا ارتضیٰ نے اسکے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے کہا۔


انشاءاللّٰہ کل ملیں گے کہتے ساتھ وہ سب گیٹ کر طرف بڑھے۔

رمضیہ بھی ان کے پیچھے آئی اور اللّٰہ حافظ کہتے ان کے نکلتے ہی گیٹ بند کر کے فائقہ کے پاس آ گئی اب ہم بھی اندر چلتے ہیں دیکھیں تو سہی دلہن کیا کر رہی ہے رمضیہ نے فائقہ کی طرف دیکھتے شرارت سے کہا۔

چلو دیکھیں پھر فائقہ بھی شرارت سے بولی اور وہ دونوں اندر بڑھ گئیں۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

صنوبر سہراب کو چائے دینے اوپر آئی کمرے سے سہراب کے بولنے کی آواز آ رہی تھی دروازہ کھلا دیکھ کر متجسس سی وہ بنا نوک کیے اندر آگئی۔

یار فہیم تو بتا نا میں اسے کیسے پرپوز کروں یار میں چاہتا ہوں کچھ سپیشل ہو ایسے نہیں کہ ماں باپ رشتہ کر کے بتا دیں ہم نے تمہارا رشتہ کر دیا ہے اور شادی کچھ سال بعد کریں گے مجھے کچھ نیا کرنا ہے تا کہ کل کو اپنی لو سٹوری اپنے بچوں کو سناؤں تو میرے بچے بھی خوش ہوں کہ میں ان کی ماں سے کتنی محبت کرتا ہوں۔


سہراب بیڈ کی دوسری سائیڈ پر تھا اسے صنوبر کے آنے کا نہ پتہ چلا اور کال پر مصروف رہا۔ صنوبر ساکت رہ گئی اور اگلے ہی لمحے جیسے دبے پاؤں آئی تھی ویسے ہی واپس چلی گئی۔

صنوبر اپنے کمرے میں آ کر سوچ رہی تھی کہ کون ہے وہ لڑکی جس سے سہراب شادی کرنا چاہتا ہے آخر مجھے کیسے نہیں پتہ چلا کہ سہراب کسی سے محبت کرتا ہے چلو ابھی سو جاتی ہوں میں کل رمضیہ اور فائقہ سے پوچھوں گی شاید ان کو کچھ پتہ ہو۔


میری چڑیل تمہیں کیا لگا کہ تم میرے کمرے میں آ کر چھپکے سے میری باتیں سنو گی اور مجھے پتہ نہیں چلے گا تو یہ تمہاری سب سے بڑی بھول ہے زوبیہ میڈم سہراب خیالوں میں صنوبر سے مخاطب ہوتے مسکرا کر بولا اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کس سوچ میں گم ہے میرا بیٹا حنا بیگم رومان کے کمرے میں دودھ کا گلاس دینے آئیں تھیں اسے سوچ میں گم دیکھ کر پیار سے بولیں۔۔

کچھ نہیں امی آپ ادھر آئیں میرے پاس بیٹھے ایک بات بتائیں آپ نے سچ میں اپنی خوشی سے افق کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کیا ہے رومان کو شام سے ہی یہ بات پریشان کر رہی تھی کہ کہیں اس کی امی نے مجبوری میں تو فیصلہ نہیں کیا اس کی اور افق کی شادی کا اس لیے اب حنا بیگم سے پوچھ رہا تھا۔۔


نہیں رومان میں کیوں کسی مجبوری میں فیصلہ کروں گی بیٹا میں نے تو کافی دیر پہلے سوچ لیا تھا کہ افق کو میں تمہاری دلہن بناؤں گی پر پہلے کبھی رشتے کی بات نہیں کی کیونکہ میں چاہتی تھی تم اپنی پڑھائی مکمل کر لو مگر اب بھائی صاحب کی طبیعت کی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا ہے جلد سے جلد تمہاری اور افق کی شادی ہو جائے۔۔


مگر امی اتنی جلدی شادی میرا مطلب ہے رشتہ پکا ہو گیا نا تو شادی میری سٹڈیز کمپلیٹ ہونے کے بعد کر دیتیں آپ۔

کیا تم کسی اور سے شادی کرنا چاہتے ہو حنا بیگم نے سختی سے پوچھا۔

نہیں امی ایسا کچھ نہیں ہے جو آپ کی پسند ہے وہی میری پسند ہے رومان نے بوکھلاتے ہوئے کہا۔

بیٹا تم نہیں جانتے افق اور رمضیہ کے تایا والوں کو وہ بہت ظالم ہیں تبھی تو بھائی صاحب کسی سے نہیں ملتے اور تنہا ہی اپنی بچیوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں حنا بیگم نے افسردگی سے بتایا۔


کیا مطلب امی رومان نے نا سمجھنے والے انداز میں پوچھا۔۔

کچھ نہیں تم یہ سب چھوڑو اور سو جاؤ صبح بہت کام ہیں تم نے یونی بھی جانا ہے اور دوستوں کے ساتھ شادی کی شاپنگ کے لیے بھی اور تھوڑا سا ٹائم نکال کر آفس کا بھی چکر لگا لینا حنا بیگم نے جلدی سے کہا کہ کہیں وہ بال کی کھال نا نکالنے بیٹھ جائے۔۔

ٹھیک ہے امی آپ بھی سو جائیں اب رومان سمجھ گیا کہ اس کی امی بتانا نہیں چاہتیں اس لیے سونے کی تیاری کرنے لگا۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح ارتضیٰ اذہان اور فہیم سب سے پہلے یونی پہنچے۔

کہاں رہ گئے ابھی تک پہنچے کیوں نہیں اذہان نے ارتضیٰ سے پوچھا انہیں گیٹ کے پاس کھڑے ہوئے دس منٹ ہو چکے تھے ابھی تک ان تینوں کے علاوہ ان کے گروپ کا کوئی ممبر نہیں آیا تھا۔

صائب آج نہیں آئے گا رمضیہ صنوبر اور فائقہ بھی نہیں آئیں گیں سہراب اور رومان بس پہنچنے والے ہیں ارتضیٰ نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔


کیاااااااا؟ اذہان چیخ مار کر ارتضیٰ کی طرف لپکا کمینے تو اب بتا رہا ہے پہلے نہیں بتا سکتا تھا میں بھی نا آتا آج اور دیکھو یہ سب ایسے چھٹی مار کر بیٹھے ہیں جیسے شادی ان سب کی ہی ہو رہی ہو بے وفا دوست غدار ایک نمبر کے ارتضیٰ سے بولنے کے بعد اذہان اپنے مصنوعی آنسو صاف کرنے لگا۔


یار اب اتنی بڑی بات بھی نہیں چل بم ہم تو کلاس میں چل کر بیٹھیں آجائیں گے رومان اور سہراب بھی فہیم نے اس کے ڈرامے سے چڑتے ہوئے کہا اور کلاس کی طرف چلا گیا۔

یہ جو تجھے آج کلاس میں جانے کی جلدی ہے نا جانتا ہوں میں اچھے سے میرے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے ذلیل انسان اذہان نے فہیم کی پشت کو گھورتے ہوئے اونچی آواز میں کہا۔


ڈرامے بند کر اب آگیا ہے نا تو کلاس بھی لے لے آجا ہم بھی چلیں ارتضیٰ نے اذہان کو پیار سے پچکارتے ہوئے کہا۔

تو بچ مجھ سے سہراب میرا ٹائم بھی آئے گا یاد رکھ اذہان نے دھمکی دی۔۔

اوکے میری جان ارتضیٰ آنکھ مار کر کلاس کی طرف بھاگا۔

رک سہراب کے بچے تجھے میں بتاتا ہوں اذہان بھی اس کے پیچھے بھاگا۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لڑکیوں اٹھ جاؤ اور کب تک سونا ہے افق نے رمضیہ اور فائقہ کو اٹھاتے ہوئے کہا۔۔

اٹھ گئیں ہیں ہم دلہن صاحبہ رمضیہ نے آٹھ کر بیٹھتے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کہا فائقہ بھی ہنس دی۔

گڑیا آپی ہوں میں تمہاری آپی ہی بولا کرو افق نے چڑتے ہوئے کہا۔


اوووہ ہماری آپی جان کو شمیاں آ رہی ہے فائقہ نے ہنستے ہوئے کہا۔۔

بس کرو اب اٹھو ناشتہ کرو ورنہ ناشتے کے بغیر جانا شاپنگ کے لیے افق نے تنگ آ کر کہا۔

اچھا بھئی آپ ناشتہ بنائیں ہم بس فریش کر آتے ہیں رمضیہ نے بیڈ سے اترتے ہوئے کہا اور فائقہ کو بھی اٹھایا۔

ٹھیک ہے جلدی سے فریش ہو کر آؤ میں بناتی ہوں ناشتہ افق رمضیہ سے کہا اور نیچے کچن میں آ کر ناشتہ بنانے لگی۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سہراب دور ہو جا میری نظروں کے سامنے سے وہ سب کلاس سے نکلے ہی تھے کہ سہراب کو دیکھتے اذہان نے کہا۔

کیوں بے میں نے کیا کیا ہے اب؟ سہراب نے حیرت سے پوچھا۔

الو کہیں کے تجھے بتاؤں تو نے کیا کیا ہے اذہان سہراب کی گردن دبوچ کر زور دے کر بولا۔۔


ارتضیٰ اور فہیم بیزاری سے ادھر ادھر دیکھنے لگے جانتے تھے اب اذہان کا میلو ڈرامے شروع ہونے والا ہے جبکہ رومان سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہوا کیا ہے۔

تیری کزن ہے صنوبر اس لیے تو اسے سپورٹ کرتا ہے ہر بار اور ہم تیرے کچھ نہیں لگتے آج اپنی کزن کو چھٹی کروا لی تو نے اور میں معصوم میں نے کیا بگاڑا تھا تیرا مجھے بھی بتا دیتا میں بھی نا آتا آج اذہان سہراب کی کمر میں مکا جڑتے ہوئے بولا۔

ابے تیری ایسی کی تیسی کمر توڑے گا کیا میری یہ دیکھ رومان سامنے کھڑا ہے شادی اس کی ہے یہ بھی تو آیا ہے نا آج یونی تو کیوں اتنا تڑپ رہا ہے سہراب کمر مسلتے ہوئے رومان کی طرف اشارہ کر کے بولا۔


اذہان میرے بھائی تو کل مت آنا ٹھیک ہے تو بھی کل چھٹی کر لینا اب غصہ ختم کر اور چل کینٹین چلتے ہیں پھر صائب کو کال کریں گے کہ شاپنگ پر جانے کا کیا پلین ہے رومان نے اذہان کو پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا اور وہ سب کینٹین کی طرف آگئے۔

رمضیہ کہاں رہ گئی ہو بھئ جلدی آجاؤ ابھی صنوبر کی طرف بھی جانا ہے وہاں بھی ٹائم لگے گا جلدی کرو ایک تو اس لڑکی کی تیاریاں نہیں ختم ہوتیں افق نے غصے سے کہا۔

آپی ریلیکس رمضیہ آ رہی ہے فائقہ نے افق کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔


سوری سوری آپی چلیں پہلے ہی لیٹ ہو گئے ہیں نکلتے ہیں اب رمضیہ نے بھاگ کر آتے ہوئے کہا۔

وہ تینوں گیٹ سے باہر نکلیں اور افق نے گیٹ کو لاک لگایا۔۔

میں آگے بیٹھوں گی فائقہ رمضیہ نے فائقہ سے کہا اور جلدی سے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئی فائقہ بھی ہنستے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھی افق بھی پیچھے بیٹھ گئی اور فائقہ نے گاڑی سٹارٹ کر کے آگے بڑھائی۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام و علیکم! ارتضیٰ صائب سے پوچھنے ہی لگا تھا کہ کہاں ہو تم اس سے پہلے ہی اذہان نے موبائل جھپٹ لیا۔

و علیکم السلام! صائب نے سلام کا جواب دیا وہ مزید کچھ پوچھتا کہ اذہان کی آواز سن کر حیران ہوا۔۔


صائب تو مل مجھے آج تجھے مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا تیری وجہ سے آج مجھے یونی آنا پڑا اور اس ٹکلے واجد کا بورنگ لیکچر سننا پڑا تجھے نہیں چھوڑوں گا میں کمینے اتنا تو مجھے اپنے باپ کے کہنے پر اثر نہیں ہوتا جتنا تیرے ہاتھوں زلیل ہونے سے ہوتا ہے پر اب نہیں سنوں گا میں تیری بتا رہا ہوں میں ناراض ہوں تجھ سے ہنہ۔۔۔صائب کو بولنے کا موقع دیے بغیر اذہان اپنا غصہ نکالتا رہا اور آخر میں ناراض بیویوں والی ایکٹنگ کر کے ارتضیٰ اور فہیم کو دیکھا جو حیرت سے منہ کھول کر دیکھتے رہے اور اگلے ہی لمحے ہنسی سے پاگل ہونے لگے۔۔


اذہان دونوں کو گھورتے ہوئے موبائل کی طرف متوجہ ہوا جہاں کال پر صائب کہ رہا تھا اذہان میری جان پہلے تو میری بات سن استاد کے لیے اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں کرتے سمجھا اور مجھے آج کام تھا اسلیے میں نہیں آیا کل آوں گا پکا۔۔

تو نہیں بھی آئے گا تو چلے گا مگر وہ رضیہ سلطانہ صنوبر اور فائقہ کیوں نہیں آئیں یہ بتا ذرا تجھے پتہ ہے نا رضیہ سلطانہ کے بنا میرا دل نہیں لگتا پھر بھی تو جان بوجھ کر مجھے تنگ کرتا ہے اذہان نے روتی آواز سے کہا ( جو کہ ناٹک تھا)۔


اذہان دیکھ تجھے کتنی بار سمجھایا ہے ایسے نہیں بولا کر رمضیہ نام ہے اس کا صائب نے اک بار پھر اذہان کو سمجھایا پر وہ الگ بات ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔۔

سن اس ٹائم میرا موڈ بہت خراب ہے تیرا لیکچر سننے کا موڈ نہیں ہے تو یہ بتا کہاں ہے اور شاپنگ پر جانے کا کیا ارادہ ہے اذہان نے بیزاری سے کہا۔

فری ہوں میں بس نکلنے لگا ہوں تم لوگ بھی نکل آؤ اور رمضیہ والوں سے بھی پوچھ لو کہ وہ لوگ کہاں ہیں صائب نے کہا۔


چل ٹھیک ہے بند کر اب کال اللّٰہ حافظ اذہان نے کال بند کر کے ارتضیٰ کی طرف پھینکا موبائل۔

ماں صدقے میرا موبائل ابھی گر جاتا اذہان تمیز سے نہیں پکڑا سکتا تھا سہراب بمشکل موبائل پکڑتے ہوئے اذہان سے بولا۔

نہیں اذہان دانت نکال کر بولا فہیم سہراب اور رومان بھی ہنس دیے۔

چلو اٹھو صائب کہ رہا ہے مال پہنچو شاپنگ کے لیے اور رضیہ سلطانہ کو بھی پوچھو کہاں ہے وہ اذہان چئیر سے اٹھتے ہوئے بولا


اوکے چلتے ہیں پھر ہم بھی دولہا میاں تم بھی اٹھ جاؤ یا یہیں بیٹھے رہنا ہے فہیم بھی اٹھ کھڑا ہوا اور رومان کو دیکھ کر بولا۔۔

چلو رومان بھی کھڑا ہو گیا اور وہ سارے کینٹین سے نکل کر گیٹ کی طرف آئے اور ارتضیٰ فہیم اور اذہان کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھے جبکہ سہراب رومان کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھ گیا اور وہ سب مال کی طرف روانہ ہوئے۔۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افق رمضیہ اور فائقہ صنوبر کے ساتھ اس کے کمرے میں بیٹھیں تھیں جب صنوبر نے رمضیہ سے کہا رمضیہ مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے۔

جی پوچھو رمضیہ صنوبر کی طرف متوجہ ہوئی۔

وہ میں نے ابھی صنوبر بول ہی رہی تھی کہ رمضیہ کا موبائل بجنے لگا۔

کس کی کال ہے افق نے پوچھا۔


رمضیہ موبائل کی طرف دیکھتی ہوئی بولی ارتضیٰ کی کال ہے اور کال پک کر کے موبائل کان سے لگایا۔

اسلام و علیکم رضیہ سلطانہ کیسی ہو؟ اذہان نے چہکتے ہوئے پوچھا۔

رمضیہ نے حیرت سے موبائل کان سے ہٹا کر دوبارہ دیکھا کہ ارتضیٰ نے ہی کال کی ہے تو اذہان کی آواز کیوں آ رہی ہے۔

کیا ہوا فاقہ اور صنوبر رمضیہ کی طرف دیکھ کر بولیں جبکہ افق کا دھیان نہیں تھا ان کی طرف وہ سہراب کی بھابھیوں سے بات کر رہی تھی۔


کیا ہوا رضیہ سلطانہ کہیں جل تو نہیں گئی میری خوبصورت آواز سن کر اذہان ذرا تشویش سے بولا۔

منہ دیکھا ہے اپنا تمہاری آواز پھٹے ڈھول جیسی ہے میں کیوں جلوں گی رمضیہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح کر کے گردن مروڑ کے رکھ دے اذہان کی صنوبر اور فائقہ بھی کچھ ایسا ہی سوچ رہیں تھیں۔

ارتضیٰ آہستہ آواز میں بولا میرے بھائی باقی باتیں مل کر کر لینا ابھی بند کر دے کال میرا بیلنس ضائع ہو رہا ہے۔

مر مت نہیں ہو رہا ضائع بس دو باتیں کر لوں پھر کر دیتا ہوں بند کال اذہان نے تسلی دی۔


اب بولو بھی کنجوس آدمی اپنے موبائل سے کال کرنے کی بجائے ارتضیٰ کا بیلنس کیوں ضائع کر رہے ہو رمضیہ نے اذہان کو کچھ  شرم دلانی چاہی پر وہ بھول گئی تھی کہ بچپن سے ابھی تک جو کام اس کے گھر والے نہیں کر سکے تو رمضیہ کیسے کر سکتی تھی۔

تمہیں سب کی فکر ہے اک سوائے میری خیر کہاں ہو جہاں بھی ہو مال پہنچو ہم بھی پہنچ گئے ہیں مال پہنچتے ہی اذہان نے رمضیہ سے کہا۔ کال کاٹ کر ارتضیٰ کو دیا موبائل اور بولا لے رکھ اپنا موبائل تیرا تو دم ہی نکلنے لگا تھا اور گاڑی پارک کرنے لگا۔

ارتضیٰ بس گھور کر رہ گیا اسے۔


ارتضیٰ نے پیچھے دیکھا تو فہیم سویا پڑا تھا ابے سالے اٹھ تجھے تو ہر جگہ اپنا بیڈروم لگتا ہے فہیم کو آواز دے کر بولا۔

فہیم کو نا اٹھتے دیکھ کر ارتضیٰ نے پیچھے کی طرف جھکتے ہوئے فہیم کے منہ پر رکھ کر چماٹ مارا۔

کیا ہوا کیا ہوا فہیم ہڑبڑا کر اٹھا۔

کچھ نہیں ہوا چل مال آگیا ہے گاڑی بھی پارک ہو چکی ہے نکل اب باہر ارتضیٰ کہتے ہوئے باہر نکلا اذہان اور فہیم بھی باہر نکل آئے رومان اور سہراب ان سے پہلے ہی اندر چلے گئے تھے وہ تینوں بھی مال کی طرف بڑھے۔


اففففففف یار کتنی دیر لگے گی اب رمضیہ ٹریفک دیکھ کر پریشانی سے بولی اذہان نے جیسے ہی کال بند کی تھی وہ چاروں اسی ٹائم صنوبر کے گھر سے نکلیں راستے میں اذہان کے گھر سے رانیہ کو لیا اور مال کے لیے نکل گئیں اور اب وہ پانچوں ٹریفک میں پھنسیں تھیں۔۔

پتہ نہیں دعا کرو جلدی پہنچیں ورنہ ان لڑکوں نے تو طعنے دے دے کر ہی دل جلا دینا ہے فائقہ بولی جبکہ صنوبر افق اور رانیہ بیچاریں دعا کرنے لگیں۔۔

بیس منٹ مزید انتظار کے بعد آخر کار رستہ صاف ہوا ان سب نے بے ساختہ اللّٰہ کا شکر ادا کیا اور فائقہ نے گاڑی سٹارٹ کر کے بھگائی۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہاں رہ گئیں یہ لڑکیاں ضرور میکپ کرنے میں ہی ٹائم لگا رہیں ہوں گی توبہ ہے پتہ نہیں کتنا میکپ تھوپیں گیں لگتی تو پھر بھی چڑیلیں ہی ہیں فہیم کوفت سے بولا وہ سب پچھلے 1 گھنٹے سے انتظار کر رہے تھے اور ابھی تک رمضیہ والوں کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا۔

آجائیں گی ٹریفک میں پھنس گئیں ہوں گی صائب نے آرام سے کہا اور رومان نے بھی سر ہلا کر تائید کی کہ صائب کا موبائل بج اٹھا سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام و علیکم! افق آپی کہاں ہیں آپ صائب نے موبائل کان سے لگاتے ایک دم پوچھا۔

و علیکم السلام چھوٹے بھائی صاحب ہم پہنچ گئیں ہے اب باہر تشریف لاؤ اور لے کر جاؤ ہمیں افق نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اوکے آپی میں آرہا ہوں صائب نے کل بند کی اور کسی کو کچھ پوچھنے کا موقع دیے بغیر باہر کی طرف بھاگا۔

کیا کہ رہا تھا افق کو موبائل پرس میں ڈالتے دیکھ کر فائقہ نے پوچھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آ رہا ہے دو منٹ تک افق نے جواب دیا۔

ہمممم رمضیہ اور صنوبر بھی سر ہلا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگیں۔۔

اسلام علیکم چلیں اندر پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے صائب افق کے پاس آ کر بولا اور آگے بڑھا۔

وعلیکم السلام ان پانچوں نے سلام کا جواب دیا اور صائب کے پیچھے پیچھے چل دیں۔۔


وہ صائب کے پیچھے پیچھے ہی اندر اندر آئیں جہاں۔ رومان ارتضیٰ سہراب اور فہیم کھڑے تھے اور ان کی طرف ہی دیکھ رہے تھے افق نے جیسے ہی سامنے دیکھا تو رومان سے نظریں ملنے پر گھبرا کر جلدی سے رمضیہ کے پیچھے ہو گئی۔۔

کیا ہوا آپی رمضیہ نے حیرت سے افق کو دیکھا۔۔

کچھ نہیں بس ایسے ہی افق نے آہستہ سے جواب دیا۔

اہممم تو رضیہ سلطانہ کی شاہی سواری آ ہی گئی ان کے قریب آنے پر اذہان طنزیہ بولا۔


وعلیکم السلام تم نے تو کرنا نہیں سلام میں نے سوچا میں ہی جواب دے دیتی ہوں خبیث انسان رمضیہ نے دانت پیستے ہوئے کہا صنوبر اور فائقہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسیں ارتضیٰ اور فہیم کی بھی ہنسی چھوٹی۔

ہنہ بات مت بدلو شرافت سے بتاؤ اتنی دیر کہاں لگا دی اذہان نے رعب سے پوچھا۔

تم میرے بھائی لگتے ہو جو تمہیں بتاؤں میں کہ میں کہاں تھی رمضیہ نے غصے سے کہا۔

جہاں ان سب کی ہنسی رکی تھی اب دوبارہ سٹارٹ ہو چکی تھی اذہان کا منہ کھل گیا اتنی عزت افزائی پر۔


چل بیٹا اب اور ذلیل ہونے سے بہتر ہے تو منہ بند کر کے سائیڈ ہو جا ارتضیٰ نے کہا اور باقی سب بھی ہاں میں سر ہلانے لگے۔

دیکھ لوں گا میں تمہیں رضیہ بیگم اذہان نے مصنوعی غصے سے دھمکی دی اور آگے چلا گیا باقی سب بھی آگے بڑھے۔

میرا خیال ہے رومان اور افق بھابھی آپ دونوں کو ایک دوسرے کی پسند سے شاپنگ کرنی چاہیے کیوں بھائی لوگ اذہان جو آگے جا رہا تھا واپس ان کی طرف آیا اور رومان افق کو دیکھ کر شرارت سے بولا ساتھ ہی باقی سب سے تائید چاہی۔


بلکل غنڈے لگ رہے ہو ایسی لینگویج استعمال کرتے ہوئے فائقہ نے تپ کر کہا۔

نا نا غنڈے کا رول تو یہ ہمارا فہیم پلے کرتا ہے پتہ ہے نا یونی میں ہر پھڈے کے پیچھے ہمارے فہیم دادا کا ہاتھ ہوتا ہے اذہان نے فہیم کو دیکھ کر کہا اور کسی حد تک اس کی بات سچی بھی تھی۔

نہیں میں رمضیہ والوں کے ساتھ کر لوں گی شاپنگ افق نے منمناتے ہوئے کہا رومان کے دیکھنے کی وجہ سے وہ بہت نروس ہو رہی تھی۔


افق آپ میری پسند کی شاپنگ کریں گی تو مجھے اچھا لگے گا کیوں کے دیکھنا تو میں نے ہی ہے تو اتنا حق تو بنتا ہے نا میرا رومان نے پیار سے افق سے کہا 

افق کی تو ہتھیلیاں پسینے سے بھوگ گئیں اسے شرم آ رہی تھی۔

اووووووووووووو اتنی محبت اذہان اور سہراب نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا لڑکیاں بھی مسکرا کر دیکھ رہیں تھیں افق اور رومان کو۔

اذہان ٹھیک کہ رہا ہے تم دونوں اپنی اپنی پسند کی شاپنگ ایک ساتھ ہی کر لو صائب نے بھی کہا۔


تجھے بڑا پتہ ہے اس بارے میں اذہان کی زبان پر ایک بار پھر کھجلی ہوئی۔

اذہان اب بس کر فضول مت بول اور چلو سب اتنی دیر کر دی ہے پہلے ہی صائب نے سب کو بھگایا۔

فائقہ تم اور میں ساتھ شاپنگ کرتے ہیں ارتضیٰ نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔

رانیہ نے سن لیا اور بولی نہیں فائقہ آپی میرے ساتھ جائیں گی چلیں آپی اور فائقہ کو لے کر چلی گئی۔

کوئی بات نہیں تیرا ٹائم بھی آئے گا ارتضیٰ جو صدمے میں تھا سہراب کے کہنے پر ہوش میں آیا اور بولا تو نہیں گیا صنوبر کے ساتھ۔


نہیں وہ سب لڑکیاں ہیں کرنے دے انہیں اکھٹے شاپنگ آجا ہم صائب والوں کے پاس چلیں۔

یار میرا خیال ہے کہ پہلے دولہا دلہن کی شاپنگ کمپلیٹ ہو جائے پھر اپنے بارے میں کچھ سوچیں گے کیا کہتے ہو سہراب سب کو دیکھ کر بولا۔

کہ تو ویسے تو ٹھیک رہا ہے چلو پھر نکاح مہندی بارات اور ولیمے میں جو جو سامان چاہیے پہلے وہ دیکھ لیتے ہیں صائب نے کہا اور وہ سب شاپ میں گھس گئے۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افق اگر آپ کو کوئی بھی بات کرنی ہو آپ بلا جھجک مجھ سے کر سکتی ہیں ٹھیک ہے رومان اور افق برائڈل ڈریس دیکھ رہے تھے جب رومان نے افق سے کہا۔

افق نے کافی حد تک اپنی گھبراہٹ پر قابو پا لیا تھا اس لیے آرام۔سے بولی جی ٹھیک ہے اس کے بعد وہ ڈریسز کی طرف متوجہ ہو گئے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رمضیہ ہم اپنے ڈریسز آج لے لیتے ہیں اور باقی سامان پھر بعد میں لے لیں گے فلحال افق آپی کی چیزیں کمپلیٹ کرنی ہیں فائقہ نے رمضیہ سے کہا جو صنوبر اور رانیہ کے ساتھ مل کر ڈریسز دیکھ رہی تھی۔۔

فائقہ تائی امی واجدہ آنٹی اور خالہ جانی ہر  ڈریس ریڈی کر رہیں ہیں افق آپی کے لیے جیولری کا آرڈر بھی آج بابا دے دیں گے صائب کے گھر ہی ہیں بابا وہاں سے انکل کے ساتھ جائیں گے ہمیں بس گفٹس لینے ہیں اور اپنی چیزیں لینی ہیں رمضیہ نے تفصیل سے بتایا۔


تو آپی ہمیں سب ڈریسز لے لینے چاہیں ورنہ پھر بھائی آئیں گے تو بولیں گے اتنی دیر ہو گئی ہے کچھ لیا نہیں تم لوگوں نے رانیہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

سہی کہ رہی ہو وہ بھکڑ اذہان تو ہمارا جانی دشمن ہے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا بیستی کرنے کا صنوبر نے بھی تپ کر کہا وہ سب ہنس دیں۔۔

اچھا چلو اب جلدی سے ڈریسز سیلیکٹ کرو فائقہ نے جلدی سے کہا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلو جی بھائی لوگ اپن کا کام تو ہو گیا اپن چلا اب ذرا پیٹ پوجا کرنے اپن تھک گیا ہے اور اپن کو بھوک بھی بہت لگ رہی ہے اذہان بلکل موالیوں والے سٹائل میں بولا وہ سب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے جس نے سوائے حکم چلانے کے اور کوئی کام نہیں کیا۔۔

نا تو نے ایسے کون سے ہل جوت لیے تو تو بس اپنے جیسے فضول قسم کے مشورے دیتا رہا ہے اور بول تو ایسے رہا ہے جیسے ہمیں بھی اپنے کندھے پر بٹھا کر گھما رہا ہے تو جو تھک گیا ہے فہیم اذہان کو غصے سے بولا اور ساتھ ایک تھپڑ بھی جڑ دیا کمر پر۔


دو اور لگا اس کو میری طرف سے ارتضیٰ بولا۔

میری طرف سے بھی دو جھانپڑ لگا اس کمبخت کو سہراب نے بھی حصہ ڈالا۔

سالوں غداروں مجھ معصوم کو بخش دو اور اب چلو جو سامان رہ گیا ہے کل لی لیں گے اذہان فہیم سے ہاتھ چھڑا کر بھاگا۔

یہ نہیں سدھرے گا صائب نے ہنستے ہوئے کہا تم لوگ چلو میں ذرا رمضیہ والوں کو دیکھ لوں کہاں ہیں۔


وہ لوگ فوڈکورٹ کی طرف جانے لگے کہ بوتل کے جن کی طرح اذہان ایک بار پھر ان کے سر پر حاضر ہوا اور بولا میں جا رہا ہوں رضیہ سلطانہ کے پاس دیکھوں تو سہی کیا کیا لوٹ چکیں ہیں وہ عورتیں اور چھچاک سے غائب ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صائب چل ساتھ ہی چلتے ہیں ہم فہیم بولا اور سب صائب کے ساتھ رمضیہ والوں کو ڈھونڈتے لیڈیز ڈریسز والے ایریا میں آئے اور ایک شاپ میں انہیں رمضیہ صنوبر کھڑی نظر آئیں پاس ہی اذہان بھی کھڑا تھا وہ لوگ بھی ان کی طرف آگئے۔

رضیہ سلطانہ یہ لال رنگ تم پر بہت اچھا لگے گا تم یہی کلر لو رمضیہ نے وائٹ لانگ فراک لی تھی افق کے نکاح پر پہننے کے لیے اور اس کا دوپٹہ ریڈ کلر کا تھا وہ ہاتھ میں پکڑے کھڑی تھی کہ اذہان شوخ ہوتے ہوئے بولا۔


تم پہن لو اتنا ہی اچھا لگ رہا ہے تو فائقہ بولی اور سب ہنسنے لگے۔

اچھا دیکھاؤ ذرا اذہان نے رمضیہ سے دوپٹہ چھینا اور سر پر رکھ گھونگھٹ نکال بولا فہیم مائی ہبی ادھر آو بتاؤ میں کیسی لگ رہی ہوں۔

فہیم قریب آ کر بولا ارے بےبی اتارو اسے ہم دوسرا لیں گے یہ رمضیہ کا ہے اور اذہان کے منہ سے دوپٹہ ہٹانے لگا۔

لال دوپٹہ تم نے چھینا مجھ سے زبردستی کر کے

مجھ کو پیا نے دیکھ لیا ہئے رے دھوکے سے 


اپنی مرضی کے جملے ترتیب دے کر اذہان گانا گانے لگا وہ سب سر پیٹ کر رہ گئے کہ یہ یہاں بھی باز نہیں آیا جبکہ آس پاس سیلز مین اور کسٹمرز بھی اذہان کے ڈرامے دیکھ کر قہقے لگانے پر مجبور ہو گئے۔

فہیم اذہان کو کھینچ کر باہر لے کر گیا باقی سب بھی اپنا سامان اٹھائے باہر نکلیں۔

میں رومان کو کال کر لوں ذرا کدھر رہ گیا ہے وہ صائب موبائل آن کرتے ہوئے بولا۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سب فوڈ کورٹ میں بیٹھے تھے افق اور رومان بھی تھوڑی ہی دیر بعد آگئے۔

آرڈر کرو صائب نے سب سے کہا۔

جو مرضی منگوا لو صائب ہم کھا لیں گے افق نے کہا۔

میں تو اپنی مرضی کا منگواوں گا اذہان بولا ۔


گینڈے جو منگوائے گا صائب تو بھی وہی ٹھونس لینا پھٹے گا کیا کھا کھا کر رومان لب دبا کر بولا۔

اپنی ہونے والی دلہن کے سامنے زیادہ شودا ہونے کی ضرورت نہیں ہے تجھے چپ چاپ بیٹھ جا ورنہ ادھر ہی تیرا کچرا کر دوں گا اذہان نے دھمکی دی اور رومان بیچارہ اپنی عزت اپنے ہاتھ کے تحت چپ کر گیا۔

اذہان ارتضیٰ سہراب اور فہیم نے اپنی فیوریٹ چیزیں آرڈر کی تھیں اس لئے جا کر دوسری ٹیبل پر بیٹھ گئے کہ کہیں ان سے کچھ کھانے کو ہی نا مانگ لیں وہ۔

وہ کھا پی کر فارغ ہونے کہ بل دینے کے لیے اذہان نے صائب کو دیکھا اور بولا ہم سب باہر ویٹ کرتے ہیں تو بل دے کر آجا۔

ایک منٹ کس نے کہا میں بل دے رہا ہوں بل تو دے گا صائب سنجیدگی سے بولا۔


کیااااا نہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ دو یہ جھوٹ ہے میرا دل بند کو رہا ہے کوئی بچاؤ مجھے اذہان کے ڈرامے پھر سٹارٹ ہو چکے تھے۔

مر مت مزاق کر رہا ہوں تم لوگ جاؤ میں آتا ہوں بل دے کر صائب ہنستے ہوئے کہ کر بل دینے چلا گیا اور باقی سب اذہان کو شرم دلاتے ہوئے باہر آگئے۔

وہ سب گاڑیوں میں بیٹھے اتنے میں صائب بھی آگیا ارتضیٰ تم افق آپی رمضیہ اور فائقہ کے ساتھ جاؤ واپسی پر میں انکل کو چھوڑنے آؤں گا پھر میرے ساتھ چلنا گھر ارتضیٰ کا تو دل کیا روڈ پر ہی بھنگڑا ڈالنا شروع کر دے اس کی خوشی کا اندازہ اس کے چہرے سے ہو رہا تھا۔


شوخا کہیں کا فائقہ کا دل چاہ رہا تھا ارتضیٰ کی گردن دبا دے۔

میں آپ لوگوں کا ڈرائیور نہیں ہوں براہِ مہربانی آپ میں سے کوئی آگے آ کر بیٹھے ارتضیٰ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر بولا۔

فائقہ کچھ کہتی اس سے پہلے ہی رمضیہ بولی فائقہ تم چلی جاؤ نا میں بہت تھک گئی ہوں بار بار نہیں اٹھنے ہوتا مجھ سے۔

فائقہ چپ چاپ آگے آ کر بیٹھ گئی ارتضیٰ دیکھ کر مسکرا دیا

فائقہ ارتضیٰ کو گھور کر گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔


کچھ دیر بعد رمضیہ بولی فائقہ کل سے ڈھولکی رکھ لیں گھر میں بہت مزہ آئے گا کیا کہتی ہو۔

او ہاں سچی بہت مزہ آئے گا بس گھر چل کر ڈیسایڈ کر لو کس کس کو بلانا ہے پھر فائقہ بھی خوش ہوتی ہوئی بولی اور ارتضیٰ فائقہ کو خوش دیکھ کر دل میں بولا یا اللّٰہ یہ لڑکی میرے نصیب میں لکھ دے میں نہیں رہ پاؤں گا اس کے بنا اس سب سے انجان فائقہ اور رمضیہ افق کے منع کرنے کے باوجود پلین بنانے لگیں کہ کل سے ڈھولکی رکھنی ہے گھر میں بس۔

تھوڑی ہی دیر میں رمضیہ والوں کا گھر آگیا ارتضیٰ نے گاڑی روکی اور وہ تینوں اترنے لگیں رمضیہ اور افق گیٹ کے پاس آگئیں افق گیٹ کھولنے لگی۔


تم آج بھی یہاں رکو گی ارتضیٰ نے فائقہ کو بھی ان کے پیچھے جاتے دیکھا تو  پوچھنے لگا۔

جی نانو نہیں آئیں ابھی تک اس لیے فائقہ نے جواب دیا۔

ٹھیک تم جاؤ اندر میں یہں بیٹھا ہوں صائب آجائے انکل کو لے کر تو میں پھر اندر آؤں گا فائقہ سمجھتے ہوئے سر ہلا کر اندر آگئی۔


وہ سب بہت عزت کرتے تھے ایک دوسرے کی اور گھر والوں کو ان پر بھروسہ بھی بہت تھا مگر لوگ باتیں بنانے سے باز نہیں آتے اس لیے ارتضیٰ اندر نہیں گیا کہ وہ تینوں اکیلی تھیں دیکھنے والے تو کچھ بھی غلط سمجھ لیتے اور بولتے جس سے ان لڑکیوں کی عزت پر داغ لگ جانا تھا جو ارتضیٰ کبھی نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صنوبر کیا جب سے آئی ہو ہر چیز پھیلا کر بیٹھی ہو اب اٹھو اور رکھ کر آؤ سمبھال کر واجدہ بیگم نے صنوبر کو کہا جو جب سے آئی تھی ساری شاپنگ پھیلا کر بیٹھی تھی اور خوش ہو کر سب کو دکھا رہی تھی سہراب اسے خوش دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔


کیا واجدہ تم بھی نا روکا کرو میری بچی کو کسی بھی کام سے دیکھو کتنی خوش سے دکھا رہی ہے وہ اور تم اسے ڈانٹ رہی ہو سہراب کی امی نے صنوبر کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔

تائی امی آپ بنا لیں نا اپنی بیٹی مجھے اسی لیے میں کہ رہی ہوں روز روز کی ڈانٹ سے بچ جاؤں گی پر آپ کی بیٹی بننے میں بھی ایک مسئلہ ہے صنوبر نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔

کیسا مسئلہ صنوبر ہانا بھابھی نے صنوبر سے پوچھا۔


بھابھی مجھے پھر آپ کے دیور کی بہن بھی بننا پڑے گا نا جو میں کسی صورت نہیں بننا چاہتی صنوبر نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا سب قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔

سہراب جو پہلے مسکرا رہا فوراً سیدھا ہوا اور صنوبر کو دیکھ کر دل ہی دل میں بولا میں محبت نا کرتا ہوتا نا تم سے تو اب تک تمہاری گردن اڑا چکا ہوتا میں زوبیہ صاحبہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپی میں بتا رہی ہوں بس کل سے ہم ڈھولکی رکھ رہیں ہیں ہمارے بھی ارمان ہیں رمضیہ افق سے ضد کرتے ہوئے بولی۔۔

ہیںںںںںںںں یہ ارمان کون ہے فائقہ جو صافے سے ٹیک لگا کر لیٹی ہوئی تھی فوراً سیدھی ہو کر بولی۔

رمضیہ نے فائقہ کو گھورتے ہوئے کہا فائقہ تم پر بھی صنوبر کا اثر ہو رہا ہے۔

میں تو ویسے ہی مزاق کر رہی تھی رمضیہ ڈارلنگ فائقہ نے دانت دکھا کر کھا۔


اب بس کرو تم دونوں اور چلو یہ سامان روم میں رکھ کر آو بابا بھی آنے والے ہوں گے افق نے ان دونوں کو اٹھایا اور خود کچن میں آگئی۔

اسلام و علیکم لاؤنج میں داخل ہوتے ہی صائب اور ارتضیٰ بلند آواز میں سلام کیا روحیل صاحب مسکرا دیے۔۔

افق کچن سے باہر نکلی اور سلام کا جواب دیتے روحیل صاحب کی طرف بڑھی۔۔

آپ لوگ بیٹھیں میں رمضیہ اور فائقہ کو بلاتی ہوں افق ان کو روحیل صاحب کے روم میں بیٹھنے کا بول کر رمضیہ اور فائقہ کو آوازیں دینے لگی۔رمضیہ فائقہ جلدی نیچے آؤ بابا آگئے ہیں اور خود کچن میں گھس گئی چائے بنانے۔


افق کی آواز سن کر وہ دونوں نیچے بھاگیں اور روحیل صاحب کے کمرے میں داخل ہوئیں مگر صائب کو دیکھ کر رمضیہ سٹپٹا گئی جبکہ ارتضیٰ کو نظر انداز کر کے فائقہ آگے بڑھی۔

اسلام و علیکم! رمضیہ بھی ہوش میں آتے ہی سلام کر کے اپنے بابا کے پاس جا کر بیٹھ گئ صائب مسکرا دیا۔۔

وعلیکم السلام! میری لاڈو رانی نے شاپنگ کر لی روحیل صاحب نے محبت سے رمضیہ کو دیکھ کر پوچھا۔

رمضیہ منہ بناتے ہوئے بولی کہاں بابا ابھی اتنا کچھ رہتا ہے کل پھر جائیں گے ہم۔۔


ٹھیک ہے میری شہزادی کل لے آنا جو لانا ہے روحیل صاحب مسکراتے ہوئے بولے اور ان کی نظر فائقہ پر پڑی جو شاید اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔

فائقہ بیٹی یہاں آؤ انہوں نے فائقہ کو اپنے پاس بلایا۔

جی انکل فائقہ اٹھ کر ان کے پاس آئی۔

 میری بیٹی کیوں اداس ہے انہوں نے فائقہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔


نہیں انکل میں نہیں اداس بس پاپا کی یاد آگئی فائقہ بمشکل آنسو چھپاتے ہوئے بولی ارتضیٰ کا دل کسی نے مٹھی میں بھینچ لیا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کسی طرح فائقہ کی تکلیف خود پر لے لے پر ایسا ممکن نا تھا۔

میری پیاری بیٹی میں بھی آپکے بابا جیسا ہوں ٹھیک ہے اب رونا نہیں میرے بچے نے روحیل صاحب نے محبت سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا رمضیہ بھی فائقہ کو گلے لگا کر بولی میرے بابا تمہارے بھی بابا ہیں میں کسی سے کچھ شئیر نہیں کرتی مگر تم سے اپنے بابا شئیر کر رہی ہوں اس کی بات پر سب ہنس دیے۔


افق چائے لے کر آئی اور رمضیہ کو ایک دم کچھ یاد آیا اور روحیل صاحب کا بازو ہلا کر بولی بابا کل سے ہم ڈھولکی رکھ رہیں ہیں گھر میں شادی ہے پتہ تو چلے۔

ٹھیک ہے جیسے میری لاڈو کہے روحیل صاحب نے کہا۔

نہیں بابا کوئی ضرورت نہیں ہے افق صائب اور ارتضیٰ کو چائے دے کر روحیل صاحب کی طرف آتے ہوئے بولی۔

کیوں ضرورت نہیں ہے بلکل ضرورت ہے گھر میں رونق ہو جائے گی اور میری لاڈو کی بھی تو خواہش ہے اس لیے کوئی اعتراض نہیں چلے گا دلہن صاحبہ روحیل صاحب شرارت سے بولے جہاں سب کے قہقے بلند ہوئے وہیں افق سٹپٹا کر سب کو دیکھنے لگی اور بولی کیا بابا آپ بھی گڑیا کے ساتھ مل گئے۔


بس ڈن ہو گیا ہے کل سے روز رات کو ڈھولکی رکھیں گے چل فائقہ جلدی چائے ختم کر پھر چلیں روم میں صنوبر رانیہ اور ارباب کو کال کر کے بتاتے ہیں رمضیہ جلدبازی سے بولی۔

یا اللّٰہ ان سب کے چہرے ایسے ہی خوشی سے کھلتے رہیں صائب نے صدق دل سے دعا مانگی اور ارتضیٰ کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا۔

روم میں آتے ہی رمضیہ صنوبر کو کال کرنے لگی۔

 (جاری ہے)

Yara Teri Yari Novel Part 3 by Aleena Meer, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, Friendship Base Novels

No comments:

Post a Comment