Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak - Farhan Speak

Thursday, September 7, 2023

Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak


 
Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, Friendship Base Novels
Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak
  



 نام ناول : یارا تیری یاری

 ازقلم : الینا میر

قسط نمبر:4


آج یونی میں ہر جگہ نیو کمرز ہی دکھائی دے رہے تھے کوئی بوکھلایا ہوا تھا اور کوئی مزے سے ادھر اُدھر کا جائزہ لے رہا تھا،کسی کے چہرے پر بارہ بج رہے تھے تو کسی کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔

وہ سب گراونڈ میں کھڑے تھے اور آتے جاتے سٹوڈنٹس کو تنگ کر رہے تھے۔

یار اب کس کو بیوقوف بنائیں اذہان فہیم سے بولا۔


مجھ سے تو ایسے پوچھ رہا ہے تو جیسے ہر کام مجھ سے پوچھ کر کرتا ہے تو فہیم طنزیہ انداز سے بولا۔

تم لوگ بناتے رہو بیوقوف لوگوں کو میں تو جا رہا ہوں لائیبریری رومان بولتے ہوئے لائیبریری کی طرف چل دیا۔

میں بھی چلتا ہوں ارتضیٰ بھی اس کے پیچھے بھاگا۔

کیسے ٹھنڈے مزاج کے لوگ ہیں ہنہ اذہان سر جھٹک کر بولا۔

سہراب اذہان کو دیکھ کر رہ گیا۔


اذہان کی نظر سامنے کھڑی دو لڑکیوں پر گئی شکل سے ہی لگ رہا تھا وہ نیو کمرز ہیں وہ صبح سے کوئی پچاس سٹوڈنٹس کو پاگل بنا چکا تھا اب اپنے نئے شکار کو دیکھ کر خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے بولا مل گیا شکار بیڑووو۔

سہراب اور فہیم بھی سامنے دیکھنے لگے یار چھوڑ کہیں لینے کے دینے نا پڑ جائیں سہراب بولا۔

ڈرپوک سالے تو بھی دفع ہو جا رومان والوں کے پاس فہیم چڑ کر بولا سہراب چپ کر گیا۔

میں بنتا ہوں سر کامران تو میرے ساتھ آجا فہیم ان پاپا کی پریوں کے پاس چلتے ہیں اذہان اپنے بال ٹھیک کرتے ہوئے بولا پاس سے گزرتے ایک لڑکے کو روکا اور اس کے ہاتھ سے گلاسز چھین کر لگائیں۔


اس بیچارے کو بھگا دیا اور آگے بڑھ گیا فہیم بھی اس کے پیچھے چل دیا جبکہ سہراب ان کی متوقع عزت افزائی دیکھنے کے لیے وہیں رک گیا۔

اذہان ان کے پاس جا کر کھڑا ہوا اور ان کی طرف دیکھ کر بولا کیا ہوا بیٹا آپ پریشان لگ رہی ہیں پھر دل میں خود سے مخاطب ہوا تف ہو تجھ پر اذہان اپنی ہم عمر لڑکی کو بیٹا کہ کر بلا رہا ہے کیا زمانہ آگیا ہے۔

آپ کون ہیں اذہان کی آواز پر وہ دونوں بوکھلا گئیں۔


میں کامران ہوں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کا ٹیچر اذہان آرام سے بولا فہیم تو اس کا اطمینان دیکھ کر دل میں داد دینے لگا۔

اوووہ اچھا سر وہ ہم نے لائبریری جانا ہے پر کوئی سہی راستہ نہیں بتا رہا آیت بولی۔جی سر اگر آپ بتا دیں گے تو مہربانی ہوگی وہ بھی دانت کچکچا تے اذہان کے گھورنے سے کوفت زدہ لہجے میں بولی۔

جی میں بتا دیتا ہوں راستہ مسسس۔۔۔۔


عمائزہ۔۔عمائزہ ضامن نام ہے میرا۔اذہان جو مس پر اٹک گیا تھا عمائزہ کے نام بتانے پر بولا ہاں تو مس عمائزہ لائیبریری کا راستہ یہاں سے سیدھا جائیں آگے سے رائٹ ٹرن لے لیجئے گا اس کے بعد بلکل سیدھا جا کر لیفٹ سائڈ پر لائبریری ہے اذہان کے راستہ سمجھانے پر فہیم  کا دل عش عش کر اٹھا اتنی شاندار ایکٹنگ پر اور اپنی ہنسی ضبط کرنے لگا عمائزہ مشکوک نظروں سے دونوں کو دیکھنے لگی اگر راستہ غلط ہوا تو ہم اکیلی نہیں جائیں گی آپ چلیں ہمارے ساتھ یا اپنے اس لنگور سٹوڈنٹ کو بھیجیں ہمارے ساتھ عمائزہ کوفت زدہ لہجے میں بولی۔


یہ لنگور کس کو بولا تم نے تم ہو گی لنگوری سمجھ آئی فہیم تپ کر بولا۔

میرے سامنے ذرا تمیز کا مظاہرہ کریں آپ دونوں اذہان مصنوعی غصے سے بولا پھر عمائزہ اور آیت کی طرف دیکھ بولا آپ دونوں جائیں اب وہ دونوں ان کو گھورتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔

سہراب جو چھپ کر دیکھ رہا تھا ان کو سہی سلامت وآپس آتا دیکھ کر بدمزہ ہوا وہ تو سوچ رہا تھا آج ایک آدھ چماٹ تو پڑھ ہی جائے گا اذہان کو مگر اتنی اچھی قسمت نہیں تھی سہراب کی کہ اس کی یہ خواہش پوری ہوتی۔

کیا بنا اذہان اور فہیم کے پاس آنے پر سہراب نے پوچھا۔


بننا کیا ہے لائیبریری کا پوچھ رہیں تھیں اس نے واشروم والی سائیڈ بھیج دیا فہیم ہنستے ہوئے بتانے لگا سہراب کا منہ کھل گیا اذہان تو بہت کمینی چیز ہے سہراب ہنستے ہوئے بولا۔

کوئی شک اذہان سر جھکا کر بولا جیسے تعریف کی گئی ہو اسکی۔

چل یار اب تو بھوک لگ رہی ہے باقی سب کو بھی بلاتے ہیں پھر کینٹین چلیں گے اذہان بولا اور وہ تینوں لائیبریری کی طرف آگئے۔

Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افففف یہاں تو لائیبریری نہیں ہے یہاں تو واشرومز ہیں آیت روہانسی ہوتی ہوئی بولی۔

ڈفر ایک بار پھر ہم بیوقف بنا دیے گئے ہیں اور وہ کوئی سر ور نہیں ہو گا کوئی سٹوڈنٹ ہی ہو گا ایک بار ملے منہ نا توڑا اس کا تو کہنا عمائزہ غصے سے بولی۔

چل یار اب کینٹین چلتے ہیں صبح سے خوار ہو رہے ہیں بہت بھوک لگ رہی ہے آیت منہ بنا کر بولی۔

ہاں چلو میرا بھی سر دکھ گیا صبح سے یہاں وہاں پھرتے پھرتے عمائزہ بھی بیزاری سے بولی اور وہ دونوں کینٹین کی طرف چل دی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارباب بیٹا ذرا اپنے بھائی کو تو کال کرو کب تک آئے گا مومنہ بیگم نے ارباب کے کمرے میں آ کر اسے کہا۔

ماما بھائی تھوڑی دیر سے آئیں گے انہوں نے میسج کیا تھا ارباب ٹیسٹ کی تیاری کر رہی تھی اس نے کتاب سے سر اٹھائے بنا ہی جواب دیا۔

دیر ہو جائے گی مومنہ بیگم منہ میں بڑبڑائیں ٹھیک ہے بیٹا میں پھر تمہارے پاپا کے ساتھ روحیل بھائی صاحب کی طرف جا رہی ہوں صائب آجائے تو تم دونوں وہیں آجانا

مومنہ بیگم چادر سر پر لیتی ہوئی بولیں اور کمرے سے نکل گئیں۔

ارباب دوبارہ کتاب پر دھیان دیتی ٹیسٹ یاد کرنے لگی۔

Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, Friendship Base Novels

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سب کینٹین میں بیٹھے کھا پی رہے تھے کہ سامنے سے آتی عمائزہ اور آیت کو دیکھ کر فہیم نے نہ اپنا رخ موڑ لیا۔

تجھے کیا ہوا رومان اور ارتضیٰ حیرت سے اسے دیکھنے لگے رمضیہ صنوبر اور فائقہ بھی ان کی طرف متوجہ ہوئیں۔

کچھ نہیں مجھے کیا ہونا ہے فہیم رومان کو دیکھتے بولا۔

کچھ تو ہے جو تو منہ چھپا رہا ہے بتا کونسا کانڈ کیا ہے اب تو نے ارتضیٰ بھی اسے مشکوک نظروں سے گھور رہا تھا۔

اذہان کی نظر ابھی تک عمائزہ اور آیت پر نہیں پڑی تھی ورنہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ بھاگنے میں منٹ بھی نا لگاتا۔


فہیم کچھ کہتا اس سے پہلے ہی آیت اور فائزہ کی نظر اذہان پر پڑی وہ جارہانہ انداز میں اذہان کے سر پر آ کر کھڑی ہو گئیں اور اذہان کو گھورنے لگیں جو سموسے کھا رہا تھا۔

وہ سب ان دونوں لڑکیوں کو دیکھ کر چونک گئے اذہان سموسے کھانے میں مگن تھا اس نے خاموشی پر سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے کھڑی عمائزہ پر نظر پڑی اسکا چلتا منہ رک گیا اور سموسہ گلے میں اٹک گیا پھر پھنسی پھنسی آواز میں بولا تممممم جبکہ وہ سب حیرت سے کبھی غصے سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ عمائزہ کو دیکھ رہے تھے تو کبھی اذہان کو جو آنکھیں گھما رہا تھا۔


ہاں میں۔۔۔ سر کامران پہچانا نہیں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو ملاقات ہوئی تھی ہماری یاد نہیں تو میں یاد دلاؤں عمائزہ الفاظ چبا چبا کر بولی۔ اور بات سمجھتے سب کے قہقے بے ساختہ تھے فائقہ اور صنوبر ہنسی ضبط کرتے اذہان کو دیکھ رہیں تھیں جو ایسے بیٹھا تھا جیسے اس کی نہیں کسی اور کی بات ہو رہی ہو۔

مس عمائزہ مل گئی تھی لائیبریری آپ کو راستے میں کوئی مشکل تو نہیں ہوئی اذہان فکرمندی سے بولا۔


نہیں میں بلکل ٹھیک پہنچ گئی تھی اور مسٹر تم دیکھنا اب میں تمہارے ساتھ کیا کرتی ہوں عمائزہ غصے سے بولتی آیت کا ہاتھ پکڑ کر آگے چل دی۔

صائب بولا اذہان تو باز نہیں آئے گا اپنی حرکتوں سے۔

چھوڑ دو سہراب اسے سمجھانا ایسے ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانا رمضیہ طنزیہ بولی۔

رضیہ سلطانہ مجھے ڈسٹرب نہیں کرو ورنہ تمہارے پیسوں سے آج پارٹی کروں گا میں اذہان رمضیہ کو اور تپاتے ہوئے بولا۔

چھوڑو اسے یہ تو ہے ہی پاگل صنوبر بولی۔


ہاں صرف تم ہو پوری دنیا میں سمجھدار اذہان مصنوعی سنجیدگی سے بولا۔

اچھا اب بس کرو اور اذہان جلدی ٹھونس پھر آخری کلاس لے کر گھر کے لیے نکلیں سہراب بولا ۔

کچھ یاد آنے پر صائب بولا ویلکم پارٹی ہے ان نیو کمرز کے لیے اور اس کے بعد اسائنمنٹ جمع کروانی ہے جلدی جلدی کمپلیٹ کر لو ابھی ٹائم ہے۔۔

اوووووہ میرے تو نوٹس بھی نہیں کمپلیٹ ارتضیٰ بولا۔

میرے بھی اذہان کو بھی جیسے یاد آیا اور میرے بھی صنوبر بھی بولی۔

ابھی کچھ دن ہیں کمپلیٹ کر لو اور اگر کچھ نا سمجھ آئے تو مجھے بتانا میں سمجھا دوں گا صائب بولا۔

کلاس کا ٹائم ہونے پر وہ سب اپنی اپنی کلاس کی طرف بڑھ گئے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سب گھر جانے کے لیے نکل ہی رہے تھے فائقہ صنوبر کو دیکھ کر بولی آج رات ٹائم سے آ جانا پھر ساتھ ہی صائب اور اذہان کو کہنے لگی ارباب اور رانیہ کو بھی چھوڑ جانا صائب اور ارتضیٰ کو تو پتہ تھا رات میں ڈھولکی رکھی ان لڑکیوں نے اس لیے بلا رہی ہیں جبکہ فہیم اذہان اور سہراب کے کان کھڑے ہو گئے ۔

کیوں بھئی رات کو کیا ہے اذہان نے پوچھا۔


تم سے مطلب تمہارا کوئی کام نہیں تو چپ کر کے بیٹھو رمضیہ گیٹ کی طرف پڑھتے ہوئے بولی۔

کیوں چپ کروں میں رضیہ سلطانہ مجھے بنا بتائے ایک قدم بھی بڑھایا تو تمہیں میری لاش پر سے گزرنا ہوگا اذہان نے جزباتی ہوتے ہوئے رمضیہ کا راستہ روکا۔

اوکے ایز ہو وش رمضیہ کہتی ہوئی اذہان کو دھکا دے کر آگے بڑھی اذہان سے تو صدمے سے کچھ بولا ہی نا گیا۔


چل کروا لی عزت اب نکل لے پتلی گلی سے فہیم آگے آ کر بولا اور سب ہنستے ہوئے گیٹ سے باہر نکلے ہم سب بھی آئیں گے آج رات دیکھتا ہوں کون روکتا ہے ہمیں اذہان رمضیہ سے بولا۔

ہاں دیکھی جائے گی اللّٰہ حافظ رمضیہ صنوبر اور فائقہ ایک ساتھ بولیں وہ سب نکل رہے تھے کہ اذہان کی نظر  گیٹ سے نکلتی عمائزہ پر پڑی اور فوراً شیطانی دماغ میں آئیڈیا آتے ہی عمائزہ کی طرف بڑھا۔


میں ڈراپ کر دوں مس عمائزہ آپ کو اذہان شرارت سے بولا۔

میرے ابھی اتنے بڑے دن نہیں آئے کہ اذہان عرف شیطان کے  ساتھ اس کی گاڑی میں جاؤں مجھے پیدل چلنا منظور ہے تمہارے ساتھ جانا نہیں عمائزہ غصے سے بولی۔

مجھے شیطان کہا تم نے؟ اذہان حیرت سے بولا۔

ہاں اذہان تم ہی ہو نا تو تمہیں ہی بولا ہے عمائزہ تپانے والی مسکراہٹ سے بولی۔


اگر میں شیطان ہوں تو عمائزہ تم شیطان کی نانی ہو اذہان دل جلانے والے انداز میں بولا۔

کیااااا تمہاری اتنی ہمت مجھے شیطان کی نانی بولو تم میں ابھی تمہارا حشر کرتی ہوں صبر کرو اذہان کی بات سن کر عمائزہ غصے سے لال ہوتے چہرے کے ساتھ پاؤں سے جوتا اتارنے لگی اذہان کو مارنے کے لیے اذہان جو حیرت سے اسے نیچے جھکتے دیکھ رہا تھا ایک دم عمائزہ کے سیدھا ہونے پر اس کے ہاتھ میں ہیل والا جوتا دیکھ کر چونکا اور اگلے ہی لمحے اس نے دوڑ لگا دی پھر اپنی گاڑی کے پاس آ کر ہی دم لیا۔


ہنہ ڈرپوک عمائزہ سر جھٹک کر جوتا پہننے لگی کہ گاڑی کی آواز پر سر اٹھا کر دیکھنے لگی مگر ڈرائیونگ سیٹ پر اذہان کو دیکھ کر اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔

تم کہو تو گدھا گاڑی لے آؤں تمہارے لیے اذہان مسکراہٹ دباتے بولا۔


کیوں؟؟ عمائزہ جو بیزاری سے اسے دیکھ رہی تھی کھڑی ہو کر اسے دیکھنے لگی۔

تم نے ہی کہا تھا میری گاڑی میں نہیں جاؤ گی تو سوچا گدھا گاڑی لا دیتا ہوں اس میں کمفرٹیبل رہو گی تم آخر ان کی جماعت سے ہی تو تعلق ہے تمہارا کیا کہتی ہو کہتے ہوئے اذہان قہقہ لگا کر ہنسا اس سے پہلے کہ عمائزہ آگے بڑھ کر اس کا سر پھاڑ دیتی اذہان گاڑی زن سے بھگا لے گیا۔


پیچھے سے عمائزہ بولی  دیکھ لوں گی میں تمہیں اذہان کے بچے پتہ نہیں کونسی منحوس گھڑی تھی جو ہمارا سامنہ ایک دوسرے سے ہوا۔ نا ہوتا تو اچھا تھا ڈفر ایڈیٹ پاگل کہیں کا ابھی وہ کچھ اور بھی کہنے لگی تھی کہ گاڑی کے ہارن کی آواز پر ہوش میں آئی اور سامنے دیکھنے لگی جہاں اس کا کزن واسع گاڑی میں بیٹھا اشارے سے بلا رہا تھا اسے دیکھ کر عمائزہ کی جان جل گئی پر مجبوری تھی اس کے ساتھ گھر جانا ورنہ وہ مر کر بھی اس شخص کا احسان نہیں لینا چاہتی تھی وہ گاڑی کی طرف آئی اور چپ کر کے بیٹھ گئی واسع نے عمائزہ کو دیکھا جس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا واسع نے ایک گہری سانس لی گاڑی سٹارٹ کی اور بنا کوئی بات کی آگے بڑھا دی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام و علیکم بھائی ارباب صائب کے ساتھ ہی اس کے کمرے میں آئی اور سلام کر کے بیڈ پر بیٹھ گئی۔

و علیکم السلام کیسی ہے میری ملکہ صائب ارباب کے پاس بیڈ پر بیٹھتا بولا۔

میں ٹھیک ہوں بلکل بھائی ماما کہ رہی تھیں آج رمضیہ آپی کی طرف چلیں ہم بھی ارباب مسکراتے ہوئے بولی جب بھی رمضیہ والوں کے گھر جانا ہوتا تھا تو وہ ایسے ہی خوش ہوتی تھی۔

ٹھیک ہے چلیں گے مگر پہلے بتاؤ ٹیسٹ یاد کر لیا صائب نے پیار سے پوچھا۔


جی بھائی کب کا کر لیا یاد ارباب جلدی سے بولی۔

اوکے شہزادی میں فریش ہو کر آتا ہوں پھر کھانا کھاتے ہیں پھر مجھے ایک کام سے جانا ہے وہاں سے آ کر ہم روحیل انکل کے گھر چلیں گے۔

اوکے بھائی آپ فریش ہو جائیں میں کھانا لگاتی ہوں ارباب کہتی ہوئی اٹھی اور کچن میں آگئ۔

Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, Friendship Base Novels

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صائب اور ارباب اپنے پیرینٹس کی وجہ سے جلدی ہی آگئے تھے تھوڑی دیر بعد ہی ان کے پیرینٹس گھر چلے گئے صائب روحیل صاحب کے کمرے میں ان کے پاس ہی بیٹھا رہا اور ارباب لاؤنج میں رمضیہ والوں کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

ویسے میں یہ سوچ رہی ہوں اذہان نے بے وقوف کیسے بنایا ان لڑکیوں کو شکل سے تو اچھی خاصی سمجھدار لگ رہیں تھیں فائقہ بولی۔


جس طرح کا وہ ہے نا اس کے کسی بھی چیز کی توقع کی جا سکتی ہے رمضیہ ہنستی ہوئی بولی ارباب ، افق اور فائقہ ہنسیں

کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو ویسے فائقہ نے کہا ۔

میں بابا کو دیکھ آؤں افق کہتی ہوئی روحیل صاحب کے کمرے کی طرف بڑھی۔


بیل کی آواز پر رمضیہ اٹھی اور گیٹ کھولنے کے لیے چلی گئی اور فائقہ اور ارباب آپس میں باتیں کرنے لگیں۔

اسلام و علیکم! رمضیہ نے جیسے ہی گیٹ کھولا ان سب نے ایک آواز میں سلام کیا رمضیہ جلدی سے پیچھے ہوئی اور وہ سب اندر آئے رمضیہ سلام کا جواب دیتی انہیں اندر لے آئی۔

لاؤنج میں افق فائقہ ارباب  اور روحیل صاحب کو دیکھ کر وہ سب دوبارہ سلام کرتے بیٹھ گئے روحیل صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

تم سب لڑکے یہاں کیا کر رہے ہو ارتضیٰ کو دیکھ کر فائقہ بولی۔


تمہارا گھر نہیں ہے جو تم پوچھ رہی ہو جس کا گھر ہے اسے تو کوئی اعتراض نہیں ہے ارتضیٰ تنک کر بولا۔

ایکسکیوز می ارتضیٰ میرا بھی یہی سوال ہے کہ تم سب یہاں کیا کر رہے ہو رمضیہ نے ارتضیٰ کی خوش فہمی دور کرنی چاہی۔

جب اذہان بولا رضیہ سلطانہ تم کبھی ہمیں خوش نہیں دیکھ سکتی جل ککڑی۔

آئے بڑے تم خود ہو گے جل ککڑ رمضیہ دانت پیس کربولی۔

باقی سب ان کی نوک جھونک سے محفوظ ہو رہے تھے۔


میں چائے بنا کر لاتی ہوں رمضیہ اٹھ کر کچن میں آگئی فائقہ بھی اس کے پیچھے کچن میں آئی۔

رومان کہاں ہے وہ نہیں آیا کیا صنوبر نے سہراب سے پوچھا رومان کا نام سن کر افق نے شرما کر سر نیچے جھگا دیا۔

نہیں وہ نہیں آئے گا آنا تو چاہتا تھا وہ مگر ہم نہیں لائے کیوں کے وہ دولہا ہے اور افق بھابھی کا رومان سے پردہ ہے بارات والے دن تک سہراب مزے سے بولا۔


اتنا اتاؤلا ہو رہا ہے وہ کہ کیا بتاؤں اذہان بولا۔

تم نا ہی بتاؤ صنوبر چڑ کر بولی رانیہ اور ارباب ہنسنے لگیں۔

روحیل صاحب کے ساتھ بیٹھا صائب بھی ہنس دیا۔

رمضیہ اور فائقہ چائے کی ٹرے لے  کر آئیں سب سے پہلے اذہان اٹھا اور رمضیہ کے ہاتھوں سے ٹرے جھپٹی۔

آرام سے کیں بھاگی نہیں جا رہی تم لوگوں کے لیے ہی لائی ہوں رمضیہ چیخ بولی جبکہ اذہان کی پھرتی دیکھ کر وہاں سب ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔


رضیہ سلطانہ گھر آئے مہمان کے ساتھ ایسے بات نہیں کرتے اتنا بھی نہیں پتہ مہمان رحمت ہوتے ہیں اذہان افسوس سے بولا اور بیٹھ کر ٹرے سے چائیے کے تین کپ اٹھا لیے اور ٹرے باقی سب کے آگے رکھ دی۔

روز روز کے مہمانوں کو رحمت نہیں زحمت کہتے ہیں رمضیہ فائقہ صنوبر کے پاس بیٹھتی بولی۔

سہی کہ رہی ہو تم رمضیہ نے بھی تائید کی۔

اذہان سر جھٹک کر چائے پینے لگا۔


چائے سے فارغ ہونے کے بعد رمضیہ کو یاد آیا کہ اس نے پوچھنا تھا اذہان نے ان لڑکیوں کو کیسے بیوقوف بنایا۔

اذہان کی طرف دیکھ کر بوچھ ڈالا۔

سہراب بولا میں بتاتا ہوں ہوا کیا اور پھر سب کو بتانے لگا کیسے اذہان سر کامران بن کر ان لڑکیوں کے پاس گیا اور پھر لائبریری کی جگہ واشروم کا راستہ سمجھا دیا۔

وہ سارے کے سارے ہنسی سے بو حال ہونے لگے کہ صنوبر نے پوچھا پر سہراب انہوں پہچانا کیسے نہیں کہ یہ سر نہیں ہیں کیوں کہ اذہان کا گیٹپ تو کہیں سے بھی نہیں لگتا سر کامران جیسا۔

 اذہان بدمزہ ہوا کہ صنوبر کو اس کی صلاحیتوں پر رتی بھر بھروسہ نہیں تھا۔


گیٹپ کی بات تو تم چھوڑ ہی دو صنوبر وہ اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اس کا گیٹپ دیکھ کر تو کچھ لمحے کے لیے میں بھی حیران رہ گیا کوئی بھی اگر اسے اس گیٹپ میں دیکھ لیتا تو اسے سر کامران ہی سمجھتا فہیم ہنستے ہوئے بولا۔

ہمممم میرے بھائی میں ملٹی ٹیلنٹ بھرا پڑا ہے کبھی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے رانیہ فخر سے بولی۔

او بی بی آرام سے بیٹھ جاؤ تمہاری غیرت بہت جوش مار رہی ہے ارباب رانیہ کا ہاتھ دبا کر بولی۔


اچھا اب سب باتیں چھوڑو اور جس کام کے لیے سب اکھٹے ہوئے ہیں وہ کام سٹارٹ کرو صنوبر سب کو دیکھ کر بولی۔

ہاں صنوبر ٹھیک کہ رہی ہے اب شروع ہو جاؤ اپنے اپنے سروں کے جوہر دکھانا سہراب بھی میدان میں آیا۔

اوکے تم لڑکے سب ایک طرف ہو جاؤ ہم سب لڑکیاں ایک طرف رمضیہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

لڑکے سب دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئےان کا ہیڈ صائب تھا اور لڑکیاں سب رمضیہ کی طرف آ کر اس کے ساتھ بیٹھ گئیں رمضیہ لڑکیوں کی لیڈر تھی روحیل صاحب کو جج بنایا گیا تھا تا کہ کوئی دھاندھلی نا کر پائے۔


پہلے ہم گائیں گے لڑکے والوں نے شور مچایا۔

اوکے اوکے گاؤ گاؤ کیا یاد کرو گے پہلا موقع ہم تمہیں دے رہیں ہیں اپنی آواز کا جادو چلانے کے لیے فائقہ بولی۔

فہیم نے ڈھولکی بجانے سے سٹارٹ لیا اور صائب کے علاوہ سب ایک ساتھ گانے لگے اور گانے کے بولوں کے ہاتھ پاؤں توڑنے لگے لڑکیاں ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہونے لگیں جب لڑکوں  کے والیوم بڑھنے لگے تو وہ سب کانوں پر ہاتھ رکھ کر چلائیں بسسسس کرو کیوں ہمیں بہرہ کرنا چاہتے ہو۔


 سب ایک دم خاموش ہو گئے اذہان اٹھا صنوبر کے سائیڈ میں پڑی چادر جھپٹی اور گلے میں لپیٹ کر بولا ارتضیٰ تو دھولک سنبھال اور سہراب تو ارتضیٰ کے ساتھ مل کر اوہو اوہو کرنا سمجھ گیا اب فہیم تو یہاں آجا فہیم بھی اٹھ کر اس کے برابر کھڑا ہو گیا۔

ارتضیٰ نے ڈھولک سنبھالنی اور سہراب کے ساتھ مل کر گانے لگا۔

فہیم سٹارٹ لے چکا تھا۔

تیرا دلبر تیرا ساتھی لے آئے گا ڈھول باراتی۔


پھر اذہان کی طرف دیکھ کر اسٹیپ کرتے بولا۔

تجھے ہم نشیں لے جائے گا ڈولی میں بٹھا کے اذہان نے چادر کا کونا مروڑتے ہوئے شرمانے کی ایکٹنگ کی۔

اوہو اوہو اوہو اوہو اوہو ارتضیٰ اور سہراب ساتھ بولے جبکہ لڑکیاں ہنستے ہوئے تالیاں بجا رہیں تھیں روحیل صاحب بھی ہنسی ضبط کرنے کے چکر میں بے حال ہو رہے تھے۔

پھر اذہان فہیم کی طرف آتے ہوئے گانے لگا اور ساتھ ساتھ دانس کرنے لگا ۔

میرا دلبر میرا ساتھی لے آئے گا ڈھول باراتی مجھے ہے یقیں لے جائے گا ڈولی میں بٹھا کے۔


اوہو اوہو اوہو اوہو اوہو ارتضیٰ اور سہراب کے ساتھ اب لڑکیاں بھی اوہو اوہو کرتی جا رہیں تھیں فائقہ تو سب سے نظر بچا کر ویڈیو بھی بنا رہی تھی۔

گانے کے اگلے بول اذہان خاص لڑکیوں کی طرف اشارہ کرتے بولا۔

دنیا والے دل والوں سے جانے کیوں جلتے ہیں نا پوچھو وہ چھپ چھپ کے کیسی چالیں چلتے ہیں۔

اوہو اوہو اوہو اوہو اوہو ارتضیٰ اور سہراب بے حال ہوتے ہوئے بولے صائب بھی ان کی حالت پر ہنسے بنا نا رہ سکا۔

جبکہ گانے کے بول اور اذہان کے اشاروں پر لڑکیاں کلس کر رہ گئیں۔


گانے کے اگلے بولوں پر فہیم نے رمضیہ کی طرف اشارہ کیا۔

اپنے آگے اب ان کی نا کوئی چال چلے گی اس دل کے انگارے میں نا ان کی دال گلے گی۔

اوہو اوہو اوہو اوہو اوہو اوہو ارتضیٰ اور سہراب بھی ان کے ساتھ آ کر ناچنے لگے سہراب نے تو دونوں کی بلائیں لے ڈالیں صائب بھی اٹھ کر ان کی طرف آیا اور کچھ پیسے ان کے سروں پر سے وار کر سائیڈ پر رکھے کہ کسی مستحق کو دے دے گا۔

لڑکیاں بھی ہنستی ہوئی کھڑی ہوئیں اور رانیہ بولی پہلی فرست میں آپ لوگ کوئی ڈانس کلب کھول لو خوب چلے گا۔


ہاں سہی کہہ رہی ہے رانیہ ارباب بھی بولی۔

بس بس زیادہ بھاشن دینے کی ضرورت نہیں ہمیں پتہ جیلس ہو رہی تم لوگ ہم سے کہ ہم نے اتنا اچھا ڈانس کیا اذہان چڑاتے ہوئے رانیہ سے بولا پھر روحیل صاحب کی طرف مڑا اور بولا انکل آپ کو مزہ آیا نا۔

ہاں بھئی مجھے تو بہت مزہ آیا روحیل صاحب ہنس کر بولے۔

اب نکلو بہت ٹائم ہو گیا صبح یونی جانا ہے اور بازار بھی ہم نے فائقہ بولی افق بھی کہنے لگی ہاں پڑھائی پر کوئی کمپرومائز نہیں۔

اچھا ٹھیک ہے جاتے ہیں ہم گھر پر اس سے پہلے آئسکریم کھانے چلیں سہراب بولا۔


اس ٹائم صائب حیرت سے گھڑی دیکھتے بولا جہاں بارہ بجنے میں پانچ منٹ تھے۔

ہاں تو کیا تھوڑی دیر کی بات ہے چلو نا ارتضیٰ بولا۔

ٹھیک ہے بچوں تم لوگ جاؤ پر جلدی فری ہو کر گھر آ جانا روحیل صاحب کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔

رمضیہ تم جاؤ میں بابا کے پاس رکتی ہوں افق بولی۔

نہیں آپی میں نہیں جا رہی رمضیہ صائب کو دیکھتے بولی۔


چل نا رمضیہ چلتے ہیں صنوبر بولی رانیہ اور ارباب بھی کہنے لگی چلو نا آپی ہمیں تو کبھی کبھی موقع ملتا ہے ہمارے لیے ہی چلو پلیززز ان کے زد کرنے پر رمضیہ مان گئی اور وہ سب گیٹ کے پاس آئے سب باہر نکلے رمضیہ نکل رہی تھی کہ افق بولی رمضیہ دھیان سے اوکے اور جلدی وآپس آنا۔

جی آپی آپ فکر نا کریں رمضیہ افق کا ہاتھ پکڑ کر بولی اور اللّٰہ حافظ کہتے باہر نکل گئی افق بھی گیٹ بند کر کے اندر چلی گئی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سب آئسکریم پارلر کے سامنے پارک میں بیٹھے تھے صائب اور سہراب آئسکریم لینے گئے تھے ابھی اذہان ان سب سے کچھ کہتا کہ اچانک اس کی نظر آئسکریم پارلر س نکلتی عمائزہ پر پڑی وہ فوراً اٹھ کر بھاگا۔اسے کیا ہوا صنوبر حیرت سے بولی۔

پتہ نہیں پھر کوئی شیطانی دماغ میں آئیڈیا آگیا ہو گا اسے ہی انجام دینے جا رہا ہو گا رمضیہ سب کو دیکھتی بولی۔


سہی کہ رہیں ہیں آپی ورنہ کوئی کھانے کی چیز آنے والی ہو اور بھائی کھائے بنا چلیں جائیں مطلب کچھ تو گڑ بڑ ہے ارباب کچھ تو گڑ بڑ ہے رانیہ ارباب کا کندھا ہلاتی بولی۔

یار مجھے تو بخش دو اس سب میں میرے معصوم کندھے کا کیا قصور ہے ارباب بےبسی سے بولی جبکہ باقی سب ہنس دیے۔

Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, Friendship Base Novels

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام و علیکم مس عمائزہ،عمائزہ جو اپنے دھیان میں آیت اور واسع کے ساتھ سیڑھیاں اتر رہی تھی اذہان کی آواز پر گرتے گرتے بچی۔

وعلیکم السلام عمائزہ اذہان کی طرف دیکھ کر الفاظ چبا چبا کر بولی اور  آیت کا منہ کھل گیا اذہان کو یہاں دیکھ کر دن والی ساری باتیں یاد آنے لگیں جبکہ واسع حیرت سے کبھی اذہان کو دیکھ رہا تھا تو کبھی عمائزہ کو۔


عمائزہ اذہان کے سائیڈ سے نکل کر آگے بڑھنے لگی ہی تھی کہ اذہان پھر سامنے آیا اور بولا مس عمائزہ میں سر کامران پہچانا نہیں آپ نے مجھے شاید صبح ملے تھے ہم۔

کون ہے یہ لڑکا عمائزہ واسع نے سخت لہجے میں پوچھا آیت تو منہ کھولے بس انہیں دیکھی جا رہی تھی جب عمائزہ کی آواز پر چونکی۔


جی سر کامران میں نے پہچان لیا آپ کو اور واسع یہ ہمارے اکنامکس  ڈپارٹمنٹ کے لیکچرار ہیں اذہان رضا۔ شیطان کا استاد آخری الفاظ منہ میں بڑبڑائی جو اذہان کو سمجھ آیا اور بہت مشکل سے اپنا قہقہ روکا۔

جی واسع بھائی انہوں نے صبح ہماری ہیلپ کی تھی ہمیں راستہ سمجھانے میں آیت بھی آگے آ کر بولی۔

اچھا پھر تو شکریہ کہنا بنتا ہے واسع اذہان کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔


نہیں واسع تم کیوں شکریہ ادا کرو گے میں اور آیت خود کر لیں گی صبح عمائزہ اذہان کو غصے بھری نظروں سے دیکھ کر بولی۔


جی واسع آپ شکریہ مت کہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں اذہان بھی مسکرا دیا پھر بولا اوکے میں چلتا ہوں اب اور عمائزہ کو ایک جاندار مسکراہٹ پاس کرتا سائیڈ سے گزرنے لگا کہ عمائزہ نے اس کے پاؤں پر اپنی ہیل والی سینڈل ماری اذہان جوتے میں مقید اپنا پاؤں دیکھ کر عمائزہ کی طرف دیکھنے لگا جو ایک بھرپور دل جلانے والی مسکراہٹ پاس کرتی آیت کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گئی واسع بھی ان کے پیچھے چلا گیا۔


اذہان درد برداشت کرتے مسکرایا اور ارتضیٰ والوں کے پاس آگیا وہ بیٹھا ہی تھا کہ رانیہ نے پوچھا بھائی آپ کہاں گئے تھے۔

کہیں نہیں بس ایک دوست نظر آ گیا تھا اس سے سلام دعا کرنے گیا تھا۔

کونسا دوست ارتضیٰ بولا۔

تم لوگ نہیں جانتے اسے اذہان جان چھڑانے والے انداز میں بولا۔

یہ کونسا دوست ہے جسے ہم نہیں جانتے فہیم اذہان کو مشکوک نظروں سے دیکھتا بولا۔


اذہان کوئی بہانہ سوچ ہی رہا تھا کہ سہراب اور صائب آتے نظر آئے اذہان اٹھ کر صائب کی طرف بھاگا۔

رانیہ ایک بات تو بتاؤ کہ اذہان  کو تم لوگ کہیں سے اٹھا کر تو نہیں لائے نا یہ تمہارا بھائی ہی ہے نا کیوں کہ تم لوگوں سے نہیں ملتا یہ کوئی اور ہی مخلوق لگتا ہے مجھے رمضیہ تشویش سے بولی۔

جی آپی یہ میرے ہی بھائی ہیں کوئی شک نہیں ہے رانیہ ہنستے ہوئے بولی تو وہ لوگ بھی ہنس دیں۔

صائب اور سہراب قریب آ کر انہیں آئسکریم دینے لگے جبکہ اذہان پہلے ہی ان سے دو آئسکریم کے کپ جھپٹ کر اپنے قبضے میں کر چکا تھا اور اب مزے سے کھا رہا تھا۔


سب کو آئسکریم پکڑا کر سہراب اور صائب بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔

وہ سب آرام آرام سے آئسکریم کھاتے ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے کہ اذہان اپنی آئسکریم جلدی سے ختم کرتے فہیم کی طرف بڑھا اور جھپٹ کر آئسکریم کا کپ چھین کر کھانے لگا فہیم کا منہ کھل گیا اس زیادتی پر اذہان آئسکریم کی دوسری بائٹ لینے ہی لگا تھا کہ سہراب نے اذہان سے جھپٹ لیا آئسکریم کا کپ اور مزے سے کھانے لگا۔


فائقہ لڑکیوں کو دیکھ کر بولی مانو نا مانو ان سب کا تعلق کسی ایسے قبیلے سے تھا جہاں کے لوگوں کو پوری دنیا کی چیزیں کھلا دو پھر بھی ان کے پیٹ اور دو اور دو کے راگ الاپیں گے ایسا سولڈ اندازہ لگانے پر ان سب کے قہقے بلند ہوئے۔

جبکہ فہیم اذہان کو مارنے کے لیے لپکا مگر اذہان منہ چڑاتا ہوا بھاگ نکلا وہ سب بھی اپنی آئسکریم ختم کرتے کھڑے ہو گئے اور گاڑیوں کی طرف جانے لگے۔


اذہان رانیہ کو گاڑی میں بٹھا کر پہلے نکلا اس کے پیچھے ہی سہراب اور صنوبر نکلے فہیم کو بھی وہ لوگ چھوڑنے والے تھے ۔

صائب ارتضیٰ اور ارباب کے ساتھ فائقہ اور رمضیہ کو چھوڑنے گئے اس کے بعد ارتضیٰ کو اس کے گھر چھوڑ کر صائب ارباب کو لے کر اپنے گھر آگیا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ پہلی کلاس لے کر نکلے ہی تھے اور گراؤنڈ کی طرف جانے لگے ابھی دوسری کلاس کا ٹائم ہونے میں بیس منٹ تھے کہ اذہان بولا صائب تو بتا رہا تھا نا نیو کمرز کے لیے ویلکم پارٹی ارینج کی جائے گی تو کب کرنی ہے تجھے پتہ ہے کچھ۔

ہاں پرفیسر سے پتہ چلا تھا کہ نیکسٹ ویک میں کوئی دن ہو گا ویلکم پارٹی کے لیے صائب سر ہلاتے بولا۔


چلو یہ بھی اچھا ہے رومان کی شادی کے بعد ہی ہو گی تو ٹھیک سے انجوائے کر سکیں گے ارتضیٰ رومان کی طرف دیکھ کر شرارت سے بولا رومان بھی مسکرا دیا۔

وہ سب گراؤنڈ میں بیٹھے تھے کہ اذہان کچھ یاد آنے پر اٹھا میں آتا ہوں تھوڑی دیر تک اور بھاگ نکلا۔


یہ آج کل اس کی کچھ زیادہ ہی دوڑیں نہیں لگ رہیں مجھے تو دال میں کچھ کالا لگتا ہے میں کہ رہا ہوں یہ لڑکا کوئی چاند چڑھا کر رہے گا فہیم عورتوں کی طرح ہاتھ نچا نچا کر بولا اور خود بھی اٹھ کر اذہان کے پیچھے آیا جبکہ وہ سب سر جھٹک کر اپنی باتوں میں لگ گئے۔


فہیم جو اذہان کے پیچھے آیا تھا اسے لائبریری کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے دیکھ کر رک گیا اور دیکھنے لگا کہ اذہان کیا کرنے والا ہے مگر جیسے ہی لائیبریری کی سیڑھیاں اترتے عمائزہ اور آیت کو دیکھا تو سارا معاملہ جیسے اسے سمجھ آگیا فوراً موبائل نکال کر گروپ میں میسج بھیجا کہ اذہان کی درگت بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہو تو لائبریری کے باہر آجاؤ میسج بھیج کر موبائل میں کیمرہ آن کرنے لگا ویڈیو بنانے کے لیے۔

Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, Friendship Base Novels

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ صائب سے اسائنمنٹ کے بارے میں ڈسکس کر رہے تھے کہ ان چاروں کا موبائل بجا۔

سب سے پہلے سہراب نے دیکھا اور میسج پڑھ کر سب کو بتایا اور کھڑا ہو گیا وہ سب بھی کھڑے ہو گئے اور لائبریری کی طرف چل دیے۔

انہیں دیکھ کر فہیم نے ہاتھ ہلا کر اشارہ کیا وہ سب فہیم کے پیچھے آ کر کھڑے ہو کر دیکھنے لگے جہاں اذہان عمائزہ اور آیت کا راستہ روکے کھڑا تھا۔


مس عمائزہ آپ نے میرا شکریہ ادا کرنا تھا مجھے لگا شاید آپ بھول گئیں ہوں گی اس لیے یاد دلانے آگیا اذہان دانت نکالتے بولا۔

عمائزہ غصے سے اذہان کی طرف بڑھی اور بولی تم میرا پیچھا کر رہے ہو جانتے نہیں میں کون ہوں میں عمائزہ ضامن ہوں ایسی جگہ چھوڑ کر آؤں گی نا کہ یاد رکھو گے ساتھ کھڑی آیت تھر تھر کانپ رہی تھی جیسے ابھی ہی بے ہوش ہو جائے گی۔

میں تو تمہارے ساتھ جہنم میں چلنے کو بھی تیار ہوں بس شرط یہ ہے کہ تم ساتھ چلو اذہان تپانے والی مسکراہٹ دکھاتے بولا۔


تمممممم میں تمہارا جینا حرام کر دوں گی سمجھتے کیا ہو تم خود کو عمائزہ غصے سے گھورتے ہوئے بولی۔

افففف یہ ادا یہ ناز یہ انداز آپکا،

 دھیرے دھیرے پیار کا بہانہ بن گیا

 ہو دھیرے دھیرے پیار کا بہانہ بن گیا 

اذہان عمائزہ کے غصے کو خاطر میں نا لاتے گنگنانے لگا آیت کی تو حیرت سے آنکھیں ہی باہر آگئیں تھیں اذہان کی ڈھٹائی پر اور دور کھڑے صائب رومان افسوس بھری نظروں سے اذہان کو دیکھ رہے تھے جبکہ فہیم ارتضیٰ اور سہراب ہنسی دبانے کے چکر میں نیچے بیٹھ گئے۔


تم ایک نمبر کے کوئی فالتو انسان ہو عمائزہ اذہان پر اپنے غصے کا اثر نا ہوتے دیکھ کر بولی۔

اور تم دو نمبر کی ہئے کیا جوڑی بنے گی ہماری اذہان بنا برا منائے بولا۔

عمائزہ نے آؤ دیکھا نا تاؤ اور ہاتھ میں پکڑی بکس اٹھا کر اذہان کے سر پر ماریں اور آیت کا ہاتھ پکڑ کر بھاگی۔


اذہان کو لگا جیسے اس کا دماغ ہل گیا ہو دو منٹ تک تو سر تھام کر کھڑا رہا پھر قہقہوں کی آواز پر یہاں وہاں دیکھا کوئی نہیں تھا تھوڑا آگے آیا تو دیکھا فہیم ارتضیٰ اور سہراب زمین پر لیٹے ہنسی سے بے حال ہو رہے تھے اور صائب رومان بھی اپنی ہنسی کنٹرول کر رہے تھے۔

مر جاؤ منحوسوں اذہان ان کو ہنستے دیکھ کر جل گیا اور آگے بڑھ گیا وہ سب بھی اس کے پیچھے بھاگے۔

Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, Friendship Base Novels

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ واپس گراؤنڈ میں آ کر بیٹھ گئے تھے صائب اور رومان تو کلاس لینے چلے گئے مگر ان کا ایسا کوئی ارادہ نا تھا جبکہ فہیم کسی کی ہڈی پسلی ایک کرنے گیا تھا اس کے چیلے اسے لے گئے تھے کہ کہیں پھڈا ہو گیا ہے وہ بھی اپنا حصہ ڈال لے آ کر۔

یہ کسی دن ان پھڈوں کے چکر میں مر مرا جائے گا لکھوا لے تو مجھ سے سہراب ارتضیٰ سے بولا۔


تجھے کیوں تکلیف ہو رہی ہے مرنے دے اسے خود کو نہیں پرواہ تو۔ تو کیوں اپنا خون جلا رہا ہے اذہان چڑ کر بولا وہ خود بہت تنگ تھا فہیم کے ان آئے دن کے جھگڑوں سے۔

خیر اسے چھوڑ۔ پر وہ لڑکی ویسے ہے بڑی جی دار ارتضیٰ بات بدلتے اذہان کو دیکھ کر بولا

ہاں یار تبھی تو میں اسے تنگ کرتا ہوں مجھے اسے چڑانے میں بہت مزہ آتا ہے اذہان مزے سے بولا۔


سہراب اذہان کو گھور کر بولا سالے دھیان سے کہیں لینے کے دینے نا پڑ جائیں۔

نہیں ہوتا کچھ اپنے بھائی پر بھروسہ رکھ اذہان تسلی دیتے بولا چل کینٹین چلتے ہیں کچھ پیٹ پوجا کریں اذہان کھڑا ہوتے ہوئے بولا تو وہ دونوں بھی اٹھ گئے اور وہ لوگ کینٹین کی طرف آگئے۔

Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, Friendship Base Novels

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بیٹھے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ اندر آتی عمائزہ اور آیت پر ان کی نظر پڑی دیکھ اذہان یہاں کچھ مت کریں ورنہ تیری عزت جنازہ نکل جانا ہے ادھر ہی سہراب اذہان سے بولا جو سامنے والی ٹیبل پر عمائزہ اور آیت کو بیٹھتے دیکھ کر مسکرایا عمائزہ بھی اسے دیکھ چکی تھی غصے سے منہ پھیر گئی۔


تھوڑی دیر میں ہی صائب رومان صنوبر فائقہ اور رمضیہ بھی کینٹین آگئے۔

افففف آج تو پکا دیا میم رودابہ نے صنوبر ٹیبل پر کتابیں پٹختے ہوئے بولی اور چئیر گھسیٹ کر بیٹھ گئی وہ سب بھی بیٹھ گئے۔

کیوں کیا ہوا سہراب نے پوچھا۔

سب صنوبر کی طرف دیکھنے لگے۔


ہونا کیا ہے میم رودابہ نے کہا ہے جو ٹرپ نیکسٹ منتھ جانا تھا وہ اب دو منتھ بعد جائے گا اور جو نیو کمرز ہیں شاید وہ بھی جائیں پر ابھی کچھ فائنل نہیں ہے اس لیے ہماری صنوبر میڈم کا منہ بنا ہوا ہے فائقہ ہنستے ہوئے بتانے لگی باقی سب بھی صنوبر کا پھولا منہ دیکھ کر مسکرا دیے۔


اچھا چھوڑو ابھی تو رومان اور افق آپی کی شادی ہے پھر ویلکم پارٹی تو یہ سب انجوائے کرو ابھی باقی بعد میں دیکھیں گے موڈ ٹھیک کرو اپنا صائب پیار سے سمجھاتے ہوئے بولا ہاں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں صنوبر سرپر ہاتھ مار کر بولی سب اس کے انداز پر ہنس دیے۔

عمائزہ ان کی دوستی کتنی خالص لگتی ہے نا اور یہ سب ایک ساتھ کتنے اچھے لگتے ہیں کاش ہمارے بھی ایسے کوئی دوست ہوتے آیت افسردہ سی بولی۔


ہاں کاش عمائزہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولی اور جوس پینے لگی۔

صنوبر کی ان پر نظر پڑی اور اٹھ کر ان کے پاس آگئی اور بولی اسلام و علیکم میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں عمائزہ نے سر ہلا کر اجازت دی۔ جبکہ پیچھے وہ سب حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ صنوبر کر کیا رہی ہے۔

میرا نام صنوبر ہے میں آپ سے سینئر ہوں صنوبر کی بات سن کر آیت اور عمائزہ کی مسکراہٹ بے ساختہ تھی

میں عمائزہ ہوں اور یہ میری بچپن کی دوست آیت عمائزہ نے تعارف کروایا۔

آپ دونوں سے مل کر خوشی ہوئی کیا آپ میری دوست بنیں گی صنوبر خوشی سے چہکتے ہوئے بولی۔ 

جی ضرور کیوں نہیں عمائزہ کو صنوبر بہت اچھی لگی تھی معصوم سی لڑکی۔


ٹھیک ہے آج سے ہم فرینڈز ہیں اور وہ میری دوستیں ہیں فائقہ اور رمضیہ صنوبر اپنے پیچھے اشارہ کرتے ہوئے بتانے لگی عمائزہ اور آیت، فائقہ اور رمضیہ کو دیکھ کر ہاتھ ہلانے لگیں رمضیہ اور فائقہ نے بھی مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا اور صائب کے ساتھ بیٹھے اذہان کے زور زور سے ہاتھ ہلانے پر ارتضیٰ نے زبردستی اس کا ہاتھ نیچے کیا جبکہ عمائزہ کا دل کیا کہیں جا کر کسی کھائی میں دھکا دے آئے اذہان کو۔


رمضیہ اور افق بھی ان کے پاس آگئیں اور تھوڑی دیر میں وہ بہت اچھی دوستیں بن چکیں تھیں اتنا ہی نہیں بلکہ رمضیہ نے تو افق کی شادی کی دعوت بھی دے ڈالی تھی اور ان سے وعدہ بھی لیا تھا کہ وہ ضرور آئیں جبکہ اذہان کے علاوہ باقی سب ان کی جلد بازی پر جل کے رہ گئے۔

Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, Friendship Base Novels

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا کیا رہ گیا ہے گڑیا تمہارا اب افق رمضیہ کو چیزیں پھیلا کر بیٹھے دیکھ کر بولی۔

آپی سب کمپلیٹ کر کے رکھتی ہوں مگر پھر کچھ نا کچھ رہ جاتا ہے رمضیہ روہانسی ہوتی ہوئی بولی۔

کیا رہ گیا میری گڑیا رانی کا افق رمضیہ کے پاس بیٹھتی بولی۔

آپی کھسہ نہیں لیا میں نے مہندی والے دن جو پہننا تھا رمضیہ افق سے بولی۔


چلو کوئی بات نہیں کل لے آنا افق نے آرام سے کہا۔

آپی کل مہندی ہے کل اور بھی بہت سے کام ہوں گے رہنے دیں میں کوئی پرانا ہی پہن لوں گی کونسا کسی نے دیکھنا ہے رمضیہ سامان سمیٹتے ہوئے بولی۔

افق بنا کچھ بولے کمرے سے باہر نکل آئی اور لاؤنج میں آتے صائب کو کال کرنے لگی بیل جا رہی تھی دو منٹ بعد ہی کال اٹھا لی گئی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام و علیکم آپی خیریت اس وقت کال کی سب ٹھیک تو ہے نا صائب نے ایک ہی سانس میں سب سوال پوچھ ڈالے۔ 

وعلیکم السلام جی میرے چھوٹے بھیا سب ٹھیک ہے میں نے یہ پوچھنے کے لیے کال کی تھی کہ کل تم بازار جاؤ گے کیا؟

جی آپی جانا تو ہے آپ کو کوئی کام تھا صائب پوچھنے لگا۔


ہاں صائب مجھے کام تھا وہ رمضیہ نے مہندی والے دن جو جوتا پہننا تھا وہ میڈم لے کر نہیں آئیں اب رو رہیں تھیں بیٹھ کر اور میں نے کہا کل لے آنا تو کہتی ہے کل اور بھی کام ہوں گے میں کوئی پرانا ہی پہن لوں گی تم اگر کل بازار جاؤ تو رمضیہ کے لیے جوتا لے آؤ گے افق نے صائب کو ساری بات بتا کر پوچھا۔


جی آپی میں لے آؤں گا آپ پریشان نا ہوں صائب پیار سے بولا۔

ٹھیک ہے پھر خیال رکھنا اللّٰہ حافظ۔

آپ بھی خیال رکھیے گا اللّٰہ حافظ صائب نے کال بند کر موبائل بیڈ پر پھینکا اور لیٹ گیا۔

Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, Friendship Base Novels

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن صنوبر رمضیہ اور فائقہ تو یونی نہیں آئیں مگر رومان کے علاوہ وہ سب یونی میں موجود تھے پہلی دو کلاسز ان کے لیے امپورٹنٹ تھی کیوں کہ انکی اسائنمنٹ ملی تھی ان سب کو جو اگلے ہفتے سبمٹ کروانی اس لیے وہ سب آج یونی آئے تھے۔


کلاسز سے فری ہو کر اذہان عمائزہ کی کلاس کی طرف آگیا مگر عمائزہ کہیں نظر نا آئی تو مایوسی سے واپس مڑ گیا۔

کیا ہوا شیرو ملی نہیں بھابھی فہیم معنی خیزی سے بولا۔

چپ کر کمینے اور چل گھر چلیں شام میں ٹائم سے پہنچنا ہے رومان کی طرف بھی اور ابھی گھر میں بھی بہت سے کام ہیں ایسے لگ رہا شادی ہمارے گھر ہو رہی ہے اذہان تپ کر بولا۔


وہ بھی کیا کرتا گھر والے ہر کام کے لیے اسے دوڑا رہے تھے تپتا نا تو کیا کرتا وہ۔۔

اوکے چل نکلتے ہیں باقی سب تو کب کے نکل گئے فہیم اس کے تپے چہرے کو دیکھ کر بولا اور وہ دونوں گیٹ کی طرف بڑھ گئے۔

Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, Friendship Base Novels

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت تیزی سے گزر رہا تھا لیکن کام تھے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے سب کچھ کمپلیٹ کرنے کے بعد بھی کچھ نا کچھ رہ جاتا تھا روز یونی اور بازاروں کے چکر سے وہ سب پاگل ہو گئے تھے سب سے زیادہ دماغ تو سہراب کا خراب ہوا پڑا تھا کہ صنوبر کی ساری چیزیں وہ کمپلیٹ کرکے دیتا تھا اور پھر وہ میڈم کوئی نا کوئی چیز گم کر کے بیٹھی ہوتی تھی اور سہراب کو پھر بازار جا کر وہ چیز لا کر دینی پڑتی تھی آج رومان اور افق کا نکاح تھا اور آج بھی سہراب بازار میں خوار ہو رہا تھا


دوسری طرف اذہان اور فہیم بھی گھر کے کاموں میں گھن چکر بنے ہوئے تھے فہیم کی آپی بھی دبئی سے آگئی تھی افق اور رومان کی شادی اٹینڈ کرنے اور فہیم کبھی بچوں کو باہر لے جا رہا تھا تو کبھی آپی کے کام سے بازار جا رہا تھا۔

اللّٰہ اللّٰہ کر کے سارے انتظامات مکمل ہوئے اور نکاح کا وقت بھی آن پہنچا۔

  (جاری ہے)


Yara Teri Yari Novel Part 4 by Aleena Meer | Farhan Speak, Urdu Novels, Novels, Friendship Novels, Funny Novels, Friendship Base Novels

No comments:

Post a Comment